ہوم << قرآن میں انبیائے کرام کے قصوں کا بہترین سبق - نیر تاباں

قرآن میں انبیائے کرام کے قصوں کا بہترین سبق - نیر تاباں

قرآن میں انبیا یا جن بھی برگزیدہ ہستیوں کا ذکر ہے، ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں کہ ان کی زندگی کی تمام تفاصیل اللہ نے ہم پر کھولی ہیں۔ لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو ہر قصے میں موجود ہے: مصائب، تکالیف، پریشانی۔ ان میں سے ہر ایک کی زندگی میں آنے والی پریشانیوں کی ایک جھلک اللہ نے ہمیں دکھائی۔ اور یہ کہ ان کا ری ایکشن کیا تھا۔ اور یہ کہ وہ اس سے کیسے نکلے!

مریم علیہا السلام ایک سنگل مدر ہیں، ان کے اپنے ہی لوگ ان کی بات سننے پر راضی نہیں۔ جسمانی تکلیف تو اکیلے سہہ رہی ہیں، جذباتی طور پر کتنی تنہا ہیں۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی انہیں دھوکہ دے کر کنویں میں پھینک جاتے ہیں۔ غلام بنا دیا جاتا ہے۔ جھوٹا الزام لگا کر قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ آسیہ علیہا السلام کا شوہر سفاک انسان ہے، ان پر ظلم ڈھاتا ہے۔ نوح علیہ السلام جوان بیٹے کو پکارتے رہ جاتے ہیں، لیکن وہ ایک نہیں سنتا۔ ان کی نظروں کے عین سامنے ڈوب کے مر جاتا ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار پر باتیں کی جاتی ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے والد بت پرست ہیں، ان کے اپنے قبیلے کے لوگ انہیں مارنے کی درپے ہیں۔ لوط علیہ السلام کی بیوی ان کی بات نہیں سنتی، انہیں دھوکہ دیتی ہے۔ آدم اپنی ہی اولاد کا دکھ یوں دیکھتے ہیں کہ ایک بھائی دوسرے کا دشمن ہوا جاتا ہے۔ یعقوب کو اپنے بیٹے کی جدائی کا غم سہنا پڑتا ہے کہ رو رو کے بینائی چلی جاتی ہے۔ امِ موسٰی کو دودھ پیتے نومولود بچے کو فرعون سے بچانے کی خاطر اس سے علیحدہ ہونا پڑتا ہے۔ ظالم فرعون اپنی فوجوں سمیت ان کی جان کے درپے ہے۔ ایوب علیہ السلام نے شدید بیماری کاٹی اور مالی مسائل کا شکار ہوئے۔ اور محمد! صلی اللہ علیہ وسلم۔۔ یتیم ہیں۔ جان نثار بیوی اور باپ کی چھاؤں جیسے چچا اوپر تلے زندگی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ سوائے ایک کے اولاد میں سے کوئی نہ بچا۔ سب دیکھا۔۔

یہ ہیروز! یہ لوگ کھو دینے کے غم سے، سہہ جانے کی تکلیف سے واقف تھے۔ یہ چیز ان کی اور ہماری زندگی میں ایک ہے: وہ آزمائے گئے۔ ہم بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے تکلیف اٹھائی، ریجیکشن کی چبھن سہی، شکست کو قریب سے دیکھا۔ ان کی زندگی میں مایوسی آئی، ناکامی آئی۔ کبھی اپنی اولاد، کبھی سپاؤز کی طرف سے آزمائے گئے۔ کسی نے والدین، تو کسی نے بہن بھائیوں کی طرف سے تکلیف اٹھائی۔ وہ جو اعلٰی ترین مخلوق تھے، لیکن بہرحال انسان تھے۔۔

یہ قصے کہانیاں ہمیں یونہی نہیں سنائے گئے۔ زندگی کے کتنے ہی پہلو مخفی رکھ کر سپوٹ لائٹ ان کی زندگی کے کسی مخصوص واقعے پر بغیر وجہ نہیں ڈالی گئی۔ ہمارے لئے ہے یہ سب! ہم جو ناکامی پائیں تو گھبرا جاتے ہیں۔ کبھی رشتوں سے آزمائے جاتے ہیں، کبھی بیماری آن لیتی ہے، کبھی مالی مسائل گھیر لیتے ہیں۔ کبھی الزامات، کبھی ابیوز۔ کبھی نومولود اولاد کا دکھ، کبھی جوان اولاد ہاتھوں سے نکلتی جاتی ہے۔ اف، ہم کتنے تھک جاتے ہیں۔ یہ سب کیسا مشکل ہے۔۔

اور پھر ہم پر ادراک ہوتا ہے کہ اللہ کے چنے ہوئے لوگ کیسی کیسی آزمائشوں سے گزرے۔ وہ جو ان کا رب ہے، ہمارا بھی وہی رب ہے۔ وہ جو عین آگ کے بیچ، طوفان کے بیچ، اندھیروں کے بیچ ان کا دل خود سے جوڑ رکھتا ہے، وہی ہمارے دل کا مالک ہے۔ وہی ہمیں تھام رکھے گا۔ ہم وہ قصے پڑھتے ہیں، اور پھر ہم پر کھلتا ہے کہ ہجرت آتی ہے، تو فتح بھی زیادہ دور نہیں۔ اللہ ہم پر کھولتا ہے کہ آزمائش کے بادل چھٹتے ہیں تو کیسے دھنک رنگ آسمان پر بکھر جاتے ہیں۔

مریم علیہا السلام کو جہان کی سب سے پرفیکٹ عورتوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے، ان کی اولاد کو بھاگ لگ جاتے ہیں۔ غلامی اور قید سہنے والے یوسف سرزمین مصر کے وزیر بن جاتے ہیں۔ کھو جانے والے والد سے ملن ہو جاتا ہے، دھوکہ دینے والے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ آسیہ کو زندگی میں ہی ان کا محل جو جنت میں ہے وہ دکھا دیا جاتا ہے، انہیں بلند ترین فضیلت والی خواتین میں شامل کیا جاتا ہے۔ نوح علیہ السلام کو موت کے منہ سے نکال لیا جاتا ہے، ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی کر دی جاتی ہے۔

لوط علیہ السلام اور ان کے لوگوں کو ایک بڑے عذاب سے بچا لیا جاتا ہے۔ آدم علیہ السلام کو بنی نوع انسان کے باپ کا درجہ ملتا ہے، نبی بنایا جاتا ہے۔ یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹوں سے ملن ہو جاتا ہے۔ موسٰی علیہ السلام کی والدہ کو بچہ واپس مل جاتا ہے۔ ایوب علیہ السلام کی بیماری دور ہو جاتی ہے، دولت بھی پھر سے مل جاتی ہے، اور اللہ کے پاس درجات بلند ہو جاتے ہیں۔ موسٰی کو بچانے کی خاطر فرعون اور اس کی فوجیں غرق کر دی جاتی ہیں۔ اور محمد! صلی اللہ علیہ وسلم! معراج پر لے جائے جاتے ہیں، انبیا کے سردار کہلائے جاتے ہیں، اللہ کے سب سے محبوب ہیں۔

یہ سب آزمائشوں سے گزرے۔ یہ سب سنور گئے۔ ہم بھی آزمائشوں سے گزارے جاتے ہیں۔ ہم بھی سنور جائیں گے۔ یہ سب ہیروز ہیں، رول ماڈلز ہیں۔ آزمائش آتی ہے۔ اللہ سے جڑ جاتے ہیں۔ یہی ہمیں بھی کرنا ہے۔

Comments

نیر تاباں

نیر تاباں کینیڈا میں مقیم ہیں۔ شعبہ تعلیم سے تعلق ہے۔ کہانی کار اور صداکار ہیں۔ منفرد طرز تحریر ان کی پہچان ہے۔ بچوں کی متعدد کتابوں کا انگریزی ترجمہ کرچکی ہیں۔ ننھے بچوں سے لے کر خواتین تک کی تربیت سے متعلق بھی کوشاں رہتی ہیں۔ ورکشاپس اور کورسز ڈیزائن کیے ہیں، سبھی کے لیے الگ کلاسز ہوتی ہیں۔ ماحول دوست ہیں اور اس حوالے سے آگاہی پھیلاتی ہیں۔

Click here to post a comment