شراب خانے میں اس اعتماد کے ساتھ داخل ہوا جیسے میں یہاں کا مستقل گاہک ہوں ۔ابھی رش کا وقت شروع نہیں ہوا تھا۔ ایک دو گاہک بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے دل میں سوچا بڑے صحیح وقت پر آیا ہوں۔ مجھے ہجوم بالکل پسند نہیں۔ اونچے سٹول پر کاؤنٹر کے سامنے یوں بیٹھ گیا جیسے ہالی ووڈ کی فلموں میں ایک طرف منہ موڑ کر ایکٹر بیٹھتے ہیں اور جیسے یوں بیٹھنا میرا معمول ہو ۔ اتنے میں ایک خاتون پچھلے دروازے سے داخل ہو کر کاؤنٹر کے قریب آکر مجھ سے پوچھنے لگی :
“May I help you Sir”
اور جونہی میں نے منہ پھیر کر اس کی طرف دیکھا تو جیسے اس کو بجلی کا جھٹکا لگا ۔ آپ یہاں سر؟
اسے دیکھتے ہی میری آواز بھی گلے میں اٹک گئی ۔
یہ اس دور کی بات ہے جب پورے ٹورانٹو شہر میں صرف ایک مسجد ہوا کرتی تھی۔ اس شہر میں رہنے والے مسلمان جمعہ کی نماز کے لیے یہاں اکٹھے ہوتے اور ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ، جان پہچان اور دوستی پیدا کرتے۔ یہ مسجد یہاں کے ماحول میں عبادت گاہ بھی تھی اور کمیونٹی سنٹر بھی۔نماز سے فارغ ہوکر لوگ باہر نکل کر لان میں گپ شپ کے لئے بہت دیر تک کھڑے رہتے۔ یہ جگہ ایسی تھی جہاں نئے لوگوں سے جان پہچان پیدا ہوتی۔
میں جب مائیگریشن کرکے اس دیس میں آیا تو ایک لا فرم میں ملازمت کرلی اور ساتھ ساتھ ٹورانٹو یونیورسٹی سے لا میں ماسٹر ڈگری بھی حاصل کرلی اور تین سال کے عرصے میں اسی فرم میں پارٹنر بن گیا۔ یوں میری کاروباری پوزیشن میں کافی ترقی ہوئی تو لوگوں سے میل جول رکھنا بھی ضروری ہو گیا ۔میری کوشش تھی کہ اونچی سوسائٹی میں اپنے میل ملاپ کا سرکل بناؤں جو میری سوشل زندگی کیلئے مناسب ہو۔
مسجد کے ایک ڈائریکٹر کے ساتھ میری شناسائی ہو گئی تھی اور آگے ان ہی کی وساطت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات پیدا کر رہا تھا۔ ان کا نام ابوالقاسم تھا ۔وہ لبنانی عرب تھے، ان کا فرنیچر کا کارو بار تھا اور وہ فرنیچر کے دو بڑے سٹوروں کا مالک تھا ۔ مالی لحاظ سے کافی خوشحال تھا۔ اور شہر کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور میل جول تھا ۔ کبھی کبھی جمعہ کا خطبہ بھی دیا کرتا۔ اچھا خاصا عالم شخص تھا اور بہت وسیع دینی معلومات رکھتا تھا۔ جب بھی ٹی وی پر کوئی اسلامی پروگرام ہوتا یا بحث مباحثہ ہوتا تو اس میں ابوالقاسم صاحب شامل ہوتے۔ ان کی وساطت سے ہی میری ملاقات اکبر خان، شجاعت علی ، ابو بکر اور پیر سید قربان علی شاہ سے ہوئی اور ہم چھ دوستوں کا ایک اچھا سرکل بن گیا ۔
اکبر خان افغانستان سے تھا۔ ٹورانٹو میں ان کا قالینوں کا ہول سیل کا کاروبار تھا۔ وہ قالین افغانستان، پاکستان، ایران اور ترکی سے امپورٹ کرتاتھا ۔ ٹورانٹو میں اس کا ایک بڑا وئیر ہاوس تھا جو ہمہ وقت سامان سے بھرا رہتا تھا۔ یہی کوئی چالیس سال کے لگ بھگ عمر ہوگی۔ نیک انسان تھا۔ نماز روزے کا سختی سے پابند اور ہر وقت تسبیح ہاتھ میں ہوتی۔مسجد کو چندے میں خطیر رقم دیتا ۔ سکول سے آگے تعلیم نہیں تھی مگر وسیع جنرل نالج کا مالک تھا ۔بات چیت کا ایسا ماہر تھا کہ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ سکول سے آگے کالج کا منہ نہیں دیکھا ہوگا۔ شجاعت علی پاکستان ہائی کمیشن کے ٹورانٹو آفس میں سینئر افسرتھے ۔عمر میں یہ بھی چالیس سال کے تھے۔ شیعہ فرقے سے تعلق تھا مگر مذہب کے معاملے میں آزاد خیال تھے ۔ طبیعت میں مذہبی تعصب کا نام و نشان نہیں تھا ۔اس وقت یہاں اہل تشیع کی کوئی علیحدہ مسجد نہیں تھی سب مل کر اکٹھے نماز پڑھتے اور ایک ساتھ عید مناتے ۔ سب مسلمان بھائی چارے اور امن سے رہتے تھے ۔
ابوبکر کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا ۔ سرکاری خرچ پر یہاں اعلا تعلیم کیلئےآیا تھا۔اسے سعودی حکومت سے اتنی خطیر رقم ملتی تھی کہ اگر وہ یہاں رہ کر کام کرتا تو اتنا نہیں کما سکتا تھا۔ وہ واپس بھی جانا نہیں چاہتا تھا ۔ جب ایک کورس مکمل ہوجاتا تو کسی نئے کورس میں داخلہ لے لیتا ۔ یہ سلسلہ سات آٹھ سال سے چل رہا تھا۔ پیسے ٹکے کی کمی نہیں تھی۔ سعودی حکومت سے مسجد کیلئے بھی بہت سارا چندہ لے آتا۔نماز کا سختی سے پابند تھا مگر ہماری طرح لمبی نمازیں نہیں پڑھتا تھا۔ اکبر خان کی طرح اس کے ہاتھ کبھی تسبیح سے خالی نہیں دیکھے ۔ ہمارے ساتھ کھلی گپ میں بھی مصروف رہتا اور تسبیح کے دانے بھی لگاتار گنتا رہتا۔ عام سعودیوں کی طرح اس کی بھی ٹھوڑی پر چھوٹی سی داڑھی تھی۔ بہت نیک اور خدا ترس شخص تھا اور ہمارے سرکل میں بالکل فٹ تھا ۔
پیر سید قربان علی شاہ پنجاب کے ایک اونچے اور مشہور پیر خانے کے سر براہ اور گدی نشین تھے اور قومی اسمبلی کے منتخب ممبر تھے ۔ جو سیاسی پارٹی بھی بر سر اقتدار ہوتی اس پارٹی کو شاہ صاحب کی اشد ضرورت رہتی اور سنا تھا شاہ صاحب وطن کی محبت میں کسی کو مایوس نہ کرتے ۔ عمر میں وہ بھی چالیس کے پیٹے میں تھے۔ بے حد خوش مزاج اور بذلہ سنج طبیعت کے مالک تھے ۔لطیفے سنانے میں بھی کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ان سے پوچھتے کہ آپ اسمبلی میں کیا کرتے ہیں تو جواب دیتے وہ جو سامنے ڈسک ہوتا ہے نا، کسی کو داد دینا ہو تو اس پر طبلہ بجاتا ہوں ۔ وہاں اور کچھ کرنے کو نہیں ہوتا۔پھر بھی ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ سے طبلہ بجاتے ۔ واپس آتے تو تسبیح الماری میں بند کر کے رکھ دیتے۔ پنجاب میں ان کے اتنے مرید تھے کہ ان کو خود شمار کا اندازہ نہیں تھا۔ مرید دیدار کو ترستے ۔اگر کسی کو زندگی میں ایک بار ان کے ہاتھ چومنے کی سعادت نصیب ہو جاتی تو وہ جنت میں اپنی سیٹ پکی سمجھ لیتا ۔وہ کہتے اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اپنی پوری فیملی ٹورانٹو میں رکھی تھی۔ کہتے تھے یہاں سکولوں کی تعلیم اور ماحول اچھا ہے۔ سب کچھ مفت بھی ہے۔ اور یہاں کی حکومت بچوں کا جیب خرچ بھی دے دیتی ہے ۔ جب اسمبلی سیشن میں ہوتی تو چلےجاتے ہیں اور اتنا ٹی اے ڈی اے مل جاتا ہے کہ آنے جانے کا سارا خرچ نکل آتا ہے یا سال میں ایک مرتبہ عرس پر جاتے کہ وہی تو کمائی کے دن ہوتے ہیں ۔
دوستوں کے اس بے تکلف گروپ نے پرانے دوستوں کی جگہ سنبھال لی تھی ۔ اب یہی دیس اپنا دیس بن گیا تھا ۔ پرانے یار دوست بھول گئے تھے ۔ یہاں آنے کے بعد شروع میں ایک آدھ مرتبہ پاکستان گیا تھا جن دوستوں کو کوئی فارن تحفہ نہ دے سکا، ان سے تو دوستی وہیں اور اسی وقت انجام کو پہنچ گئی ۔ جو ذرا زیادہ قریبی دوست تھے ان کو اپنی حیثیت کے مطابق چھوٹا موٹا تحفہ دیا ۔ تحفہ ہاتھ میں لیتے ہی پوچھتے، اچھا یار پھر کب آؤگے؟ اور میرے جانے اور پھر آنے تک ایسے غائب ہو جاتے جیسے میرے ٹکٹ پر وہ پردیس چلے گئے ہوں۔ ٹورانٹو میں ہمارا یہ گروپ ہر جمعہ کے دن ، نماز کے بعد، اکٹھا ہوتا اور کسی کافی ہاؤس یا ریستورانٹ میں چند گھنٹے بیٹھتے ، جی بھر کر گپ لگاتے ، کافی پیتے ، دنیا بھر کے مسائل باتوں میں حل کرتے اور اپنا اپنا دل ہلکا کرتے۔
میں اس گروپ میں سب سے جونئیر تھا ۔ یعنی سب سے آخر میں شامل ہوا تھا۔ یہ سب بہت پہلے سے آپس میں فیملی تعلقات رکھتے تھے ۔ فیملی پارٹیاں ایک دوسرے کے گھر ہوتی تھیں ۔ پہلی مرتبہ ابوالقاسم نے مجھے اور میری پوری فیملی کو اپنے گھر پارٹی میں دعوت دی ۔ہم خوشی خوشی پارٹی میں شرکت کرنے ابوالقاسم کے گھر گئے۔ وہاں خواتین اور بچوں سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ دعوت میں رنگ برنگے کھانے تھے اور ایسے عمدہ اور مزیدار کھانے بھی تھے جو ہم نے پہلے نہ دیکھے تھے ،نہ کھائے تھے ۔ بہت لطف آیا۔ بچے بھی بہت خوش تھے ان کو اپنی عمر کے بچوں سے کھیلنے کا موقع ملا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں ڈائیننگ ٹیبل پر ہی بیٹھا رہا اور خواتین کے بے معنی سوالوں کے جواب دینے میں ایسا مگن ہو گیا تھا کہ بڑی دیر بعد احساس ہواکہ میں اکیلا مرد عورتوں کے جھرمٹ میں راجہ اِندر بنا بیٹھا ہوں ۔ ادھر ادھر دیکھا مرد سب غائب ۔ سوچا مجھے مصروف سمجھ کر چھوڑ گئے اور خود کافی پینے کافی ہاؤس چلے گئے ہیں۔ اتنے میں دیکھا کہ میری بڑی بیٹی نے ، جس کی عمر دس سال تھی، اپنی ماں کے قریب آئی اور اس کے کان میں کچھ کہا ۔ بیوی نے میری طرف دیکھتے ہوے کہا ۔ اٹھو گھر چلیں ۔ میں نے اسے کہا ۔ کیا ہوا تھک گئی ہو ۔ ذرا صبر کرو مردوں کو آلینے دو۔ اجازت لے کر چلے جائیں گے ۔اس بار اس نے سختی سے کہا کہ استری جلتی رہ گئی ہے، یہ نہ ہو کوئی نقصان ہو جائے ۔ مزید بحث کئے بغیر اٹھا اور ابوالقاسم کی بیگم سے معذرت کے ساتھ اجازت چاہی ۔ سارے راستے کار میں خاموشی کے ساتھ گھر پہنچ گئے ۔ بیوی کی اس حرکت پر سخت غصہ آرہا تھا۔ آخر کہہ بیٹھا، آدابِ محفل بھی کوئی چیز ہے ۔ تمہیں کوئی پروا نہیں جو دل میں آئے وہی کرتی ہو۔
تمہیں کچھ پتہ نہیں لگا ؟
کیا مطلب ۔ کس بات کا پتہ ؟
دس سال کی بیٹی سمجھ گئی اور تمہیں کوئی پتہ نہیں ؟
معمے کیوں حل کرواتی ہو ۔ جو کچھ کہنا ہے صاف صاف کہو۔
تمہارے وہ سب دوست دوسرے کمرے میں بیٹھ کر پی رہے تھے۔
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟
جو کچھ تمہاری اس بیٹی نے دیکھا وہی کہہ رہی ہوں۔
یہ نہیں ہو سکتا ۔ بچی ہے ۔ اسے بھول ہو گئی ہوگی۔
خود اس سے پوچھ لو۔
بیٹی کو بلا کر پوچھا ۔یہ تمہاری ماں کیا کہہ رہی ہے؟
سچ کہہ رہی ہے ۔
تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ پی رہے تھے؟ کچھ بھی پیا جا سکتا ہے ۔ شربت، کوک یا سیون اپ وغیرہ ۔
ڈیڈی ! آپ اب تک اپنے پہاڑوں والے گاؤں سے نہیں نکلے ۔اس کی بد بو تو دور سے بتا دیتی ہے کہ کیا پیا جا رہا ہے ۔
میں چپ ہوگیا ۔ مجھے اپنے بچوں پر پورا اعتماد تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے اور نہ ہی کسی پر الزام لگانے کی خاطر باتیں گھڑ سکتے ہیں ۔ لیکن کیسے مان لوں کہ یہ سب نیک پرہیز گار، نمازی مسلمان ہیں ، عالم ہیں، خطبے دیتے ہیں اپنا قیمتی وقت مسجد کی خدمت میں گذارتے ہیں ۔ نہیں یہ نہیں ہوسکتا ۔ بیٹی ابھی دس سال کی بچی ہے اسے اتنی سمجھ نہیں ۔ ا سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔
اس سوچ نے مجھے بہت پریشان کر دیا ۔ یوں لگا جیسے میرے وجود کے دو ٹوٹے ہوگئے ہوں ۔ دماغ دو حصوں میں بٹ گیا ہو۔کس حصے کی بات پر یقین کروں۔ کس حصے کو جھوٹا کہوں ۔پوچھنا چاہوں، تصدیق کرنا چاہوں تو کس سے کروں ۔ یہ پانچوں وہاں موجود تھے ۔ ایک میں ہی وہاں ان میں نہیں تھا ۔ پوچھوں تو کس سے پوچھوں ۔ خود سے پوچھوں تو میرا دماغ بکھر جاتا ہے ۔ اگر ان میں سے کسی ایک سے پوچھا تو وہ کہہ دیگا کہ خواب دیکھا ہے یا دماغ چل گیا ہے ۔
ہفتہ بھر اسی سوچ اور دکھ میں ڈوبا رہا ۔ سب گھر والوں سے بات چیت چھوڑ دی تھی ۔ بیوی نے کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ دفع کرو کیوں خود کو دوسرو ں کے معاملات میں قید میں ڈال رکھا ہے۔ وہ خود ہی اپنے اعمال کیلئے اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ تم کیوں ان کے غم میں دبلے ہوئے جارہے ہو مگر میرا دماغ تھا کہ نارمل نہیں ہو رہا تھا ۔
آخر کب تک ۔ پندرہ بیس دن بعد میری کھوپڑی کچھ ٹھنڈی پڑگئی ۔ دو جمعہ غیر حاضری کے بعد تیسرے جمعہ نماز کیلئے مسجد چلا گیا ۔ حسب معمول نماز کے بعد سب لان میں جمع ہوگئےاور مجھ سے پوچھنے لگنے ۔ کیا ہوا بیمار پڑ گئے تھے ۔ تمہارا رنگ بھی پیلا پڑگیا ہے ۔ میں نے بھی دل کھولنا مناسب نہ سمجھا اور کہہ دیا ہاں طبیعت کچھ ناساز تھی ۔ سب کافی ہاؤس کی طرف چل پڑے کہ وہاں بیٹھ کر گپ لگائیں گے ۔ دل چاہا کہ چیخ کر ان سے کہوں کہ تم منافقوں کے ساتھ بیٹھنا مجھے گوارہ نہیں ۔ دوسری طرف دل نے کہا کہ پوری طرح حقیقت کو جانے بغیر کوئی فیصلہ مناسب نہیں۔ اسی شش و پنج میں ان کے ساتھ کافی ہاؤس چلا گیا۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مجھ سے نہ رہا گیا اور میں پوچھ بیٹھا ۔
اس دن ابوالقاسم کے گھر پارٹی میں کھانے کے بعد مجھے اکیلا چھوڑ کر تم سب نے دوسرے کمرے میں کیا محفل جما رکھی تھی ؟
یہ سن کر سب ہنس پڑے ۔پیر صاحب نے کہا ۔آپ کو اس لئے اس محفل میں شامل نہیں کیا کہ آپ کی فیملی آپ کے ساتھ تھی ۔ ہم نے سوچا ممکن ہے آپ کی بیگم برا مان جائے اور بعد میں آپ کیلئے مصیبت کھڑی کر دے ۔
اکبر خان نے کہا ۔ یار کیوں ناراض ہوتے ہو ۔چند دنوں بعد میرے گھر پارٹی ہے ۔ اس مرتبہ فیملی کو مت لانا۔ اکیلے آجانا۔ میں نے بڑا قیمتی اور پرانا مال جمع کر رکھا ہے ۔تمہیں اتنا پلاؤں گا ، اتنا پلاؤں گا کہ تمہارے سارے گلِے شکوے دور ہو جائیں گے ۔
شجاعت علی نے لقمہ دیتے ہوے کہا ۔ یہ پٹھان آدمی ہے ۔ اول تو اس نے کبھی پی نہیں ہوگی اور اتنی آسانی سے پئےگا بھی نہیں ۔ اگر پینے پر آ گیا تو پھر اسے روکنا مشکل ہوگا۔
ابو بکر نے کہا ۔ میں جب اپنے وطن واپس جاتا ہو ں تو شراب پر ایک نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا ۔ یہاں دوستوں کی محفل میں اور دوستوں کی خوشی کی خاطر ایک آدھ پیگ پی لیتا ہوں ۔
ابوالقاسم نے کہا ۔ ہم یہاں کے لوگوں کی طرح پینے کو اپنی زندگی کا اصول نہیں بناتے ۔مگر ہر وقت ملُا پن سے بھی دل اکتا جاتا ہے ۔ تو فرار کے طور پر ایک آدھ چسکی لگا لینے میں کوئی ہرج بھی نہیں، عادت نہیں بناتے ۔
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ میں کیا سن رہا تھا ۔ خیال آیا کہ یہ پرہیزگار ، پانج وقت کے نمازی لوگ مذاق کے طور پر مجھے بیوقوف تو نہیں بنا رہےتھے ۔ میرا سارا وجود جل رہا تھا۔ ان کی محفل سے یہ کہہ کر اٹھا ۔ طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ۔ گھر جا رہا ہوں ۔
شجاعت علی نے مجھ پر آواز کستے ہوے کہا ۔ میں نے کہا تھا نا پٹھان آدمی ہے ۔ ہماری باتیں اس کے دل کو اچھی نہیں لگیں ۔
باہر نکل آیا ۔ کار میں بیٹھ کر شجاعت علی کی باتوں پر غور کرنے لگا ۔ کہ یہ کیوں بار بار پٹھان کہہ کر طنز کررہا تھا ۔کہ پٹھان آدمی ہے کبھی پی نہیں ۔ یہ خود کتنا بڑا شرابی ہے جو پٹھان پر طنز کرتا ہے ۔( ہم پختونو کا دماغ کسی وقت، کسی کی بات پر الٹ جاتا ہے ۔ اور شجاعت علی کی باتوں پر اس وقت میرا دماغ بھی الٹ گیا تھا)۔ میں نے خود سے کہا ۔ شجاعت علی تمہیں ابھی ثابت کر دکھاتا ہوں کہ تم پینے میں پٹھان کے بچے کے برابر بھی نہیں ۔
ابھی ایک کلو میٹر ہی ڈرائیو کیا تھا کہ ایک میخانے کے سائن بورڈ پر نظر پڑ گئی ۔ کار پارکنگ لاٹ کی طرف اندر لے گیا ۔ کار سے اتر کر اِدھر ا‘دھر دیکھا کہ کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا پھر خیال آیا کہ یہاں کون کسے دیکھتا ہے۔
اور پھر شراب خانے میں اس اعتماد کے ساتھ داخل ہوا جیسے میں یہاں کا مستقل گاہک ہوں ۔ابھی رش کا وقت شروع نہیں ہوا تھا۔ ایک دو گاہک بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں نے دل میں سوچا بڑے صحیح وقت پر آیا ہوں۔ مجھے ہجوم بالکل پسند نہیں۔ اونچے سٹول پر کاؤنٹر کے سامنے یوں بیٹھ گیا جیسے ہالی ووڈ کی فلموں میں ایک طرف منہ موڑ کر ایکٹر بیٹھتے ہیں اور جیسے یوں بیٹھنا میرا معمول ہو ۔ اتنے میں ایک خاتون پچھلے دروازے سے داخل ہو کر کاؤنٹر کے قریب آکر مجھ سے پوچھنے لگی :
“May I help you Sir?”
اور جونہی میں نے منہ پھیر کر اس کی طرف دیکھا تو جیسے اس کو بجلی کا جھٹکا لگا ۔ آپ یہاں سر ؟
اسے دیکھتے ہی میری آواز بھی گلے میں اٹک گئی ۔
یہ میری کلائینٹ مسز جیمزتھی ۔ اس کی وراثت کا کیس میرے پاس تھا۔ عدالت سے اس پر فیصلہ ہو چکا تھا ، کاغذات کے انتظار میں تھے ۔ اس سلسلے میں وہ چند ایک مرتبہ میرے آفس آچکی تھی اور اس سے کچھ شناسائی پیدا ہوئی تھی ۔ کچھ عرصہ پہلے اس کا شوہر وفات پا چکا تھا ۔ وہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں تھی ۔ایک مرتبہ باتوں باتوں میں اس نے شراب کے بارے میں میری رائے پوچھی تو میں نے اسے بتایا کہ دیکھو بی بی میں مسلمان ہوں ۔ پینا تو درکنار ، میرے لئے شراب خانے کے پاس سے گذرنا بھی گناہ میں شامل ہے ۔ اب میں سمجھا کہ اس نے شاید اپنے پیشے کے بارے میں بتانا چاہا تھا لیکن میرا عقیدہ جان کر پھر کبھی اس نے اس موضوع پر بات نہیں چھیڑی اور میں بھی اس کے پیشے سے لا علم رہا ۔
مجھے سٹول سے اٹھا کر پیچھے اپنے آفس میں لے گئی ۔اور کہا ۔ یہاں آرام سے تشریف رکھیں اور کوک کا ایک ٹھنڈا گلاس منگوایا اور پھر مجھ سے پوچھنے لگی۔ گھر میں تو سب خیریت ہے نا۔ بچوں اور بیگم کے ساتھ کسی بات پر کوئی اختلاف تو نہیں پیدا ہوا ؟
میں نے بتایا ۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
تو پھر کونسا جذبہ آج آپ کو میخانے لے آیا ؟
میں نے اسے تمام واقعے کی کہانی پوری تفصیل سے آخر تک بتا دی ۔
اس نے کہا ۔ آپ تو تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان ہیں ۔ مگر ساتھ ہی بہت سادہ دل بھی ہیں ۔ سادہ لوح لوگ دل کے صاف اور مخلص ہوتے ہیں اور یہی اخلاص ان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے ۔بہت جلد ہر کسی پر اعتماد کر بیٹھتے ہیں اور جب اصلیت ان پر آشکارہ ہوتی ہے تو ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے ۔اور پھر وہ اپنے دل کے ٹکڑوں کو جوڑنے میخانے کا رخ کرتے ہیں ۔ مگر شراب زخموں کو بھرنے کی بجائے اتنا زیادہ پھیلادیتا ہے کہ وہ انسان نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا ۔ پھر اپنا سب کچھ مال و دولت، گھر بار، بیوی بچے ، عزت و صحت سب شراب کی غلامی میں ہار جاتا ہے اور پھر ایک دن کسی ویران سڑک کے کنارے اس کی لاوارث لاش پڑی ہوتی ہے ۔ اگر میری بات کا یقین نہیں تو ڈاؤن ٹاون کے آس پاس جا کر دیکھ لو وہاں آپ کو بے شمار زندہ لاشیں رینگتی اور گرتی پڑتی نظر آجائیں گی۔
میں نے دیکھا ہے ۔ میں نے اسے جواب دیا۔
اور مجھے وہ وقت یاد آیا ۔ جب پہلی مرتبہ ٹورانٹو ائرپورٹ پر جہاز سے اترا اور ڈاؤن ٹاؤن کے ایک دس منزلہ ہوٹل میں چند دن گذارے ۔ مستقل رہنے آیا تھا ۔ ہوٹل میں کب تک قیام کرسکتا تھا ۔ کسی سے جان پہچان نہ تھی جو رہائش کیلئے جگہ ڈھونڈنے میں میری مدد کرتا ۔ اکیلا ہی جگہ کی تلاش میں نکلا۔ڈاؤن ٹاؤن سے ایسٹ کی سمت آبادی میں چلا گیا ۔ وہاں جن لوگوں کو دیکھا تو انتہائی مایوسی ہوئی۔ کینیڈین ہائی کمیشن نے جو انفارمیشن کے کتابچے دیئے تھے ان میں جو تصویریں تھیں وہ تو خوبصورت، خوش باش اور صحت مند لوگوں کی تھیں ۔ یہ لوگ وہ تو نہیں ۔ کینیڈین سفارت خانہ میرے ساتھ دھوکہ کرگیا۔ اس نے مجھے لاشوں کے دیس میں بھیج دیا ۔اور لاشیں بھی اتنی بد شکل۔ سوچا اب بھی وقت ہے واپس بھاگ جاؤ، لاشوں کے اس دیس سے ۔ورنہ بہت جلد میں بھی ایک زندہ لاش بن جاؤں گا ۔یہ رہنے کی جگہ نہیں۔ جہاز کا ٹکٹ خریدتا ہو ں او ر جلد از جلد نکلنے کی کرتا ہوں ۔ہوٹل واپس آیا تو کاؤنٹر پر جو کلرک کھڑا تھا اس سے کہا ۔ تم کس دیس سے آئے ہو ؟ اس نے پوچھا ۔ کیوں ؟
میں نے کہا ۔ تم تو بھلے چھنگے انسان لگتے ہو ۔ باہر نکل کر کینیڈین دیکھے، بندروں کی شکل والی لاشیں ہیں ۔میری بات سن کر پہلے ہنساپھر کہا ۔تم شائد بموں کے علاقے میں چلے گئے تھے ۔
کیا مطلب ؟
اس نے وضاحت کرتے ہوے کہا۔ ہم عادی شرابیوں کو بم کہتے ہیں۔ویلفیر پر رہتے ہیں ۔ مہینے میں ایک بار روٹی پانی کے خرچ کا چیک ملتا ہے تو سیدھے شراب خانے جاکر مہینے بھر کے خرچے کی رقم کی شراب پی لیتے ہیں۔ رہائش کی جگہ ڈھونڈنے کیلئے پھر مشرق کا رخ نہ کرنا ۔
مسز جیمز نے کہا ۔ بہت خوب ۔ تم بموں سے ملاقات کر چکے ہو ۔ کیا ایسی زندگی گذارنے کینیڈا آئے ہو ؟
توبہ کیجئے ۔ میں نےکہا۔
تو پھر کیا خیال ہے ایک جام منگوادوں ۔ پیوگے ؟ مسز جیمز نے مسکراتے ہوے کہا ۔ پینے آئے تھے اتنی جلدی نیت بدل گئی۔
میں نے جواب دیا ۔ اپنے لئے منگوا لو ۔
اس نے کہا۔ سارے شہر میں اس کمپنی کے کئی شراب خانے ہیں اور میں اس کمپنی کی سب سے زیادہ کامیاب منیجر ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تک اپنی تمام عمر میں شراب نے میرے ہونٹوں کو ٹچ نہیں کیا ۔
میرے لئے تو یہ بڑی ہی عجیب بات ہے۔ میں نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا۔
اس نے کہا ۔ شائد آپ کو یاد ہو ۔ ایک مرتبہ میں نے آپ سے شراب کے بارے میں پوچھا تھا اور آپ نے مجھے کیا جواب دیا تھا ؟
مجھے یاد نہیں ۔
آپ نے کہا تھا ۔ دیکھو بی بی! میں مسلمان ہوں، شراب پینا تو در کنار، شراب خانے کے قریب سے گذرنا میری نظر میں گناہ ہے ۔
آپ کے اس جواب نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میرا دل چاہا ۔ کاش کہ ہمارا پوپ بھی مسلمان ہوتا۔ میں رومن کیتھولک ہوں اور ہمارے عقیدے میں خدا کے بعد پوپ سب سے بڑی ہستی ہے آپ مسلمان ہیں اور مسلمان کیلئے شراب پینا منع ہے ۔یہاں تک کہ شراب خانے کی طرف دیکھنے کو بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔یہ اسلام کتنا خوبصورت مذہب ہے ۔اور تمہارے ان مسلمان دوستوں کا پینے کا شوق کتنی گھٹیا اور شرم کی بات ہے ۔آپ سے ایک گناہ تو سر زد ہوا کہ شراب خانے میں پینے کی نیت سےچلے آئے۔ اگر توبہ کر لو تو خدا ضرور معاف کردے گا۔اور اگر اپنے دین و مذہب کی عزت اور ساکھ کو برقرار رکھا اور دوسرا قدم اٹھانے سے پرہیز کیا تو دینے والا اس کی اس قدر جزا دے گا جس کا حساب کوئی نہیں ۔ آگے تمہاری مرضی ۔
میں نے نظریں اٹھا کے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا تو میخانے کے اس ساقی کی آنکھوں میں نور کی ایسی چمک دیکھی جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ نور کی ایسی چمک، نہ کسی اسلامی ملک کی سرزمین پر، نہ مساجد میں، نہ خانقاہوں میں ، نہ اسلامی علماء کے چہروں پر، نہ کسی اسلامی محفل میں دیکھی تھی ۔
ایک ماہ گزرا تھا کہ کرسمس کی آمد قریب ہوئی ۔ یہاں کے رواج کے مطابق اپنے کلائنٹ کو کرسمس پر تحفے دینے کی رسم ہے۔ مسز جیمز کو تحفے میں دینے کیلئے میں نے نہ جانے کیوں قرآن کریم کا انتخاب کیا۔ یہ نسخہ محمد پکتال کے انگریزی ترجمے کے ساتھ تھا اور امام غزالی کی کتاب انگریزی ترجمہThe Alchemy of Happiness۔ دونوں کتابوں کو ایک خوبصورت ریپنگ پیپر میں لپیٹ کر اوپر ایک چمکتے ربن سے باندھ دیا اور اس پر مسز جیمز کا نام لکھ دیا ۔ یہ تحفہ لے کر میں مسز جیمز کے میخانے کی طرف چل پڑا ۔ راستے میں کئی مرتبہ خیال آیا کہ قرآن کریم اور میخانہ۔ کیا یہ قدم مناسب ہوگا ۔ پھر سر کو جھٹک کر کہا کہ اللہ اپنے کام بہتر جانتا ہے۔ اور میخانے میں داخل ہوکر سیدھا اس کے آفس گیا ۔ وہ موجود نہیں تھی پوچھنے پر پتہ چلا وہ دیر سے آئے گی۔ تحفہ اس کے میز پر رکھ کر واپس چلا آیا۔
کرسمس سے دو دن پہلے جسٹس منسٹر کا خط ملا ۔ یہ جسٹس ڈیپارٹمنٹ میں مستقل پوزیشن کیلئے آفر تھی اعلا تنخوا کے علاوہ اور بہت سارے فوائد اور سہولتوں کا ذکر تھا اس خط میں۔گھر میں صلاح مشورہ کیا ۔ اس آفر کو اللہ کی طرف سے نعمت سمجھ کر قبول کرلیا۔ اور جنوری کے آخر تک ہم ٹورانٹو سے آٹوا چلے گئے ۔ وہاں سردی بھی خوب تھی اور برف بھی بے حساب ۔ مگر مزے اور سہولتیں بھی بہت ۔ اور ہم وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔اور پھر ریٹائرڈ ہو کر وہاں سے نکلے ۔ شائد ہم آٹوا نہ چھوڑتے مگر بچے پہلے سے ٹورانٹو آکر سیٹ ہو گئے تھے ۔ اللہ نے ان کے کاروبار میں بہت برکت دی تھی اور سب اپنے اپنے گھروں میں سیٹ تھے۔ ان کے قریب ہی نارتھ ایسٹ میں ایک خوبصورت فلیٹ خرید کر رہائش اختیار کرلی ۔
ہماری بلڈنگ سے آدھ کیلو میٹر کے فاصلے پر ایک نہایت خوبصورت اور وسیع مسجد بن گئی تھی۔ مسجد کی بلڈنگ تو نہایت سادہ تھی مگر اتنی وسیع تھی کہ جمعہ کی نماز میں دو ہزار کے قریب لوگ بہ آسانی سما جاتے ۔دوسری خوبی مسجد کی یہ تھی کہ یہاں فرقہ پرستی کا تعصب بھی نہیں تھا ۔
اس جمعہ کو جب ہم میاں بیوی مسجد پہنچے تو ذرا لیٹ تھے اس لئے سب سے آخری صف میں جگہ ملی ۔اور خطبہ بھی آخری مرحلے میں تھا۔پھر امام صاحب نے اعلان کیا کہ ایک کینیڈین خاندان اسلام قبول کرنے کیلئے مسجد میں موجود ہے۔ نماز ختم ہوتے ہی وہ اسلام قبول کریں گے۔ اس وقت تک آپ سب تشریف رکھیں۔ نماز ختم ہوتے ہی اس خاندان کے تمام افراد امام کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے۔ ان میں دو مرد، تین خواتین او ردو بچے ، چھ اور چار سال کے شامل تھے ۔ہماری طرف ان کی پیٹھ تھی اس لئے ہم ان کے چہرے نہیں دیکھ پا رہے تھے ۔ پہلے امام صاحب نے ایک مختصر سا بیان فرمایا اور پھر بڑے آرام کے ساتھ آہستہ آہستہ ان کو کلمہ پڑھایا اور ان کو مبارک باد دی۔ اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ یہ نہ صرف اس مسجد میں بلکہ پورے ٹورانٹو شہر میں اور ممکن ہے کہ پورے ملک کینیڈا میں یہ پہلا واقعہ ہو کہ ایک پورے خاندان کے تمام افراد نےایک ساتھ بہ یک وقت اسلام قبول کیا۔ اس کے جواب میں اللہ اکبر کا ایسا پرجوش نعرہ بلند ہوا کہ مسجد کی بلڈنگ تک ہل گئی ۔لوگوں نے مبارکی دینے کیلئے اس خاندان کو گھیرے میں لے لیا۔ مرد ، مردوں سے گلے ملنے لگے اور خواتین نے خواتین کو گلے لگایا ۔ لوگوں میں ایک عجیب خوشی اور جوش کا جذبہ دیکھنے کو آیا ۔
میں چونکہ آخری صف میں تھا ۔ اتنے ہجوم میں مجھے کب موقعہ ملتا ۔سوچا مبارک باد دینے کو کون کھڑا رہے گا۔ اور باہر نکل آیا ۔ کچھ دیر بعد بیوی بھی نکل کر آئی اور مجھے غصے میں کہا ، تمہیں کس بات کی جلدی پڑی ہے ۔ذرا صبر کرلو ۔ ہجوم کم ہو جائے تو ہم بھی اس خوش نصیب خاندان کو مبارک دینے کی سعادت حاصل کرلیں ۔
کافی دیر بعد ہجوم کم ہوا تو ہم دونوں میا ں بیوی آگے بڑھ کر ان کے قریب پہنچ گئے۔ دونوں مردوں سے ہاتھ ملایا ، گلے ملا اور مبارک باد دی ۔وہ بزرگ خاتون میری بیوی کے ساتھ کھڑی تھی ان کے قریب ہو کر سوچا ، اسے بھی مبارک باد دے دوں۔ جونہی اس کے چہرے پر نظر پڑی میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔اس کی آواز کانوں میں گونجی ، آپ یہاں کیسے سر ؟
پھر میں نے بھی اسے پہچان لیا اور حیرت کے ساتھ پوچھا ۔ یہ آپ ہیں مسز جیمز !
اور جب حیرت سے نکل کر ہوش آیا تو اس کی باتیں کانوں میں پڑیں ۔ کہہ رہی تھی یہ دونوں میرےبیٹے ہیں ۔بڑا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے اور چھوٹا ائر کینیڈا میں وائس پریذیڈنٹ ہے۔ یہ دونوں میری بہوئیں ہیں اور یہ دونوں بچے میرے پوتے ہیں ۔اور یہ نوجوان لڑکی میری سب سے چھوٹی بیٹی ہے اور ایک لا فرم میں وکیل ہے۔
یہ کرشمہ کیسے ہوگیا مسز جیمز ؟
یہ اس تحفے کی برکت ہے جو آپ ایک کرسمس پر میخانے میں میرے میز پر چھوڑ گئے تھے۔
اور میں نے جس نور کی چمک اس کی آنکھوں میں میخانے میں دیکھی تھی آج وہی نور کی چمک اس کے وجود سے پھوٹ کر پوری مسجد میں ہر طرف پھیل رہی تھی۔
(تاج رحیم کینیڈا میں مقیم ہیں)
شکریہ