ہوم << عقیدت کا یہ کیسا اظہار ہے؟ اریبہ طاہر

عقیدت کا یہ کیسا اظہار ہے؟ اریبہ طاہر

آج جامعہ سے واپسی پر اتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑا . عاشقانِ اہل بیت سڑکوں پہ ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ حضرت علیؓ سے محبت کا اظہار کر رہے تھے. جگہ جگہ راستے بلاک کر کے لاؤڈ سپیکر نظمیں اور قصیدے لگاۓ ہوۓ تھے۔ ایک جگہ تو باقاعدہ گانے چل رہے تھے۔ ایک دوسرے سے مقابلے کی دھن میں سپیکر کی آوازیں اتنی بلند کہ وہاں سے گزرنا محال تھا ۔ کہیں لنگر شریف کے لیے جانور ذبح کیے جا رہے تھے۔ وقفے وقفے سے آتش بازی کا سلسلہ جاری تھا۔

راستے اس طرح بلاک کیے ہوئے تھے کہ دو تین جگہ سے راستہ بدل بدل کے آنے کے باوجود بھی بائک گلی کے دوسرے کونے پہ کھڑی کرنی پڑی. میں بس یہ سوچ کہ حیران و افسردہ ہوں کہ یہ کون سا دین ہے؟ ربِ کعبہ کی قسم! نہ یہ وہ دین ہے جو محمدﷺ لے کر آۓ تھے۔ اور نہ ہی یہ وہ دین ہے جس کے خلیفہ چہارم شیرِ خدا حیدر قرار علی المرتضیٰ ابو تراب ؓ پیرو کار تھے۔ یہ تو خرافات کا پلندہ اور بدعات کا مجموعہ ہے۔ اسلام تو وہ دین ہے جو آسانی دینے کے لیے آیا ہے۔ یہ تو وہ دین ہے جس میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ثواب ہے۔ راستے بلاک کرنا ، بے مقصد جگہ جگہ لاوڈ سپیکر لگا کر دوسروں کو تکلیف دینا ، آتش بازی کرنا، یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر دینِ اسلام نہیں ہو سکتا۔ اگر بات صرف اہلِ تشیع تک رہتی تو شاید ہم برداشت کر لیتے لیکن اہلِ سنت بھی ان خرافات میں پیش پیش نظر آۓ ہیں۔۔ اور یہ بات اہل علم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ بدعت کبھی بانجھ نہیں ہوتی اور بدعات کا سلسلہ رکتا نہیں بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اِنَّ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَـعًا لَّسۡتَ مِنۡهُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ‌ ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُهُمۡ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَـبِّـئُـهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ ۞ بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور وہ بہت سے فرقے بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، پھر وہ ان کو خبر دے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔

حضرت علیؓ سے تمام مسلمان محبت کرتے ہیں اور بغض کرنے والے منافق ہیں۔ لیکن محبت کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آپؓ کا درجہ بڑھا کر مشکل کشا اور حاجت روا بنا دیا جاۓ یا آپ کے عظیم الشان ساتھیوں اور صحابہ اکرام کو بُرا کہنا شروع کر دے۔ سیدنا علیؓ سے محبت اور ان کی فضیلت ثابت کرنے کےلیے ہمیں ان خرافات اور بدعات کو اپنانے کی ضرورت نہیں۔ سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے علیؓ سے فرمایا: أنت مني بمنزلۃ ھارون من موسیٰ، إلا أنہ لا نبي بعدي تیری میرے ساتھ وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسیٰؑ سے ہے إلا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ البخاری:۳۷۰۶ و مسلم: ۲۴۰۴/۳۰

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات (اللہ) کی قسم ہے جس نے دانہ پھاڑا (فصل اُگائی) اور مخلوقات پیدا کیں، میرے ساتھ نبی امی ﷺ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میرے ( علی رضی اللہ عنہ کے) ساتھ محبت صرف مومن ہی کرے گا اور (مجھ سے) بغض صرف منافق ہی رکھے گا۔ مسلم: ۷۸/۱۳۱

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں مزید فرمایا ہے کہ : میرے بارے میں دو (قسم کے) شخص ہلاک ہو جائیں گے: ¹: غالی (اوپر محبت میں ناجائز ) افراط کرنے والا، ²: بغض کرنے والا حجت باز“ فضائل الصحابۃ للامام احمد ۵۷۱/۲ ح۹۶۴ إسنادہ حسن الحدیث: ۴ص۱۵

ایک اور جگہ فرمایا:
“ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتیٰ کہ وہ میری محبت کی وجہ سے(جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض رکھے گی حتیٰ کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہو گی“ (فضائل الصحابۃ ۵۶۵/۲ وإسنادہ صحیح، و کتاب السنۃ لابن ابی عاصم: ۹۸۳ وسندہ صحیح/ الحدیث:۴ص۱۵)

چونکہ ان دونوں اقوال کا تعلق غیب سے ہے لہٰذا یہ دونوں اقول حکماً مرفوع ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ باتیں بتائی ہوں گی۔ اور آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گی حضرت علیؓ سمیت تمام صحابہ سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ جو ان میں سے ایک کہ ایمان پہ بھی شک کرے۔۔اس کا اپنا ایمان جاتا رہتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا کرے۔