ہوم << دوسروں کے دکھ بانٹیں - روبی ہاشم

دوسروں کے دکھ بانٹیں - روبی ہاشم

روبی ہاشم رات کے نو بجے کے قریب ایک پروگرام سے واپس آ رہے تھے، جیسے ہی اکبر چوک کے اشارے پر پہنچے، ٹریفک سگنل کی لال بتی نے روک دیا، بھیک مانگنے والے آگے بڑھے اور تیزی سے گاڑیوں کے گرد پھیل گئے۔ بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہوئے سولہ سترہ سال کی لڑکی میری جانب بڑھی، اور بھرائے ہوئے لہجے میں صدا دی کہ باجی! میری مدد کرو، میں کوئی کام کاج نہیں کر سکتی، صبح سے بھوکی ہوں۔ میں نے استفسار کیا کہ تم کوئی کام کیوں نہیں کرتی۔ جواب دیا کہ میں معذور اور اپنے گھر والوں پر بوجھ ہوں، اس لیے بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پالتی ہوں. یہ سن کر بے حد دکھ ہوا، ادھر سگنل کی ہری بتی جل چکی تھی میں نے جلدی سے پرس سے دس کا نوٹ نکالا اور اسے دے دیا. گھر لوٹ آئے مگر کانوں میں بار بار اسی لڑکی کی آواز گونج رہی تھی کہ میں بوجھ ہوں، میں بوجھ ہوں، میں بوجھ ہوں۔
اسی لمحے وہ نابینا لڑکی یاد آئی جس نے یونیورسٹی آف پنجاب لاہور کے الرازی ہال میں منعقدہ (International Day for Persons with Disability) کے موقع پر آئی ایم ناٹ ڈس ایبل ماما ، کے عنوان سے نظم پڑھی تھی اور وہ بار با ردہرا رہی تھی کہ ( I am not disable mama , I am differently able mama ) تو ہال میں موجود تمام شرکاء کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ جسمانی معذوری کوئی عیب نہیں، وہ بھی نارمل بچوں کی طرح پڑھ لکھ کر، ہنر سیکھ کر اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتے ہیں۔ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے ملک و قوم کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ اگر قدرت نے اُن میں کوئی جسمانی کمزوری رکھی ہے تو نارمل انسانوں سے کہیں زیادہ حساس، دوسروں کا درد محسوس کرنے والے، خوش و خرم رہنے والے، اوراپنے رب کا شکر ادا کرنے والے ہیں ۔ اسی ہال میں اخوت کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر امجدثاقب کی پُرتاثیر تقریر نے حاضرین کو گویا محصور کر لیا تھا۔ ہال میں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا اور ڈاکٹر امجدثاقب صاحب فرما رہے تھے کہ ہمارے والدین اپنے معذور بچے سے یکساں سلوک نہیں رکھتے، اپنے ہی گھر میں اُس بچے کا استحصال ہوتا ہے۔ والدین سپیشل بچوں کو دو سروں سے ملوانے کے لیے بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر یہی رویہ بہن بھائی اور دیگر رشتہ دار اپناتے ہیں۔ لیکن ہم ہر بات کا موردِالزام ہمیشہ دوسروں کو ٹھہراتے ہیں کہ معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے ، ریا ست کی یہ ۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری اپنی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہم سپیشل بچوں کے لیے تعلیم و ترقی کے مواقع فراہم کرکے سیڑھی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عام سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ریمپ بنوا کے بھی ہم اُن کی مشکل آسان کر سکتے ہیں تا کہ جو طالب علم وہیل چیئر پر آتے ہیں اُنھیں کوئی دقت نہ ہو۔
قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں اُن کے رویوں اور حساسیت پر مبنی ہیں اور اگر ایک نارمل شخص کسی ایک ڈس ایبل کا سہارہ بنے تو وہ اُس کا معاون بن سکتا ہے۔ زندگی میں بہت سے ایسے نامور لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے جسمانی کمزوری کو ترقی کی راہ میں روکاوٹ نہیں بننے دیا۔ 2012 میں بلائنڈز کا کرکٹ ٹی ٹوئنٹی میچ میں فائنل تک پہنچنا ہی اپنے آپ میں بہت بڑی مثال ہے۔ ڈیف کرکٹ ٹیم کی مسلسل کامیابیوں کا سفر گیارہ سالوں پر محیط ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر خالد جمیل بھی ایسا ہی چمکتا ستارہ ہے جنہوں نے جسمانی معذوری کو اپنی کامیابیوں کے آڑے نہیں آنے دیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب تقریر کر رہے تھے کہ مجھ پر ایک سوچ غالب آ گئی کہ آخرمعذوری ہے کیا ؟ کیا جو چل پھر نہیں سکتے، وہ معذور ہیں یا وہ جوقوتِ سماعت ، قوتِ بینائی یا قوتِ گویائی سے محروم ہیں یا دماغی خلل یا ذہنی پسماندگی، معذوری ہے یا بیروز گاری بھی معذوری کے زمرے میں آتی ہے؟ کوئی بھی شخص اگر بے روزگار ہے تو وہ اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے ناکارہ ہے اور اسے بھی گھر والے بوجھ ہی سمجھتے ہیں۔
اخوت نے 2001ء میں بلا سود قرض حسنہ پروگرام شروع کر کے پندرہ لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرکے اُن کے ذاتی تشخص کو اُجاگر کیا اور انہیں باعزت روزگار کے قابل بنا کر معاشرے کا کارآمد رکن بنایا۔ پورے ملک بشمول گلگت بلتستان میں لوگوں کی سہولت کے لیے 500 سے زائد برانچز قائم کیں۔ معاشرے کے دھتکارے اور بوجھ تصور کیے جانے والے لوگ جنہیں ہم خواجہ سراء کہتے ہیں اُن کی دینی و سماجی تربیت کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے ٹریننگ پروگرام شروع کیے، تقریباً 500 سے زائد خواجہ سرا، اخوت کے خواجہ سراء بہبود پروگرام میں رجسٹرڈ ہیں جنہیں ایک مناسب رقم بطور وظیفہ بھی دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے آج بہت سے خواجہ سراء بھیک مانگنا چھوڑ کے اپنے ہاتھوں سے رزقِ حلال کماتے ہیں۔ اخوت کلاتھ بینک میں خواجہ سراء ہی کپڑوں کی چھانٹی، دھلائی، استری اور پیکنگ کا کام سرانجام دیتے ہیں ۔ اخوت ہیلتھ سروسز میں لاکھوں لوگوں کو اعلیٰ درجے کی مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی گئیں اور ذیابیطس سے متاثرہ سینکڑوں لوگوں کے جسم کے اعضاء، خصوصاً پائوں کٹنے سے بچایا۔
قرضہ بلا سود دیا، علاج بلا معاوضہ کیا، تو خیال آیا کہ اگر قرض بلا سود دیا جا سکتا ہے تو تعلیم بغیر فیس کے کیوں نہیں ؟ اسی سوچ کے تحت لاہور میں اخوت کالج بنایا جس میں پاکستان کے پانچوں صوبوں سے مستحق طالب علم بغیر فیس تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اخوت کالج اپنی اسی انفرادیت کی وجہ سے چھوٹا پاکستان Mini Pakistan کہلایا جانے لگا ہے۔ اخوت لیڈرشپ پروگرام کے تحت سینکڑوں طالب علموں کی سوچوں کے زاویے ہی تبدیل کر دیے گئے تو کہیں اخوت ڈریمز میں سینکڑوں لاعلاج ،دل کے عارضہ اور کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا بیمار بچوں کی بیماری میں نہ صرف ان کی خواہشات کو پورا کرکے ان کی عیادت اور دلجوئی کی گئی۔ اس کے علاوہ اخوت یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ تیار کیا، جس میں غریب و مستحق بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ڈاکٹر امجد ثاقب ہی ہیں جن کے حواسِ خمسہ پوری طرح اپنا کام سرانجام دیتے ہیں، جنھیں غریبوں کا دکھ درد دکھائی دیتا ہے، جن کو مظلوموں کی پُکار سُنائی دیتی ہے، جن کا دل صرف دکھی لوگوں کے لیے دھڑکتا ہے، جن کے ہاتھ دوسروں کی مدد کے لیے تیار ر ہتے ہیں، جو کبھی جسمانی اور ذہنی اعتبار سے تھکتے نہیں، جنہوں نے ہمیشہ دوسروں کے لیے سیڑھی اور پُل کا کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب آفتاب کی مانند ہیں جن سے ماہتاب اور ستارے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ وہ پارس بھی ہیں جو بھی ان کو چُھو لے وہ سونا بن جائے۔ میں بڑے وثوق سے کہتی ہوںکہ اگرہم بارگاہِ خداوندی میں شرمساری سے بچناچاہتے ہیں تو کیمیا گر نے نسخہ بتا دیا ہے کہ آئیں دوسروں کے دُکھ درد بانٹ لیں ‘غریب پرور اور محتاجوں کے لیے سہارہ بن جائیں۔
بلا شبہ ڈاکٹر امجد ثاقب اپنے حصے کی شمع جلا چکے ہیں اور اس بات کے متمنی ہیں کہ بحیثیت انسان اپنی ذات سے بالاتر ہو کر عملی طور پر اپنے رویوں اور کردار میں مثبت تبدیلی پیدا کریں۔ جہا ں تک ممکن ہو دوسروں کے کام آئیں اور ان کی زندگیوں سے ناامیدی کے اندھیروں کو کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ میں بوجھ ہوں ۔ میں بوجھ ہوں