بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا:
"تعلیم ہماری قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے تعلیم کے میدان میں ترقی نہ کی تو نہ صرف دوسری قوموں سے بہت پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہماری تباہی و بربادی کا امکان بھی رہے گا۔"
آج قائداعظم کے اس فرمان پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم تعلیم کو کبھی ترجیح نہیں دی، اور جہالت ہماری پہچان بن چکی ہے۔
تعلیم کی کمی کے باعث ہمارا معاشرہ عدم مساوات، عدم برداشت، تشدد، جاگیردارانہ سوچ، اور امیر و غریب کے بڑھتے فرق جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دنیا سے تعلیمی میدان میں پیچھے ہیں اور بامقصد تعلیم کی ضرورت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔
سندھ یونیورسٹی، جو زیادہ تر غریب خاندانوں کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا واحد ذریعہ ہے، آج پانی کی کمی کی وجہ سے تدریسی عمل بند کرنے پر مجبور ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے والدین نے اپنی ضروریات کو قربان کر کے انہیں تعلیم کے لیے بھیجا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ یونیورسٹی کے اساتذہ وائس چانسلر کی تعیناتی کے طریقہ کار پر اختلاف کرتے ہوئے غیر معینہ مدت کے لیے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کرچکے ہیں۔ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو سندھ کے دور دراز علاقوں سے آئے طلبہ کے خواب ادھورے رہ جانے کا خطرہ ہے۔
حکومت سندھ، یونیورسٹی انتظامیہ، اور متعلقہ اداروں کو فوری طور پر پانی کی کمی کے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے تاکہ طلبہ کا تعلیمی نقصان نہ ہو۔
حل اور تجاویز
1. سندھ یونیورسٹی میں پانی کی قلت کا مستقل حل نکالنے کے لیے بجٹ مختص کیا جائے۔
2. اساتذہ اور وائس چانسلر کے مسائل پر مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کیا جائے۔
3. طلبہ کے لیے متبادل تدریسی انتظامات کیے جائیں تاکہ ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔
4. حکومت اور معاشرہ مل کر تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا زینہ ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی تعلیم متاثر ہونے دینا ان کے سنہرے خوابوں کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے تاکہ یہ طلبہ اپنی منزل حاصل کر سکیں اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
Nice information