ہوم << ہاتھوں کے داغ - احمد اقبال

ہاتھوں کے داغ - احمد اقبال

ابا جی بوڑھے ہو گئے تھے اور چلتے پھرتے دیوار کا سہارا لیتے تھے، نتیجتا دیواروں کا رنگ خراب ہونے لگ گیا،جہاں بھی وہ چھوتے تھے وہاں دیواروں پر ان کی انگلیوں کے نشانات چھپ سے جاتے تھے ۔ میری بیوی کو جب پتہ چلا تو وہ اکثر گندی نظر آنے والی دیواروں کے بارے میں مجھ سے شکایت کرتی۔

ایک دن سر میں درد ہو رہا تھا تو اباجی نے سر پر تیل کی مالش کی ، بعد میں چلتے ہوئے دیواروں پر تیل کے داغ بن گئے. یہ دیکھ کر میری بیوی چیخ اٹھی اور میں نے بھی غصے میں اپنے والد کو ڈانٹ دیا اور ان سے بد تمیزی سے بات کی ،انہیں مشورہ دیا کہ چلتے وقت دیواروں کو ہاتھ نہ لگائیں۔ وہ بہت غمگین نظر آئے. مجھے اپنے رویے پر شرمندگی بھی محسوس ہوئی، مگر ان سے کچھ نہ کہا. ابا جی نے چلتے ہوئے دیوار کو پکڑنا چھوڑ دیااور ایک دن وہ گر پڑے اور بستر سے جا لگے ، جو ان کے لیے بستر مرگ بن گیا . کچھ ہی دنوں میں ہم سے رخصت ہو گئے ۔میں نے اپنے دل میں احساس جرم محسوس کیا . میں ان کے تاثرات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا تھا اور اس کے فوراً بعد اپنے آپ کو ان کی موت کے لیے خود کو معاف نہیں کر پاتا ہوں۔

کچھ دن بعد ہم اپنے گھر کو پینٹ کروانا چاہتے تھے ۔جب پینٹر آئے تو میرا بیٹا جو اپنے دادا سے بہت پیار کرتا تھا۔ اس نے مصوروں کو دادا کے انگلیوں کے نشانات صاف کرنے اور ان جگہوں کو پینٹ کرنے کی اجازت نہیں دی۔

پینٹر بہت اچھے اور جدت پسند تھے ۔انہوں نے اسے یقین دلایا کہ وہ میرے والد کے فنگر پرنٹس/ہینڈ پرنٹس کو نہیں ہٹائیں گے بلکہ ان نشانات کے گرد ایک خوبصورت دائرہ بنائیں گے اور ایک منفرد ڈیزائن بنائیں گے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ پرنٹس ہمارے گھر کا حصہ بن گئے۔ ہمارے گھر آنے والے ہر فرد نے ہمارے منفرد ڈیزائن کی تعریف کی ۔وقت کے ساتھ کے ساتھ میں بھی بوڑھا ہو گیا ۔

اب مجھے چلنے کے لیے دیوار کے سہارے کی ضرورت تھی .ایک دن چلتے ہوئے مجھے یاد آئے اپنے والد سے میرے کہے ہوئے الفاظ ۔اور سہارے کے بغیر چلنے کی کوشش کی تاکید ۔میرے بیٹے نے یہ دیکھا اور فورا میرے پاس آیا ، چلتے ہوئے مجھے دیواروں کا سہارا لینے کو کہا ، اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ میں سہارے کے بغیر گر سکتا ہو ں۔ میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا مجھے پکڑے ہوئے ہے ۔میری پوتی فوراً آگے آئی اور پیار سے میرا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ کر سہارا دیا ۔میں تقریباً خاموشی سے رونے لگا۔اگر میں نے اپنے والد کے لیے بھی یہی کیا ہوتا تو وہ زیادہ دیر تک زندہ رہنتے۔میری ہوتی نے مجھے ساتھ لیا اور صوفے پر بٹھایا ۔پھر اس نے مجھے دکھانے کے لیے اپنی ڈرائنگ بک نکالی۔ اس کی استانی نے اس کی ڈرائنگ کی تعریف کی تھی اور اس کو بہترین ریمارکس دیے تھے۔ خاکہ دیوراوں پر میرے والد کے نشان کا تھا ۔اس کے ریمارکس تھے "کاش ہر بچہ بڑوں سے اسی طرح پیار کرے "

میں اپنے کمرے میں واپس آیا اور اپنے والد سے معافی مانگتے ہوئے رونے لگا ، جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں تھے ۔ہم بھی وقت کے ساتھ بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔آئیے اپنے بڑوں کا خیال رکھیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں ۔اپنے گھر والوں کو بھی بتائیں کہ یہ بزرگ قیمتی ہوتے ہیں، دیوار اور چیزیں نہیں ۔