ہوم << کیا مسجدِ اقصیٰ کو کبھی قبلے کی حیثیت حاصل نہیں رہی؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کیا مسجدِ اقصیٰ کو کبھی قبلے کی حیثیت حاصل نہیں رہی؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

جب ایک دفعہ یہ دکھایا جائے کہ رسول اللہ ﷺ کا سفرِ معراج جس مسجدِ اقصیٰ سے شروع ہوا تھاوہ بیت المقدس ہی ہے، تو اس کے بعد دوسرا مغالطہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کی ملت کا مرکز کعبہ تھا، تو بیت المقدس کب مرکز بنا اور کیسے قبلہ کہلایا؟ اس سوال سے مقصود یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ بیت المقدس تو کبھی مسلمانوں کا قبلہ رہا ہی نہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کی روایت اور تاریخ کو غلط ثابت کرکے قرآن کی من مانی تاویل کےلیے گنجائش پیدا کی جائے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کا مرکز کعبہ تھا، تو قرآن و سنت کے ماننے والوں کےلیے تو یہ ایک مسلّم حقیقت ہے۔ البتہ یہ سوال کہ بنی اسرائیل کا تعلق کب کعبہ سے ٹوٹ گیا، دراصل بنی اسرائیل کی کتب مقدسہ اور ان کی تاریخ سے ناواقفیت کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ اصل حقیقت تک رسائی کےلیے درج ذیل نکات پر غور کریں:

1۔ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ بنی اسرائیل آپ کی اولاد کو کہا جاتا ہے۔ بائبل سے معلوم ہوتا ہے اور قرآن کریم کے اشارات اور احادیث کی تفصیلات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے والد حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ کنعان (فلسطین) میں مقیم تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام مکہ میں آباد ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد سمیت مصر ہجرت کرگئے جب آپ کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو وہاں اقتدار نصیب ہوا۔ اس کے بعد اگلے تقریباً پانچ سو سال تک بنی اسرائیل مصر میں مقیم رہے۔ ابتدائی کچھ عرصہ خوشحالی کا تھا لیکن مصری نسل پرست گروہ کی حکومت آگئی اور ان کے بادشاہوں (فرعونوں) نے بنی اسرائیل پر مظالم ڈھانے شروع کیے۔ انھی مظالم کے دور میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور پھر اس وقت کے فرعون کے ساتھ آپ کی کشمکش ہوئی۔ اس کشمکش کے دور میں بنی اسرائیل میں اجتماعی نظم پیدا کرنے کےلیے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ مصر میں عبادت کےلیے کچھ گھروں کو خاص کردیں اور اپنے گھروں کو قبلے کی حیثیت دے دیں۔
rabic] ﴿وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ (سورۃ یونس، آیت87)[/arabic] (اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی پر وحی بھیجی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھر ٹھہرا لو اور اپنے گھروں کو قبلہ بناؤ اور نماز کا اہتمام کرو ۔)
بائبل میں موجود اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قبلے کا رخ بہرحال کعبہ ہی کی طرف بنتا تھا۔

2۔ پھر جب بنی اسرائیل نے مصر سے ہجرت کی اور انھیں مقدس سرزمین میں داخلے کا حکم دیا گیا، تو انھوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور جہاد سے گریز کی راہ اختیار کی۔ اس پر انھیں چالیس سال تک صحرانوردی کی سزا سنائی گئی۔ اس صحرا نوردی کے دوران میں بھی اجتماعیت برقرار رکھنے کےلیے مرکزی خیمہ ہوتا تھا اور اس خیمے کی تفصیلات جس طرح بائبل میں دی گئی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رخ کعبے کی طرف ہوتا تھا۔

3۔ جب بالآخر بنی اسرائیل بلاد الشام میں داخل ہوگئے، تو اگلی کئی صدیوں تک ان کے ہاں کوئی ایسی مرکزی عبادت گاہ نہیں ہوتی تھی جسے قبلے کی حیثیت حاصل ہو، تاآنکہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان اور بے مثال اقتدار بخشا، تو آپ نے فلسطین میں بڑی عبادت گاہ بنائی جسے ہیکل یا مَقدِس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ (ہیکل سے اس کے grandeur اور مَقدِس سے اس کی sanctity کا اظہار ہوتا ہے۔ اردو ترجمے میں کیتھولک بائبل میں ہیکل اور پروٹسٹنٹ بائبل میں مَقدِ س کے لفظ کو ترجیح دی گئی ہے۔)بائبل میں موجود تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرکزی عبادت گاہ کی تعمیر کے وقت بھی اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ اس کا رخ کعبے کی طرف ہو۔

4۔ انبیاے بنی اسرائیل کے کئی صحف میں، یہاں تک کہ حضرت داود علیہ السلام کی زبور میں بھی مکہ مکرمہ اور حج بیت اللہ کی حسرت یا اس کی عملاً ادائیگی کا ذکر ملتا ہے۔

5۔ جب مزید تقریباً تین صدیوں بعد چھٹی صدی قبل از مسیح میں بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کرکے حضرت سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ہیکل/مَقدِس کو ڈھادیا اور یہود کو غلام بنا کر بابِل لے گیا، تو یہ یہود کی تاریخ میں ایک turning point تھا۔ ہیکل/مَقدِس کی یاد اور واپس فلسطین جا کر اسے آباد کرنے کی خواہش نے اب یہودیت میں مرکزی حیثیت اختیار کرلی۔ بالفاظِ دیگر اب ہیکل/مَقدِس ان کا قبلہ ہوگیا! تلمود بھی اسی دور میں لکھی جانے لگی اور "یہودیت" نامی مذہب کی تشکیل بھی اسی دور میں ہوئی۔

6۔ البتہ یہ یاد رہے کہ بہت پہلے سے بنی اسرائیل میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی رہی جو مرکزی عبادت گاہ کی تعمیر کے خلاف رہے اور اس کی تعمیر کے بعد بھی اس سے الگ تھلگ رہے۔ (سامری فرقہ اس کی ایک مثال ہے۔) بابِل جلاوطنی کے دور میں بھی یہود میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہی جو ہیکل/مَقدِس اور فلسطین کے ساتھ جذباتی وابستگی نہیں رکھتے تھے اور اپنی نئی حالت پر راضی تھے، یا نئے امکانات اور نئی دنیاؤں کی تلاش میں تھے۔ ایسے لوگ دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل گئے۔ لیکن بہرحال یہود میں بہت سے لوگوں کا تعلق ہیکل/مَقدِس اور فلسطین کے ساتھ جڑا رہا۔ تقریباً سو سال بعد جب انھیں واپس فلسطین میں آباد ہونے کا موقع ملا، تو ان کی بڑی تعداد واپس ہجرت پر آمادہ ہوگئی اور بڑی مشکلات کے بعد بالآخر وہاں سکونت اختیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ایک دفعہ پھر ہیکل/مَقدِس کی تعمیر بھی کی گئی اور اب یہی ان کا مرکز قرار پایا۔

7۔ جب حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو یہ اسی دوسرے ہیکل/مَقدِس کا دور تھا اور آپ کے متعلق انجیلوں میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ آپ نے ہیکل/مَقدِس کی تباہی کی پیش گوئی بھی کی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری ان سے لے کر ایک اور قوم کے سپرد کی جائے گی جب آخری نبی آئیں گے۔ آپ نے ان آخری نبی کا نام "احمد" بھی بتادیا تھا اور ان کو "کونے کا پتھر" قرار دیا تھا، وہ پتھر جس کے بغیر عمارت ادھوری رہتی ہے اور جب وہ لگایا جائے تو عمارت پوری ہوجاتی ہے۔ (یہ "ختمِ نبوت" کی کتنی پیاری تمثیل ہے۔ یہیں سے انگریزی میں cornerstone کی ترکیب پیدا ہوئی ہے۔) حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی دعوت کے آخری دنوں میں ہیکل/مَقدِس میں جا کر وہاں جاری بے ہودگیوں سے ہیکل/مَقدِس کو صاف کرنے کی کوشش کی اور یہود کے احبار و رؤسا سے کہا کہ تم نے خدا کے گھر کو ناپاک کردیا ہے۔رومیوں نے 70ء میں دوبارہ ہیکل/مَقدِس کو ڈھادیا، البتہ اس کی ایک دیوار کا کچھ حصہ باقی رہا، جسےیہود دیوارِ گریہ کہتے ہیں۔ یہی دیوارِ گریہ بعد کے یہود کےلیے قبلے کی حیثیت اختیار کرگیا اور ابھی تک اسے یہ حیثیت حاصل ہے۔

چنانچہ بیت اللہ روزِ اول سے ہی قبلہ رہا ہے۔ مسلمان مکی دور میں تو بیت المقدس اور بیت اللہ دونوں کی طرف بیک وقت نماز پڑھ سکتے تھے، لیکن مدینہ میں یہ ممکن نہیں رہا، تو کچھ عرصہ مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے رہے، پھر تحویلِ قبلہ کا حکم آیا۔

Comments

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment