آج کل جانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ سڑکوں پر بینر لگا کر جانے والے کو آنے کی دعوت بھی دے رہے ہیں. ویسے دیکھا جائے تو ساٹھ سال کی عمر کچھ ایسی زیادہ بھی نہیں کہ توقع کی جائے کہ ایک بہت مصروف زندگی گزارنے والا انسان یکایک اپنے آپ کو محض گالف کھیلنے اور دوستوں سے گپ شپ لگانے تک محدود کر دے. یہ تو وہ عمر ہے جب عمومی طور پر مزاج میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے، سوچ زیادہ منطقی ہوجاتی ہے، اپنے تجربات سے سیکھنے اور متوازن طرز فکر اپنا کر چیزوں کو درست پیرائے میں جانچنے کی اہلیت بڑھ جاتی ہے. قدیم اردو کے ”سٹھیا“ جانے والے محاورے اس جدید دور میں بے محل ہو گئے ہیں بلکہ آجکل کے زمانے کے لیے تو یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ سکسٹی از دی نیو فورٹی.
تو جب آپ عمر کے ایسے نتیجہ خیز دور میں داخل ہوں، بہت کچھ کر چکے ہوں مگر بہت کچھ کرنے کو باقی بھی ہو، حوصلے بھی جوان ہوں اور ہمت بڑھانے والی صدائیں بھی بلند ہو رہی ہوں تو ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھ جانا اور بس زندگی کے دن پورے کرنا، نہ صرف اپنے آپ بلکہ ملک و قوم کے ساتھ بھی ناانصافی لگتی ہے. ساتھ ہی ساتھ جب دھیمے سروں میں یہ راگ بھی الاپا جا رہا ہو کہ ملک کی کشتی منجدھار میں ہے، آپ چلے گئے تو سب کچھ ڈوب جائے گا تو یہ احساس زیادہ شدید ہوجاتا ہے کہ ملک کی خدمت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے.
یہاں آئزن ہاور کی مثال ذہن میں آتی ہے. جنرل ڈوائیٹ آئزن ہاور دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں امریکی افواج اور پھر تمام اتحادی افواج کا کمانڈر بنا. آئزن ہاور ہی کی سربراہی میں اتحادی افواج نے نازی جرمنی کے خلاف فیصلہ کن لڑائیاں لڑیں. نارمنڈی پر یلغار، فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اور اٹلی سے نازیوں کی پسپائی اور پھر جرمنی پر فیصلہ کن حملہ اور فتح، یہ سب آئزن ہاور کی قیادت میں ہی ہوا. آئزن ہاور اپنی جنگی فتوحات کی بنا پر امریکی عوام میں بہت مقبول تھا. دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر آئزن ہاور نے امریکی فوج کے چیف آف سٹاف کا عہدہ سنبھالا اور اس منصب پر 1948ء تک فائز رہا. آئزن ہاور کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، ریپبلکن اور ڈیموکریٹ، کی طرف سے اسے صدارتی انتخاب لڑنے کی پیشکش کی گئی (امریکہ میں سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک سیاسی عہدے کا امیدوار نہ بن سکنے کی شرط نہیں ہے)، لیکن آئزن ہاور نے ان پیشکشوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ ایک پیشہ ور فوجی ہے جسے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں. سیاست میں حصہ نہ لینے کے باوجود آئزن ہاور ریٹائرڈ ہو کر گھر بیٹھنے کے بجائے ایک فعال زندگی گزارنا چاہتا تھا چنانچہ فوج کے چیف آف سٹاف کے عہدے سے سبک دوشی کے بعد آئزن ہاور نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کا صدر بننے کی پیشکش قبول کر لی. یہ منصب قبول کرتے ہوئے آئزن ہاورنے ”تعلیم کے ذریعہ امریکی جمہوریت کے فروغ“ کو اپنا نصب العین قرار دیا. اسی دوران آئزن ہاور نے نیٹو کے کمانڈرانچیف کے فرائض بھی انجام دیے.
یہ ایک ایسا وقت تھا جب جنگ عظیم کے بعد امریکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی ساکھ گرتی جا رہی تھی. ذرائع ابلاغ سرکاری محکموں میں بدعنوانیوں کی داستانیں سنا رہے تھے اور انتخابی دھاندلیوں کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے تھے. کوریا کی جنگ طول پکڑتی جا رہی تھی اور صدر ٹرومین کی مقبولیت 22 فیصد کی کمترین سطح تک جا پہنچی تھی. اس سب کے باوجود تبدیلی کا ذریعہ عوامی ووٹ کو ہی سمجھا جاتا تھا. اگلے صدارتی انتخابات کے لیے دونوں بڑی جماعتوں کو ایک مقبول امیدوار کی تلاش تھی اور اس وقت آئزن ہاور سے زیادہ مقبول شخصیت کسی کی نہیں تھی. صدر ٹرومین نے آئزن ہاور کو ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے آئندہ صدارتی امیدوار بننے کی پیشکش کی جسے آئزن ہاور نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کا فی الحال سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں اور ویسے بھی اس کے نظریات ڈیموکریٹ پارٹی سے مطابقت نہیں رکھتے. اسی دوران اخباری قیاس آرائیوں کے جواب میں آئزن ہاور نے سیاست سے دور رہنے کے اپنے فیصلے کا اعادہ کیا مگر ریپبلکن پارٹی کے چند زعما نے کھل کر آئزن ہاور کو اپنا آئندہ صدارتی امیدوار بنانے کی خواہش کا اظہار کیا. وہ دو سال تک آئزن ہاور سے ملاقاتیں کرتے رہے اور انتخابات میں حصہ لینے پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن آئزن ہاور کا فیصلہ نہ بدل سکے.
سن 1952ء کے امریکی انتخابات سے پہلے امریکی ریپبلکن پارٹی سے وابستہ کچھ لوگوں نے ”ڈرافٹ آئزن ہاور“ کے نام سے ایک باقاعدہ مہم شروع کر دی جس کا مقصد آئزن ہاور کو عوامی دباؤ پر صدارتی امیدوار بننے پر آمادہ کرنا تھا. ریپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کے چناؤ کی مہم شروع ہوئی تو آئزن ہاور کا انکار جاری تھا اور صدارتی امیدوار بننے کے لیے پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے خواہشمند امیدواروں کی جاری ہونے والی فہرست میں ان کا نام بھی شامل نہیں تھا، لیکن آئزن ہاور کے حامیوں نے ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ کسی اور امیدوار کے نام کے آگے ٹھپا لگانے کے بجاۓ اپنے ہاتھ سے بیلٹ پیپر پر آئزن ہاور کا نام لکھیں تاکہ اسے صدارتی انتخاب لڑنے پر مجبور کیا جا سکے. تو کرنا یوں ہوا کہ پہلی ہی ریاست نیو ہیمپشائر جہاں ریپبلکن امیدوار کے چناؤ کے لیے ووٹ ڈالے گئے، وہاں کے پچاس فیصد سے زائد ووٹروں نے آئزن ہاور کا نام لکھا اور جس امیدوار کو سب سے مضبوط سمجھا جاتا تھا وہ صرف اڑتیس فیصد ووٹ لے سکا. اسی طرح کے نتائج دوسری ریاستوں سے بھی آنا شروع ہوگئے. عوام کی محبت کی اس شدت نے آئزن ہاور کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا. نہ صرف اس نے ریپبلکن پارٹی کا صدارتی امیدوار بننا قبول کر لیا بلکہ صدارتی انتخاب میں بھی فاتح حاصل کی. اس کے بعد آئزن ہاور آٹھ سال تک امریکی صدر رہا اور امریکہ کو ایک مستحکم عالمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا. آج بھی آئزن ہاور کا شمار امریکی تاریخ کے بہترین صدور میں کیا جاتا ہے
اب آئیے ذرا واپس پاکستان کی طرف - پاکستان کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ جس نے بھی آئین اور قانون کو پامال کر کے اقتدار پر قبضہ کیا، خود بھی رسوا ہوا اور ملک کو بھی بدحال کیا. یقیناً اب ایسا کوئی امکان نہیں اور کوئی بھی صحیح الدماغ اور محب وطن شخص ایسی حماقت کا ارتکاب نہیں کرے گا، لیکن اگر عوامی خواہش موجود ہو تو آئزن ہاور والے راستے کے بارے میں کیوں نہ سوچا جائے جو ایک جائز، قانونی اور باعزت راستہ بھی ہے اور ملک کی بہتری کے لیے اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا بہتر طریقہ بھی. اگرچہ یہ فرق ضرور ہے کہ امریکہ میں صدارتی نظام ہے جبکہ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے، لیکن ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں سے زیادہ سیاسی قیادت مضبوط ہے. لوگ نواز شریف، بھٹو یا عمران خان کے نام پر ووٹ دیتے ہیں اور ہر حلقے کے بااثر افراد ٹکٹ لینے کے لیے اپنے پسندیدہ لیڈر کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں. چنانچہ جس شخص کی عوامی مقبولیت آئزن ہاور جیسی ہو، وہ اپنی سیاسی جماعت بنا لے یا کسی موجودہ جماعت میں شامل ہونا اور اس کی قیادت کرنا چاہے تو اس کا راستہ روکنا بہت ہی مشکل ہوگا.
ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ کسی یونیورسٹی کی ریکٹر شپ یا پینتیس ملکی اتحاد میں خدمات انجام دی جا سکتی ہیں. اسی دوران قانونی مدت بھی پوری ہو جائے گی اور 2018ء کے انتخابات بھی ہو چکے ہوں گے. جیسا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے، مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں سے کوئی ایک ان انتخابات میں فاتح اور ایک شکست خوردہ ہوگی. شکست خوردہ جماعت میں یقیناً قیادت کا بحران موجود ہوگا. ویسے بھی دونوں جماعتوں کی موجودہ قیادت آج بھی سرکاری ریٹائرمنٹ کی حد سے زیادہ ہی عمر رسیدہ ہے. مسلم لیگ نے شکست کھائی تو نواز شریف صاحب کی صحت کے مسائل اور جانشینی کے جھگڑوں کی وجہ سے جماعت میں پھوٹ پڑ چکی ہوگی اور اسے ایک مقبول قیادت کی تلاش ہوگی. اگر تحریک انصاف کو شکست ہوئی تو چوتھا الیکشن ہارنے کے بعد عمران خان صاحب کے لیے قائد کے عہدے پر موجود رہنا اخلاقی طور پر بہت مشکل ہوگا اور متبادل قیادت کے لیے جگہ خالی ہوگی. دوسری صورت میں اگر ایک یکسر نئی جماعت بنانے کا فیصلہ بھی کیا جائے تو یقیناً عوام کے اس طبقے کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے جو موجودہ تمام قائدین سے نالاں ہے. ماضی میں اسلم بیگ صاحب نے ایسی کوشش ایک مختلف درجے کی شخصی مقبولیت رکھتے ہوئے ایک مختلف وقت میں کی تھی اس لیے ناکام ہوئی. آج حالات اس سے بالکل مختلف ہیں.
لہٰذا اگر اہلیت بھی ہو، ملک کے لیے کچھ بہتر کرنے کی صلاحیت بھی ہو اور حقیقتاً عوامی حمایت بھی حاصل ہو تو منطقی طرز عمل یہی ہوگا کہ نہ تو ”آجائو“ کے راگ الاپنے والے خوشامدیوں کی بات پر کان دھرا جائے اور نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد بس گھر ہی بیٹھ جایا جائے بلکہ کسی بھی حیثیت میں ملک و قوم کی خدمت جاری رکھی جائے اور مستقبل میں ”واپسی“ کے راستے مکمل بند نہ کیے جائیں. جو لوگ ریٹائرمنٹ پر آہیں بھر رہے ہیں یا شادیانے بجا رہے ہیں، ذرا مزید انتظار فرما لیں کیونکہ ریٹائرمنٹ کہانی کا اختتام نہیں. کیا خبر کہ ایک روز پاکستان میں بھی آئزن ہاور کی تاریخ دہرائی جائے.
تبصرہ لکھیے