گھر میں شادی کے ہنگامے جاگ اٹھے تھے. ایسا لگتا تھا راتیں بھی دن ہوگئی ہیں۔ اکلوتے بیٹے کی شادی کیا طے ہوئی، جنید کے والدین تو بولائے بولائے پھرتے تھے کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔شگنوں کے یہ دن کتنے سالوں بعد اس آنگن میں اترے تھے۔
”جنید کے عقیقے پر ایسی رونق لگی تھی بنو جیسی اب لگ رہی ہے۔“ دادی نے بہو کو مخاطب کیا اور نظروں ہی نظروں میں جنید کی نظر اتاری تو امی ابا نے بھی گہری مسکراہٹ سجا کے ایک دوسرے کو دیکھا۔محبت اور سکون کے کتنے ہی پل ان کی آنکھوں کے مہمان بن گئے۔تیس سال کا ساتھ تھا آخر۔۔۔اب تو دونوں تھکنے لگے تھے. زندگی کی گاڑی چلاتے اور مسائل کی بھٹی میں جلتے ہوئے بھی ایسی تھکن محسوس نہیں کی تھی جیسی جنید کے ملک سے باہر رہنے والے ان پانچ سالوں میں ان کی روح تک اتر آئی تھی۔ اب جب جنید بغیر بتائے ہی واپس آ گیا تو دونوں ہی کھل اٹھے تھے۔
دور نزدیک کے رشتہ دار اپنی جوان بیٹیوں سمیت مبارک دینے آنے لگے تو گھر کا کونہ کونہ بھولی بسری رمزوں پہ مسکرانے لگا۔جنید نے چچا کی بیٹی کے لیے ہاں کہہ دی. وہ شادی کر کے مہینہ بھر سکون سے رہنے کا سوچ رہا تھا۔ اس کی منصوبہ بندی میں امی ابا اور روش کو ساتھ ہی لے کے جانا شامل تھا۔ لیکن وہ ابھی اپنے گھر اور اپنوں میں جینے کا لطف لے رہا تھا ، جب ایک حادثہ اس کی تقدیر بدلنے آ پہنچا۔ تقدیر بھی کیسی گھنی میسنی چیز ہے جہاں دیکھتی ہے چار بندے خوش ہیں، وہیں آن دھمکتی ہے۔
فضا میں کبھی بسنت کے رنگ بکھرتے تھے۔پکوان پکتے تھے اور لوگ دھنک رنگوں کے لباس پہنے آوازے کستے آپے سے باہر ہوئے پھرتے رہتے تھے۔لیکن اب ایسا نہیں تھا. جنید کو کئی چیزوں نے فرطِ حیرت میں ڈالا۔بہت کچھ بدل چکا تھا۔کتنے ہی تہوار اب سہمے رہتے تھے. حادثوں نے رونقیں نگل لی تھیں۔ جنید کو اس کے چچا کے بیٹے چھت پر لے گئے تھے بسنت دکھانے کے لیے۔ جنید کی کمائی سے یہ معمولی سا گھر اب حویلی بن گیا تھا، چھت تو گویا آسمان سے باتیں کرتی تھی۔
رشتہ دار تو میٹھے محبتی ہوتے ہی گئے، خود جنید بھی بہت خوش تھا. اس کے والدین نے اس کی جدائی کے ایک ایک دھاگے سے آسائشیں پروس کے رکھی تھیں کہ ان کا بیٹا آئے گا تو وہ اسے واپس نہیں جانے دیں گے۔ یہیں رکھیں گے اپنے جگرگوشے کو اپنی نظروں کے سامنے، اور زندگی کے دامن میں جتنے دن بچے ہیں ان کو خوب اچھی طرح جییں گے لیکن یہ تقدیر۔۔۔۔ کھچری بنی ہنستی رہتی ہے اور گھٹنوں میں منہ دبا کے سرگوشی میں کہتی ہے ”ہو۔۔۔۔۔لو خوش ہونی تو وہی ہے جو میں نے کرنی ہے“
ڈیک پہ اونچی آواز میں ,پتنگ باز سجنا سے ۔۔۔پتنگ باز بلما سے ۔۔۔لگا پیچا تو مچ گیا شور۔۔۔۔گانا گونج رہا تھا، جب کسی لڑکے نے مست اڑتی پتنگ ایک لمحے کے لیے جنید کے ہاتھ میں دے دی ۔۔۔پتنگ ڈولنے لگی۔۔قہقہے فضا کو مہکا رہے تھے. سب جنید کو ”انگریج ہوگیا اے“ کہہ کہہ کے چھیڑ رہے تھے، جب پتنگ نیچے گری تو جنید کے ہاتھ کو کچھ عجیب لگا جیسے کچھ ہوا ہے، وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔خون ہی خون تھا۔
”او تیری۔۔۔۔ بھاگو بھاگو۔۔۔۔ چھپاؤ یہ سب ۔۔۔ جنید تو نے یہ سب پی جانا ہے بھیا ۔۔کش نہیں ہوا یہاں “ وہ دھاڑیں مار کے رو رہا تھا. تبھی سب بھاگ گئے. شہباز اسے بازو کے حصار میں لیے سہلاتا رہا. جیسے ہی وہ سنبھلنے لگا تو وہ بولا: ”جنید بھائی ڈور لینے کسی لڑکے کو بھیجا تھا، وہ ایسی ڈور لے آیا،مجھے تو بالکل نہیں پتہ تھا ورنہ میں آپ کے ہاتھ میں کبھی نہ دیتا۔۔۔ آپ ہمت کریں مرد کہاں روتے ہیں بھائی۔۔۔ یہ حادثے تو روز کا معمول ہیں۔یہیں چپ سادھ لیں۔۔۔اپنے گھر کی خوشیاں بچائیں۔“
”کسی کے خون سے ۔۔۔۔ میری خوشیاں کیسے بچیں گی۔۔مجھے قاتل بنا دیا تم لوگوں نے۔“وہ پوری قوت سے دھاڑا۔ سب اسے پکڑ کر نیچے لے آئے۔تسلیاں دلاسے اور خوف نے معصوم خوشیوں کی جگہ لے لی۔یہ جگہ لینا بھی عجیب مشغلہ ہے۔ذرا اپنی جگہ چھوڑو کوئی دوسرا پاؤں پسار لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہونی دھرنا دے چکی تھی اس دہلیز پر۔ سارے لڑکے جنید کو سمجھا رہے تھے ”شاید بچ گیا ہو ۔ایسے فوری موت تھوڑی لکھی ہوگی اس کی۔بھول جائیں ۔۔۔۔کچھ ہوا ہی نہیں۔“
شادی کی رات عجیب ملال میں بدل گئی تھی. جنید کسی معمول کی طرح دوسروں کے اشاروں پر چل رہا تھا۔دلہن گھر لے آئے۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں سجے سپنے دھڑکے,خدشے بن چکے تھے. وہ روش کے قریب بیٹھتا ہوا بولا: ”میرا دل اس حادثے کی انی پر اٹکا ہوا ہے پیاری ۔۔۔سماعتیں کہیں سے رونے والی آوازوں کی بازگشت میں گم ہیں۔ میرااور تمہارا رشتہ تو اٹل ہے ایسے جیسے میرے سینے میں یہ دل۔۔۔لیکن کچھ پتہ چل لینے دو کہ میرے ہاتھوں ہوا کیا ہے؟“
دلہن نے ہاتھ بڑھا کر اس کے سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔وہ اس کے قریب آ گئی: ”یہ ہمارے وطن کے لوگ باہر جاکر اتنے حساس کیوں ہو جاتے ہیں جنید۔۔۔میرے بھائی تو ایسے لوگوں کو بزدل سمجھتے ہیں۔آپ فکر نہ کریں کچھ نہیں ہوا ہوگا اور اگر۔۔۔ کچھ ہوا بھی ہے تو ڈورسے گردن کٹنے کے حادثے یہاں روز ہوتے ہیں پھر بھی لوگ رکتے نہیں۔۔سنبھلتے تک نہیں ہیں۔ایک گھر میں ماتم ہے تو یہ ماتم برپا کرنے والے شرمندہ تک نہیں ہوتے بلکہ اسی گھر میں۔۔۔جنازے میں عام لوگوں کی طرح پھرتے رہتے ہیں۔۔۔جنید یہاں تو انسانیت کا رواج تک نہیں رہا۔میری ماں کہہ رہی تھی جو ڈر گیا وہ مر گیا سمجھو۔۔۔۔لیکن میں ۔۔۔۔۔ میں آپ جیسے انسان کے ساتھ پر بہت خوش ہوں ۔۔۔مطمئن ہوں۔۔۔شاید کچھ نہ ہوا ہو۔۔۔شاید ۔“ روش کی آواز جنید کی رگوں میں احساس جرم کو سمیٹ رہی تھی وہ قتل کو قتل کہنے کی طاقت رکھتی ہے. یہ خوش کن احساس ہوتے ہی جنید اسے دیکھنے لگا۔وہ اسے شکریہ کہنا چاہتا تھا۔
اسی پل باہر سے آتی آوازوں نےاسے دہلا دیا۔وہ جھٹ سے باہر نکلا۔۔۔۔۔بہت سے لوگ ان کے دروازے پر تھے پولیس بھی تھی اور۔۔۔۔ کہیں سے ماں کی کرلاتی آواز اس کا دل چیرنے لگی۔ وہ سن رہا تھا: ”ڈور لگتے ہی انصر گرگیا تھا بائیک سے۔۔۔بچنا مشکل ہی تھا لیکن ہسپتال بروقت لے گئے تو دوتین دن زندگی اور موت کی جنگ چلتی رہی۔۔ ادھر سے ڈور آئی تھی۔گلی کے کیمرے میں صاف نظر آ رہا ہے۔تم لوگ شادی رچا کے بیٹھے ہو، وہاں صف ماتم بچھی ہے۔“یہ مختلف لوگوں کی آوازیں زمین و آسمان ہلا رہی تھیں۔
وہ کانپ رہا تھا،رو رہا تھا دلہن کے بھائی اسے پیچھے دھکیلنے لگے۔ تبھی وہ پوری طاقت سے چلایا: ”جانے انجانے میں جرم کر کے کیسے ہضم کرلیتے ہو تم لوگ۔کیا ہوگیا ہے میرے وطن کے لوگوں کو۔بھوک اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہم خون پر گزارا کرنے لگے ہیں۔۔مجھے چھوڑو “ وہ اپنے آپ کو اپنے رشتوں سے چھڑوا کر آگے بڑھا
”میں جنید احمد قاتل ہوں۔میں اعتراف کرتا ہوں تہواروں کو لہو رنگ کرنے والوں میں، میں بھی انجانے میں شامل ہوگیا۔یہ توشکر ہے کہ مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ میں اس جرم کا اعتراف کرسکتا ہوں۔ قتل تو ہوا ہے. بےشک میں نہیں جانتا تھا کہ میرے ہاتھوں میں قاتل ڈور دی گٸی ہے۔میں سزا بھگتوں گا تاکہ تم سب ۔۔۔۔سب میری جدائی کی سزا بھگتو ۔۔۔یہ سمجھ سکو کہ جب کوئی اپنا چلا جاتا ہے توکیسالگتا ہے، زندگی کیسے بین کرتی ہے۔۔۔“ وہ خود کو گھسیٹتا پولیس کے ساتھ دور سے دور ہوتا جارہا تھا۔۔۔۔ صف ماتم ایک گھر میں نہیں بچھی تھی۔بلکہ ہر اس گھر کو اس آگ نے لپیٹ میں لے لیا تھا جو دلہن بنی روش اور جنید کے اپنے تھے۔
شکرگزار ہوں