ہوم << ڈاکٹر شاہدہ دلاور کے دوسرےناول ”سمے کا ساحل“ کا تعارف اور تبصرہ - ثمینہ سید

ڈاکٹر شاہدہ دلاور کے دوسرےناول ”سمے کا ساحل“ کا تعارف اور تبصرہ - ثمینہ سید

ناول :سمے کا ساحل
ناول نگار :ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ
تعارف اور تبصرہ:ثمینہ سید

عکس پبلی کیشن سے چھپا بہت خوبصورت پیرہن میں "سمے کا ساحل" ناول لکھنا پہاڑ سر کرنے جتنا مشکل ہے. جو احباب معاملات زندگی کو ایک تسلسل سے رقم کرتے انجام تک لے جاتے ہیں مانیے کانٹوں پر چلتے ہیں۔اپنی ذاتی زندگی کا تیاگ کسی حد تک تو ضرور کرتے ہیں۔ میں اس ریاضت سے اچھی طرح واقف ہوں کیونکہ ناول اور میں کٸی سال سے ساتھ چل رہے ہیں ابھی وسط ہی مشکل سے سر ہوا ہے۔

ناول حقیقی زندگی کا وہ نثری آٸینہ ہے جس میں ولادت سے موت تک کے تمام واقعات سموٸے جاتے ہیں جن کرداروں کے گرد کہانی کی بنت ہوتی ہے وہ کن مراحل سے نبردآزما رہتے ہیں اور کیسے نپٹتے ہیں یہ سب درج ہوتا ہے۔اسی کے اندر کوٸی اخلاقی سبق اور زندگی گزارنے کے ڈھب پوشیدہ ہوتےہیں۔

انگریزی میں ناول کی تعریف
A novel is an extended work of narrative fiction usually written in prose and published as a book.

آسان سی اس تعریف کے اندر بےپناہ مشکلات درپیش آتی ہیں جنہیں ناول نگار خوش اسلوبی سے سہتا ہے۔
ہردلعزیز ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کا دوسرا ناول میں متعارف کروا رہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے متنوع اصناف میں کام کیا ہے وہ مشقت بھری زندگی گزار کر یہاں تک پہنچی ہیں کہ انہیں بحیثیت شاعرہ،افسانہ نگار،مضمون نگار اور اب ناول نگار ماننے پر ہر کس وناکس مجبور ہے۔ محنت تسلیم ورضا کے در وا کرتی ہے یہ ڈاکٹر صاحبہ نے ثابت کیا۔

”سمے کا ساحل “ڈاکٹر شاہدہ دلاور کا دوسرا ناول ہے لیکن پندرھویں کتاب ہے ماشاءاللہ ۔اتنا کام کان لپیٹ کر اور مست الست رہ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس ناول کے آغاز سے ہم پر ایک بڑی حقیقت افشا ہوتی ہے کہ آنکھیں خوب کھلی رکھنی پڑتی ہیں۔ ذات سے حیات و ممات تک کا سفر یونہی نہیں ہوجاتا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے گردوپیش سے ہی کہانیاں سمیٹی ہیں پھر انہیں مہارت سے یکجا کیا ہے۔ زندگی کا کوٸی بھی رنگ ان کی نظر سے بچ نہیں پاتا وہ اپنے پہلے ناول کی تکنیک ہی اس ناول میں بھی لے کر چلی ہیں ایک مرکزی کردا بنا کر اس کے دوست یار اور معاشرے کی ہزارہا جہتیں اسی سے کھلواتی چلی جاتی ہیں.

وہ ایک عام آدمی ہے جو اپنے ہی بل بوتے پرزندگی کے سفر کو بمشکل چلا رہا ہے ٹیوشن پڑھا کر خود پڑھاٸی جاری رکھے ہوئے ہے زندگی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے اس کے کچھ کامیاب کچھ ناکام دوست اور سٹرگلرز کی ایک داستان ہے۔چھوٹی موٹی بشری کمزوریاں اور نفسیاتی مساٸل ان سب پر حاوی ہے فلسفے کا رنگ اور تصوف کی جھلک جسے تڑکہ نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ جدید تقاضوں کا اعتراف بھی جگہ جگہ کیا گیا ہے۔ ناول مختلف سمتوں میں بکھرا نظر آتا ہے۔محاورات کی صورت اظہاریہ ہے۔ کردار کے اردگرد لوگ جو باتیں کرتے ہیں جو رویے رکھتے ہیں وہ انہیں سنتا اور لطف اٹھاتا ہے وہ اپنی کہانی اٹھا کے نہیں پھرتا بلکہ وہ کہانیاں سمیٹتا پھرتا ہے وہ ہمیں خود سے اور زمانے سے ایک ہی وقت میں ملواتا ہے۔ واقعات سے ،کتابوں سے اردو انگریزی ادب کے بڑے لکھنے والوں کے چھوٹے چھوٹے قصوں سے وہ ہمیں رومی کے اور اقبال کے شعروں سے ملواتا ہے۔

وہ عام لوگوں اور زندگی کے متعدد رویوں سے ہمیں روشناس کرواتا ہے۔ بندے کے اندر کی ”میں“ دکھاتا ہے جو لوگ کہتے دکھاٸی دیتے ہیں کہ اس نے کیا کیا،وہ کیا ہے کچھ نہیں جو ہوں میں ہوں۔ بحثوں کے ذریعے مذہبی اور سماجی الجھنوں تک رسائی دیتا ہے۔یہاں گناہگار بھی ہیں اور معصوم بھی،خطبے دینے والے بھی ہیں اور فتوے دینے والے بھی،سائنس اور ٹیکنالوجی کے مفروضات سے لےکر جدتوں کے بڑھتے رحجانات اور نقصانات بھی ہیں۔یعنی کہ ایک پورا جہان ہے سمے کا پہیہ چل رہا ہے لیکن ساحل مخفی ہے وہاں تک کوٸی پہنچ پاٸے گا یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

ناول اگر اصل کا عکس ہے تو یہ ایک کامیاب ناول ہے جو سارے سماج کا عکاس ہے۔ کچھ چھوٹی چھوٹی جھلکیاں پیش کرتی ہوں جو تحریر کا حسن عیاں کرتی ہیں۔جو آپ کو اس ناول کے حصول پر اکسائیں گی۔نثر میں ایک شاعرہ کی نظمیہ روانی بھی قاری کا ہاتھ تھامے رکھتی ہے۔

”روح کی آزادی کو نہ پہچاننے والے فنا کی دہلیز پر کھڑے ہوکر بقا کی بھیک مانگتے ہیں۔“

”یہ تم جو کہتے ہو کہ شامیں کٹتی نہیں سال گزر جاتے ہیں،میں ان کو نہیں مانتا۔نہ شامیں اپنی جگہ چھوڑتی ہیں نہ سال۔یہ ماہ وسال اور صدیاں کوئی چیز نہیں ہوتیں۔یہ دنیا انسانوں کے آنے جانے پر محیط ہےایک آتا ہے تو دوسرا جاتا ہے وقت سفر میں نہیں بلکہ انسان سفر میں ہے۔“

”ان آنکھوں اور سماعتوں پر جیسے آٹے کا لیپ ہوتا ہے جو اپنی مدت پوری کر کے درخت کی چھال کی طرح جھڑ جاتا ہے۔ چھال جھڑ بھی جائے تو پیڑوں کی شناخت معدوم نہیں ہوتی۔“

”مجھے ہمیشہ یہ عادت رہی کہ میں دو لوگوں کی گفتگو سننے کا بہت دلدادہ رہا ہوں۔کبھی کبھی وہ دو لوگوں میں سے ایک میں خود بھی ہوسکتا ہوں اور کبھی وہ دونوں میری ذات سے باہر بھی ہوسکتے ہیں۔“

”خیر کو بھلے الٹا سوچیں یا سیدھاخیر ہی رہتا ہے جیسے بارش کو الٹا لکھیں تو شراب بنتی ہے جو کشش میں بارش سے بازی لے جاتی ہے۔“

مجھے یہ ایک مشکل ترین تکنیک لگی ہے کہ بہت کچھ پھیلا کر اسے نہ بھی سمیٹا جاٸے تو خوبصورتی میں رتی برابر فرق نہ پڑے۔ مذہب وملت کے مساٸل،رہاٸشی سکیمیں،مختلف محکموں کی اندرونی سازشیں اور آخر میں مصنوعی ٹیکنالوجی کا انسان کے اندر بڑھتا خوف۔اور گلیلیو کے مقدمے کی روشنی میں ایک پرتاثیر سطر کے ساتھ اختتام کرتی ہوں۔

”سچائی ہر موسم میں تازہ رہتی ہے اسے نہ کوٸی دھرم باسی کرسکتا ہے نہ کوئی عدالت اور نہ ہی کوئی سزا۔“

Comments

Avatar photo

ثمینہ سید

ثمینہ سید کا تعلق بابا فرید الدین گنج شکر کی نگری پاکپتن سے ہے۔ شاعرہ، کہانی کار، صداکار اور افسانہ نگار ہیں۔ افسانوں پر مشتمل تین کتب ردائے محبت، کہانی سفر میں اور زن زندگی، اور دو شعری مجموعے ہجر کے بہاؤ میں، سامنے مات ہے کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ رات نوں ڈکو کے عنوان سے پنجابی کہانیوں کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ مضامین کی کتاب اور ناول زیر طبع ہیں۔ پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ریڈیو کےلیے ڈرامہ لکھتی، اور شاعری و افسانے ریکارڈ کرواتی ہیں

Click here to post a comment