جب ڈان تھامس اس تفریحی علاقے کے ہوٹل میں داخل ہوا تو اس وقت رات کے نو بجنے والے تھے۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تھیلا اور بغل میں اخبار دبا ہوا تھا۔ آنکھیں بے حد سرخ ہو رہی تھیں۔ ہوٹل کے رجسٹر پر دستخط کرتے ہوئے اس کا ہاتھ کپکپانے لگا۔بہر حال اس نے دستخط کر دیے: ”ڈی۔ جے ۔ جونز ۔ شکاگو“
استقبالیہ پر کھڑا کلرک ایسے اشخاص کو میل بھر سے پہچان لیتا تھا جن کا نشہ اکھڑ رہا ہو۔ اس نے ہمدردانہ لہجے میں کہا ”جناب! کھانے کا کمرا کُھلا ہے۔
اگر آپ ناشتہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں چلے جائیں۔ وہاں آپ کو گرما گرم کافی بھی مل جائے گی ۔“
”شکریہ ! مگر مجھے کافی کی بے حد طلب محسوس ہو رہی ہے۔ ڈان نے رکھائی سے کہا۔
اس نے اپنا تھیلا وہیں میز پر رکھا، دالان عبور کر کے کھانے کے کمرے میں داخل ہوا اور ایک گوشے میں چھوٹی سی میز پر جا کر بیٹھ گیا۔ کھڑکیوں سے تیز دھوپ اندر آ رہی بھی۔ ان کے پیچھے ہرا بھرا برآمدہ چمکیلی سطح و والی نیلی جھیل کے کنارے تک پھیلا ہوا تھا۔ دھوپ کے باوجود صبح کی ہوا میں نرمی اور خنکی موجود تھی ۔ یہ وقت تفریح کے لیے انتہائی موزوں تھا مگر جھیل میں اس وقت چند ایک بادبانی کشتیاں ہی تیر رہی تھیں ۔ یہ نظارہ دیکھتے ہوئے ڈان کی آنکھیں چندھیائی جا رہی تھیں ۔ اس کے دماغ میں دھما کے ہو رہے تھے۔ کچھ اس حجام کی مہربانی سے بھی اس کا سر بری طرح دکھ رہا تھا جس سے اس نے ایک گھنٹہ پہلے اپنے بال چھوٹے کروائے تھے۔ ڈان نے اپنے لئے ناشتہ منگوایا اور اخبار میز پر بچھادیا۔ چیختی چلاتی شہ سرخی اس کی نظروں کے سامنے تھی:
”بہیمانہ قتل کے سلسلے میں رپورٹر مطلوب“ ڈان نے پہلو بدلتے ہوئے کمرے میں نظریں دوڑائیں، وہاں کافی لوگ ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔ کمرے کی فضا ان کی باتوں کی بھنبھناہٹ سے گونج رہی تھی۔ اس بھنبھناہٹ میں چینی کے برتنوں کی کھنک بھی شامل تھی۔ بظاہر کوئی شخص بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس نے جلدی سے کافی کا ایک جرعہ لیا اور اخبار پر جھک گیا۔
وہ خبر ایک دوہرے قتل کے بارے میں تھی۔ ایک نوجوان دوشیزہ اور اس کے باپ کو گذشتہ شب مڈویسٹ میں ان کے اپارٹمنٹ میں مل کر دیا گیا تھا۔ شہر مڈویسٹ اس تفریحی جھیل سے کوئی سو میل کے فاصلے پر تھا۔ اخبار کے مطابق کیس تقریبا حل ہو چکا تھا، صرف قاتل کی گرفتاری کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا۔ اخبار نے انتہائی متاسفانہ انداز میں قاتل کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے کوائف شائع کیے تھے ۔
نام ڈان تھامس، عمر میں سال وہ تقریبا ڈیڑھ سال سے اخبار گارڈین میں بحیثیت رپورٹر ملازم چلا آ رہا تھا۔اخبار نے ڈان تھامس کی مذمت کرتے ہوئے اسے صحافت کے پاکیزہ چہرے پر ایک سیاہ دھبہ قرار دیا تھا۔ اس کے نزدیک وہ ایسا اذیت پسند اور بے رحم قاتل تھا جسے ہرگز معاف نہ کیا جا سکتا۔ڈان تھامس کے خلاف شہادتیں بے حد مضبوط تھیں ۔
اس کے کئی ماہ سے پچیس سالہ ایلن لیوٹ سے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ وہ اس سے باقاعدگی سے ملتا تھا۔ دونوں کے مشترک دوستوں کا کہنا تھا کہ ڈان تھامس بے حد غصہ ور شخص ہے۔ اس پر اکثر شدید غصے کے دورے پڑا کرتے ہیں۔ اس میں حسد و رقابت کے جذبات بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ ایلن لیوٹ سے دوسرے مردوں کا ملنا جلنا بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔
”حالات بہت خراب ہو چکے تھے۔ ایلین کو چاہیے تھا کہ وہ فورا اس شخص سے پیچھا چھڑا لیتی ۔“ یہ آخری بیان تھا جس پولیس نے ایلن کی درد ناک موت کے بعد ان کے دوستوں نے پولیس کو بتایا تھا۔
گذشتہ شب ساڑھے دس بجے ڈان ایلن کے پرساتھ اللهٹیکسی میں اس کے گھر پہنچا تھا۔ اس موقع پر کئی عینی شاہد بھی وہیں موجود تھے یعنی اس عمارت کے مکین جہاں ایلین اپنے میں باپ کے ساتھ رہتی تھی ۔ وہ لوگ اس وقت برآمدے میں کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے۔ انہوں نے نہ صرف ڈان اور ایلن کو دیکھا بلکہ دونوں کی باتوں کی بھنک بھی ان کے کانوں سل میں پڑی۔ سب کا کہنا تھا کہ ان کے درمیان بے حد تند و تلخ گفتگو جاری تھی ۔ ایلن انتہائی سخت لہجے میں کہہ رہی تھی۔
”میں پھر سے کہہ رہی ہوں، میں اب ہرگز یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتی ۔“
جواباً ڈان بولا ” ٹھیک ہے میں دیکھ لوں گا !“
ایک گواہ کا کہنا تھا کہ یہ کہتے ہوئے ڈان کا لہجہ بے حد تندو تیز اور زہریلا ہو گیا تھا۔ اس کے انداز میں وحشیانہ پن بھی تھا۔ وہ دونوں عمارت میں داخل ہو گئے ۔ اس کے بعد کسی کی نے انہیں دیکھا نہ ان کی آواز سنی لیکن یہ بات سب نے محسوس کی کہ ڈان جس دروازے سے اندر داخل ہوا تھا، اس سے باہر نہیں نکلا۔
گیارہ بج کر چند منٹ پر ایلن کا باپ وہاں پہنچا۔ چھین سالہ ولیم لیوٹ ایک کامیاب ادارے کا حصے دار تھا۔ برآمدے میں بیٹھے عینی شاہدین نے بتایا کہ ہنس مکھ اور خوش مزاج ولیم ہمیشہ کی طرح ہنستا مسکراتا ہوا آیا اور اس نے سب سے علیک سلیک کی ۔ اسے جب بتایا گیا کہ اس کی بیٹی اور اس کا دوست ابھی آدھا گھنٹہ قبل وہاں پہنچے۔ بچے ہیں، تو وہ بے حد حیران ہوا۔ اس کے چہرے پر نا خوشگواری کے تاثرات نمودار ہوئے اور وہ جلدی سے عمارت میں چلا گیا۔ چند لمحوں کے بعد عمارت کی تیسری منزل سے فائر کی آواز بلند ہوئی تو سب اوپر دوڑ پڑے۔ جب وہ تیسری منزل پر پہنچے تو انہوں نے وہ نے ولیم لیوٹ کو اپنے اپنے اپارٹمنٹ . کھلے ہوئے دروازے کے سامنے زمین پر پڑا پایا۔
اس کے مردہ ہاتھ میں دروازے کی چاہی تھی۔ اندر کمرے میں ایلن لیوٹ بھی نظر آئی وہ بھی مر چکی تھی۔ اس کی لاش دیکھ کر معلوم ہوتا تھا جیسے اسے بری طرح سے مارا پیٹا گیا ہو پھر اس پر چاقو کے اندھا دھند وار کئے گئے ۔ چاقو اس کی لاش کے پاس پڑا تھا۔ وہ انہی کا باورچی خانے کا تھا۔اب چونکہ ہر بات بالکل واضح تھی۔ ڈان ایلن کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ گیا تھا۔ وہاں اس نے ساڑھے دس اور گیارہ اور بجے کے درمیان شدید غیظ و غضب کے عالم میں ایلن کو قتل کر دیا۔ پھر جب ولیم لیوٹ بے خبری کے عالم میں اپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو قاتل نے اسے بھی قتل کر دیا اور وہاں سے فرار ہو گیا۔ اس عمارت سے نکلنے کے کئی راستے تھے۔ صرف سامنے والے دروازے کے باہر گواہ بیٹھے ہوئے تھے باقی دروازوں پر کسی کی نظر نہیں تھی۔ اخبار کے شائع ہونے تک پولیس ڈان تھامس کو گرفتار نہیں کر سکی تھی۔ پولیس کو اس کی کوئی تصویر ہی نہیں مل سکی تاہم اس کا حلیہ جاری کر دیا گیا تھا۔ وہ درمیانی قامت کا تیں سالہ شخص تھا جس کے بال بھورے تھے اور وہ آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگاتا تھا۔یہ بھی ایک ستم ظریفی ہی تھی کہ یڈ ویسٹ سٹی پولیس کے اکثر لوگوں کے لئے وہ ایک جانا پہچانا شخص تھا۔ وہ گذشتہ چھ ماہ سے اخبار کے کرائم رپورٹر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ اخبار کے مطابق ڈان تھامس کی گرفتاری جلد متوقع تھی۔
ڈان نے اخبار تہہ کیا تو اسے اپنے ہاتھوں میں کپکپاہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے اخبار میز پر رکھ دیا۔ وہ یہ خبراب تک کئی مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ مڈویسٹ سٹی سے یہاں تک سفر کے دوران وہ اپنی کار کے ریڈیو پر اس سلسلے میں نشر ہونے والی خبریں بھی سنتا رہا لیکن ابھی تک اسے وہ خبر حقیقت نہیں لگتی تھی ۔
اچانک میز پر ایک سایہ سا لہرایا اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ ایک فربہ اندام شخص اس کے قریب سے گزرتا ہواکمرے کے دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے اپنے کان میں آلہ سماعت لگا رکھا تھا جس کا تار اس کی قمیص کے کالر کی طرف جارہا تھا۔ ڈان اسے نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔
اخبار میں اس کا جو حلیہ دیا گیا تھا اُس پر شاید ملک کی آدھی آبادی پوری اترتی تھی۔ ڈان نے اپنے بال گنجے ہونے کی حد تک چھوٹے کروا لیے تھے اور آنکھوں سےچشمہ بھی اتار دیا تھا اسے یقین تھا کہ جان پہچان والے لوگبھی اب اسے نہیں پہچان سکیں گے۔ لیکن اس فربہ اندام شخص سے نظریں ملانے کے بعد اسے یوں لگا جیسے اس کے سر پر کوئی اشتہاری تختہ لگا ہوا ہے جس پر یہ الفاظ بار بار جل بجھ رہے ہوں
” یہ ہے قتل کے مقدمے میں مطلوب ڈان تھامس “
اس کے دماغی دھماکوں میں اضافہ ہو گیا، اس نے بل ادا کیا اور کھانے کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ دالان میں پہنچ کر اس نے استقبالیہ کلرک سے اپنا تھیلا لیا اور لفٹ کی طرف چل دیا۔ اس وقت ہوٹل کی رونقیں اپنے شباب کو پہنچ چکی تھیں۔ تفریح کے شائقین چھوٹی چھوٹی تکڑیوں کی صورت میں ادھر اُدھر کھڑے تھے۔ ہر طرف ہنسی قہقہوں کا طوفان بپا تھا۔
کچھ لوگ جھیل کے کنارے کھڑے پہاڑوں پر جانےکے لیے پر تول رہے تھے۔ کچھ تیرا کی کے لباس میں تھے۔ مچھلی کے شکار اور کشتی رانی کے شوقینوں نے بھی اپنے ایک لباس پہن رکھے تھے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی لیکن ادھیڑ عمر مرد اور عورتیں بھی کافی تعداد میں موجود تھیں ۔ لفٹ کا انتظار کرتے ہوئے ڈان ان لوگوں کو عمیق نگاہوں سے دیکھتا رہا لیکن اسے وہ شخص کہیں نظر نہ آیا جس کی تلاش میں وہ وہاں پہنچا تھا۔جب لفٹ نیچے آئی تو وہ اس میں سوار ہو کر چوتھی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نےدروازہ مقفل کیا اور ایک حسرت بھری نظر نرم و آرام دہ بستر پر ڈالی ۔ اسے بڑی شدت سے نیند آ رہی تھی لیکن وہ ابھی سو نہیں سکتا تھا۔ اس نے تھیلا نکالا اور اس کے اندر کا سامان بستر پر الٹ دیا۔
ریزر کریم ٹوتھ پیسٹ ، ٹوتھ برش اس کے علاوہ ایک دستی گھڑی ایک تسیں بور کا پستول اور بیئر کی چھوٹی سی بوتل یہ تھی تھیلے کی کل کائنات ۔ اس وقت اسے بیئر کی سب سے زیادہ طلب محسوس ہوئی ۔ اس نے بوتل کھولی گلاس میں چار انگلی بوربن انڈیلی اور دو ہی گھونٹ میں گلاس خالی کر دیا۔ پھر
اس نے گہری سانس لے کر دوسرا جام بنایا لیکن اس مرتبہ بیئر کی مقدار کم تھی۔ اس نے بوتل مضبوطی سے بند کی اور کمرےکی میز پر رکھ دی۔اچانک اس کی نظر میز کے ساتھ نصب آئینے میں دکھائی دینے والے اپنے عکس پر پڑی اور وہ کپکپا کر رہ گیا۔ چھوٹے چھوٹے ہال اور سوجی ہوئی سرخ آنکھیں جن میں نسیں ابھری ہوئی تھیں۔ اس وقت وہ جیل کا کوئی مفرور قیدی لگ رہا تھا۔ بس وہ قیدیوں کی طرح صحت مند نہیں تھا۔اس نے شکنوں بھری پتلون اور قمیص پہن لی۔ اسےخیال آیا کہ اگر رات کے وقت گھر جا کر کچھ کپڑے نکال لانے کا موقع مل جاتا، تو کتنا اچھا ہوتا۔ لیکن قتل کے ایک۔مفرور مجرم کو ایسے مواقع کبھی راس نہیں آتے ۔ اس لمحے ڈان کو ایلن کا خیال آیا اور اس کے چہرے کے نقوش اذیت سے بگڑ گئے ۔
ان کا جھگڑا ایک احمقانہ بات پر ہی شروع ہوا تھا لیکن اس کا نتیجہ کتنا بھیانک نکلا ۔ اس نے کئی بار زور زور سے سر جھٹکا۔ وہ اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ وہ جب بھی سوچتا اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی۔ ایک خوفناک پچھتاوا اس کے ذہن میں ڈنک مارنے لگتا۔ لیکن اس نفرت اور پچھتاوے سے ایلین کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا؟ اب ایلن اور اس کے باپ کو کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا تھا۔ ڈان ولیم لیوٹ کو پسند کرتا تھا لیکن اس کا جذبہ یک طرفہ تھا۔ ولیم لیوٹ کو صرف دو چیزوں سے پیار تھا۔ ایک اپنے کاروبار سے اور دوسرے اپنی بیٹی ایلن سے۔ اسے اپنی بیٹی کے لیے ایک ٹٹ پونجیا صحافی شوہر پسند نہیں تھا اور اس کی سوچ شاید درست ہی تھی۔ ڈان نے چھوٹےچھوٹے گھونٹ لے کر گلاس خالی کیا۔ اس کے بعد نہا کے شیو کی کلائی پر گھڑی باندھی اور پستول کو پتلون کی بیلٹ میں اڑس لیا۔ پتلون سے باہر نکلی ہوئی کھلی قمیص نے پستول کا ابھار بخوبی چھپا لیا۔ جب وہ آستین کے بٹن لگا رہا تھا تو دروازے پر دستک ہوئی ۔ وہ اچھل پڑا۔
”کون ہے؟“ اس نے قریب جاکر پوچھا۔
”آپ کے لیے پیغام ہے جناب!“ باہر سے آواز سنائی دی۔
اس نے محتاط انداز میں تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر جھانکا سامنے کھڑے ایک بیرے کو دیکھ کر اس نے اطمینان لیےکا سانس لیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں لفافہ تھا۔ ڈان نے اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر پچاس سینٹ رکھے اور لفافہ لے کر کا دروازہ بند کر دیا۔
پیغام بے حد مختصر تھا:
”وہ جھیل کے کنارے ایک دور افتادہ کنارے پر پچھلی کا شکار کر رہا ہے اور بالکل تنہا ہے۔“
ڈان نے پیغام اور لفافے کو توڑ موڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ ہوٹل سے متصل جھیل کے ساحل کے ساتھ ساتھ کوئی سو گز دور ایک گودی تھی جہاں کشتیاں کرائے پر دستیاب تھیں۔ وہ ریتلے ساحل پر غسل آفتابی کے لیے لیٹے ہوئے چلتے پھرتے مردوں، عورتوں اور دیگر شائقینِ تفریح سے بچ کر چلتا ہوا گودی کی طرف بڑھتا رہا۔ کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ لیکن ہوٹل کے برآمدے میں کرسی پر بیٹھا ہوا وہ فربہ اندام شخص جس نے کان میں آلہ سماعت الا رکھا تھا، بڑی توجہ سے اسے گودی کی طرف بڑھتے ہوئےدیکھتا رہا۔ڈان نے گودی پر پہنچ کر ایک کشتی کرائے پر لی اور اس میں سوار ہو کر جھیل کے اس کنارے کی طرف روانہ ہو گیا جہاں آسمان جھیل کے پانی پر جھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ دھوپ کی چمک کے باعث اور دور کی چیزیں دیکھنے کی کوشش میں آنکھوں پر زور دینے سے اس سے اس کی آنکھیں درد کرنے لگیں۔ ان میں بار بار پانی بھر آنے لگا۔ اس کی دور کی نظر بے حد کمزور تھی لیکن ابھی کم از کم وہ چشمہ نہیں لگا سکتا تھا۔ اسے دوسرے کنارے پر پہنچتے ہوئے پندرہ منٹ سےکچھ زیادہ عرصہ لگ گیا۔ وہاں کوئی ساحل نہیں تھا بلکہ سرسبز و شاداب پہاڑ جھیل کے پانی میں ڈوبے کھڑے تھے۔ اوپر جنگلات تھے۔ ایک طرف چھوٹی چھوٹی کھاڑیاں اور آبی گزرگاہیں تھیں جہاں پہاڑی چشمے آ کر جھیل میں گرتے تھے۔ یہاں مچھلی کا شکاراکیلے کھیلنے کے شوقین اپنی کشتیوں میں ادھر ادھر منڈلا رہے تھے ۔ سب اپنی مصروفیت میں مگن تھے کوئی کسی کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ ڈان نے اپنی کشتی کی رفتار دھیمی کی اور جیب سے چشمہ نکال کر آنکھوں پر چڑھا لیا۔ مزید ایک میل آگے جانے پر اسے اپنا مطلوبہ شخص دکھائی دے گیا۔ اس کی محبوبہ ایلین لیوٹ کے باپ ولیم لیوٹ کا کاروباری حصے دار فرینک نیور موجود تھا۔ وہ اوپر جھکے ہوئے درختوں سے گھری کھاڑی میں مچھلی کا شکار کھیل رہا تھا۔ ڈان نے چشمہ آنکھوں سے اتار کر جیب میں رکھ لیا۔ پھر اس نے انجن بند کیا اور کشتی کو کھاڑی کے راستے پر ڈال دیا۔ جب وہ قریب پہنچا تو نیور نے غصے ہے چلاتے ہوئے اپنی ڈور جلدی سے اٹھائی ورنہ وہ ڈان کی کشتی سے الجھ جاتی ۔
”ارے احمق ! یہ کیا کر رہے ہو ؟“
ڈان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی کشتی آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہوئی نیور کی کشتی سے ٹکرا گئی۔ نیور غصےسے کپکپا رہا تھا۔ وہ ایک طویل القامت ادھیڑ عمر شخص تھا.
جس نے سر پر کینوس سے بنی ٹوپی پہن رکھی تھی ۔
”معاف کیجئے جناب! دراصل مجھے آپ سے ایک نہایت اہم کام کے سلسلے میں ملنا تھا۔ ہوٹل والوں نے مجھےبتایا ہے کہ آپ اس جگہ ملیں گے ۔ ڈان نے کہا۔
نیور نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا اور پوچھا۔
”لیکن تم کون ہو؟ اور کیا چاہتے ہو؟“
”میں ایک رپورٹر ہوں اور گذشتہ رات مڈویسٹ سٹی میں جو دوہرے قتل کی واردات ہوئی ہے اس سلسلے میں آپ سے انٹرویو لینا چاہتا ہوں۔“ ڈان نے جواب میں کہا۔
نیور نے آنکھیں سکیٹر کر اس کی طرف دیکھا اور کہا.” کیا میں بھی تم سے مل چکا ہوں؟“
” نہیں جناب ہم بھی ایک دوسرے سے نہیں ملے۔“ڈان نے کہا۔
”لیکن میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تھامس نامی ایک جنونی نے میرے حصے دار کی بیٹی کو قتل کر دیا۔ اُف ! کتنا بھیانک واقعہ ہے !“ اس نے کہا توڈان نے تفہیمی انداز میں اپنے سر کو جنبش دی اور بولا.
”جی ہاں سب یہی کہہ رہے ہیں۔ لیکن میرے اخبار کے مدیر کا خیال تھا کہ شاید آپ اس معاملے پر کسی اور زاوئیے سے روشنی ڈال سکیں۔ یہ بتائیے کہ آپ کیا قاتل ڈان تھامس سے واقف ہیں۔ ؟“
”میں اس سے کبھی نہیں ملا ..“ نیور خشک لہجے میں بولا ۔” لیکن میں نے ولیم کی زبانی سنا تھا کہ وہ ایک آوارہ بدمعاش اور شرابی قسم کا آدمی ہے۔“
” آپ کو اس واردات کا علم کیسے ہوا؟“ ڈان نے پوچھا۔
نیور نے بے چینی سے پہلو بدلا اور کہنے لگا ۔”مڈویسٹ سٹی ہفتے سے تعطیلات گزار نے یہاں آیا ہوا ہوں ۔ معاف کرنا ۔پولیس نے آج صبح مجھے یہاں فون کیا۔ میں گذشتہ ایک
اب میں۔۔۔“
”کاروبار کے متعلق کچھ بتائیں گے جناب! ولیم لیوٹ کی موت کے بعد قدرتی طور پر آپ کو....“ ڈان پہلے اس کی بات کاٹی پھر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”میں دو دن بعد یہاں سے واپس چلا جاؤں گا۔ اوران دو دنوں میں میرے کاروبار پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ لیکن تمہیں میرے کا روبار سے کیا واسطہ؟“ وہ حیران ہوا۔
ڈان نے کندھے اچکا دیئے۔ اس نے محسوس کیا تھا کہ اب نیور اسے بڑی توجہ سے دیکھ رہا ہے۔ اس نے اپنی ڈور اور کانٹا اٹھا کر کشتی کے فرش پر رکھ دیا تھا اس کا دایاں ہاتھ کمرکے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ درختوں پر چڑیوں کے چہچہانے اور لہروں کے کشتی سے ٹکرانے کی آوازوں کے سوا وہاں اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ڈان نے پلٹ کر جھیل کی طرف دیکھا، دور دور تک پانی کی چادر کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا۔جیسے اس وقت پوری دنیا میں صرف وہی دونوں ہوں۔ ڈان نے اپنی جیب سے چشمہ نکال کر اپنی آنکھوں پر لگا لیا۔ اسی دم نیور کا دایاں ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے سامنے آ گیا اس میں ریوالور چمک رہا تھا۔
” اچھا تو تم ڈان تھامس ہو! کوئی حرکت مت کرنا۔“
”مجھے پہلے ہی سمجھ لینا چاہیے تھا۔ اخبار کے مطابق... . “
”چشمے کے بغیر میں بہت مختلف لگتا ہوں ۔“ ڈان پرسکون لہجے میں بولا۔ میں نے اپنے بال بھی بے حد چھوٹے کروالیے ہیں مگر۔۔۔“
”کچھ بھی ہو مجھے یقین ہے کہ پولیس تمہیں فوراً پہچان لے گی۔“ نیور بولا ۔وہ بے حد مضطرب دکھائی دے رہا تھا۔ ” وہ لوگ بڑی سر گرمی سے تمہیں تلاش کر سے تمہیں تلاش کر رہے ہیں ۔"
”ہاں لیکن تم اور میں ہم دونوں جانتے ہیں کہ ان باپ بیٹی کو کس نے قتل کیا ہے۔ ہے نا مسٹر نیور ؟ “
”کیا مطلب ہے تمہارا؟“ نیور کے پستول نے رخ بدلا ۔ اس کا رخ اب ڈان کے چہرے کی طرف تھا۔
”میں کل رات جب ایلن کو اس کے گھر چھوڑنے کے لیے گیا۔ تو اس کے اپارٹمنٹ کے دروازے پر ہی اسے الوداع کہہ دیا تھا ۔ پھر جیسے ہی وہ اندر دخل ہوئی تو اس نے جولیا تھا میں نے سنا ۔”اوہ انکل فرینک نیور آپ یہاں۔“ پھر اس نے دروازہ بند کر لیا۔“ ڈان نے کہا تو نیور بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ اس کے پسٹل والے ہاتھ میں ذرا بھی لرزش پیدا نہیں ہوئی۔
”اوہ یہ بات ہے۔“اس نے خودکلامی کے انداز میں آہستہ آہستہ کہا۔
ڈان نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا۔
”جی ہاں میں نے ایلن کے یہ الفاظ بڑے واضح طور پر سنے تھے میرا اس سے جھگڑا ہوا تھا وہ ایک نہایت معمولی سی بات تھی جو بڑھتی گئی اس پر میں اسے اس کے گھر واپس لے آیا تمہاری توقع سے پہلے۔۔۔۔“
فرینڈ نیور نے اس پر ایک قہقہہ لگایا اور بولا۔
” پولیس اس بات پر کبھی یقین نہیں کرے گی بھلا کون مانے گا کہ میں اس لڑکی کو نقصان پہنچا سکتا ہوں.“
” تمہیں ایلن سے کوئی غرض نہیں تھی مسٹر نیور تم تو ولیم لیوٹ کو قتل کرنا چاہتے تھے. ایلن نے مجھے بتایا تھا کہ تمہارے اور اس کے باپ کے درمیان اختلاف موجود ہیں۔ ایلن کو کوئی نقصان نہ پہنچانا چاہتے تھے۔ لیکن یونہی تم نے اسے اپارٹمنٹ میں دیکھا تو تمہیں سوجھ گیا کہ واردات کا رنگ بدلنے کا یہی سنہری موقع ہے.“ ڈان نے اچانک کہنا بند کردیا ۔کیونکہ اسے لگا کہ نیور کے ہاتھ پسٹل پر مضبوطی دیکھا رہیں ہیں۔ اور لبلبی پر زور دینے ہی والے ہیں۔
تم تو سمجھ چکے ہو.“ نیور نے دھیمے لہجے میں کہا۔” تم واقعی بے حد چلاک ہو لیکن اس چلاکی سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا گذستہ رات میں یہاں تھا۔ جائے وقوعہ سے 100 میل دور۔۔۔۔ تم ہوٹل میں کسی بھی شخص پوچھ لو اس دن کسی نے مجھے یہاں نو سے بارہ بجے تک نہیں دیکھا ہو گا اس کے باوجود سب گواہی دیں گے کہ میں پورے ہفتے ہر روز مخصوص وقت میں مچھلی کا شکار کھیلتا ہوں اور میں اس شکار کا بہت اچھا شکاری ہوں اب خود ہی دیکھ لو میں میں نے کس طرح تمہیں اپنے کانٹے میں پھنسایا ہے.“
ہاں یہ تو ہے اگر میں کانٹے سے کس طرح نکل بھی جاؤں تبھی تم محفوظ رہو گے کیونکہ پولیس میں سب لوگوں کو یہ یقین ہے کہ قاتل کا اصل ہدف ایلن تھی۔تب تک کسی کا دھیان تُمہاری طرف نہیں جا سکتا ۔“ ڈان نے جواب دیا۔
”ہم ٹھیک کہہ رہے ہو “۔ نیور نے کہا ۔ پھر اس نے کھاڑی کا جائزہ لیا اور درختوں کے جھنڈ اور پھر جھیل کی طرف دیکھا ۔ دونوں کشتیاں بہت آہستگی سے آپس میں ٹکرائیں ۔
”تو میرا اندازہ درست تھا۔ ڈان کے لہجے میں غصے کی جھلک تھی ۔” مجھے اب تک اس پر کامل یقین نہ تھا۔ تم چُپکے سے یہاں سے نکلے اور اپنے حصے دار کو قتل کرنے کے لیے مڈویسٹ سٹی پہنچ گئے ۔ یلن بے چاری تمہارے راستے میں آئی تو تم نے اس کا قصہ بھی پاک کر ڈالا ۔ حالانکہ اس نے تمہیں بھی کوئی نقصان نہ پہنچایا تھا۔“
” اس کی موت کا مجھے بے حد افسوس ہے“۔ نیور نے کہا۔
” یہ بات میں نے اسے بھی بتا دی تھی ۔ اسے بے ہوش کرنے سے پہلے میں نے اسے بتا دیا تھا کہ مجھے اس سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ۔ یقین کرو مجھے اس کا بے حد ملال ہے لیکن اسے ولیم سے پہلے اپارٹمنٹ میں نہیں پہنچنا چاہیے تھا۔ میں نے ولیم سے ملاقات کے لیے گیارہ بجے کا وقت طے کر رکھا تھا ۔“ڈان نے آہستہ سے اپناہاتھ نیور کی کشتی کے کنارے پر ٹکادیا اور پوچھا۔” لیکن تم ولیم لیوٹ کو کیوں قتل کرنا چاہتے تھے؟؟ “
”میں نے کچھ ایسے سودے کیے تھے جو تھے تو غیرقانونی لیکن میرے لیے بے حد منافع بخش تھے۔ اگر ولیم کو ان کے بارے میں معلوم ہوتا تو وہ میرے لیے مصیبت کھڑی کر دیتا ۔ اس لیے میں نے اسے اپنے راستے سے سےہٹانے کا فیصلہ کر لیا ۔“
”یہ تمہاری سیاه بختی !“ ڈان ملامت بھرے لہجے میں بولا ۔ پھر اچانک اس نے نیور کی کشتی کو ایک زور دار دھکا دیا کشتی تیزی سے پیچھے کی طرف کھسکی اور نیور لڑکھڑا گیا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈان نے ایک دم اپنا پستول نکال لیا۔ نیور سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپناریوالور پھر اس کی طرف تان لیا۔ دونوں نفرت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”کیا میں تم پر پہلے گولی چلاؤں نیور ؟“
ڈان نے کہا ۔
”احمق نہ بنو ریوالور پھینک دو۔ جلد کوئی فیصلہ کرو۔“ نیور نے اپنا ریوالور کشتی کے کنارے پر پھینک دیا اور اطمینان سے کہنے لگا ”فائر کرنے کی حماقت نہ کرنا۔ فائر کی آواز سننے والوں کی یہاں کوئی کمی نہیں ڈان تھامس ! تم صرف ایک ہی کام کر سکتے ہو یعنی بھاگ جاؤ۔ اس وقت تک بھاگتے رہو جب تک پکڑے نہ جاؤ۔ بھاگو ڈان تھامس ! بھا گو!“
”جو کچھ تم نے بتایا ہے اس کے بعد بھی؟“ ڈان نے جھک کر نیور کا ریوالور اٹھا لیا۔
نیور مسکرایا اور بولا ” اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم اگر کسی کو یہ سب کچھ بتا بھی دو تو وہ ہرگز اس پر یقین نہیں کرے گا۔ تم تو تو پولیس کو مطلوب ہو۔ ذرا اپنا حلیہ تو دیکھو جان بچا کر بھاگتے پھر رہے ہو۔“
”یہ بہروپ اعلی ہے نیور !“ڈان نے کہا ” اب تک جو کچھ ہوا سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہوا ہے اور صرف اس لیے کہ ہمیں تم سے سچ اگلوانا اور اپنے جرم کا اعتراف کروانا تھا۔ اخبار میں تم نے جو کچھ پڑھا وہ میرا ہی لکھاہوا تھا۔“
”تم جھوٹ بول رہے ہو!“ نیور چیختے ہوئے کہنے لگا۔
”نیور! پولیس کو مجھ پر کبھی شک نہیں تھا۔ ایلین کو اس کے گھر چھوڑنے کے بعد میں نے وہی کچھ کیا جو کوئی مایوس صحافی کر سکتا تھا۔ خاص طور پر اپنی محبوبہ سے جھگڑنے کے بعد! میں سیدھا شراب خانے گیا اور خوب ڈٹ کر شراب پی۔ وہاں میں کوئی پون گھنٹہ تک بیٹھا رہا۔ اس کے متعدد گواہ جن میں دو تو پولیس والے میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
کے وقت میرے پا برے پاس بیٹھے۔
نیور نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اوربولا
”پھر میں….“
”تم سمجھے نہیں ؟ “ڈان نے اس کی بات قطع کردی ۔
”مڈویسٹ سٹی پولیس نے اس علاقے کے شیرف کے ساتھ مل کر یہ ڈرامہ تیار کیا ہے۔ ایک ڈپٹی شیرف میری مدد کے لیے میرے ساتھ یہاں موجود ہے۔ وہ دیکھو۔“
نیور نے چونک کر اشارے کی سمت دیکھا درختوں کے جھنڈ سے ایک فربہ اندام آدمی باہر نکل آیا۔ ان کے درمیان پچاس گز کا فاصلہ تھا۔
” لیکن اس آدمی تک تو میری آواز نہیں پہنچ سکتی۔“نیور کھنکار کر بولا ۔
”ڈپٹی ! اپنا ہاتھ تو لہرا کر دکھاؤ ۔“ ڈان نے دھیمی آواز میں کہا۔ پچاس گز دور کھڑے ڈپٹی شیرف نے ان کی جانب ہاتھ لہرایا۔
”آج کے دور میں ذرائع مواصلات نے بے حد ترقی کر لی ہے اور بے تار پیغام رسانی بہت آسان ہوگئی ہے۔ تم میری کلائی پر بندھی ہوئی یہ گھڑی دیکھ رہے ہو۔ نیور ! یہ در حقیقت چھوٹا سا انتہائی طاقتور ٹرانسمیٹر ہے اور ڈپٹی کے کان میں جو آلہ سماعت لگا دکھائی دے رہا ہے یہ اس کا ریسیور ہے۔ اس سے جو تار جا رہا ہے وہ ڈپٹی کے کوٹ کی جیب میں رکھے ہوئے ٹیپ ریکارڈر سے منسلک ہے۔“ڈان تھامس پھر عمیق نگاہی سے نیور کی طرف دیکھ کر کہنے لگا..“کیا بات ہے مسٹر نیور تم کچھ بیمار سے دکھائی دے رہے ہو..جیسے مچھلی پکڑنے والا کانٹا تمہارے حلق میں پھنس گیا ہو؟۔۔“
فرنیک نیور کی حالت واقعی انتہائی خستہ ہو رہی تھی۔
”چلو اب واپس چلیں، میں ڈپٹی شیرف کو نہیں جانتا..لیکن اس سے . ہاتھ ملانا چاہتاہوں۔ اور مسٹر نیور مجھ سے مجھے تم سے کوئی دشمنی نہیں بالکل نہیں ۔ ناراض مت ہونا ۔“
ختم شد
تبصرہ لکھیے