ہوم << واردات - سعدیہ نعمان

واردات - سعدیہ نعمان

ایک سال اور سرک گیا تھا اور ایک بار پھر اسے جنوری کے اس یخ بستہ دن کا سامنا تھا. آہیں بھرتا ، بین کرتا، چیختا چنگھاڑتا ہوا دن ۔۔۔۔۔۔وہ خود سے الجھتا ہوا باہر نکل آیا. کوئی منزل نہ تھی بس یونہی آوارگی ۔۔۔ ۔ اندر کے شور سے گھبرا کے اس نے سوچا تھا کہ وہ آج کا دن گھر میں نہیں گزارے گا. شاید باہر کا شور اندر برپا کہرام کو دبا دے اور اس کی اذیت میں کچھ کمی ہو جائے .

نجانے کیوں سردیوں کے چھوٹے دنوں میں یہ ایک قیامت جیسا دن اس قدر طویل ہو جاتا تھا لیکن آج اس نے طے کیا تھا کہ وہ اندر کی آوازوں پہ ذرا کان نہ دھرے گا ۔۔۔اس نے نظر اٹھا کے نشتر میڈیکل کالج کی سفید کبوتری جیسی عمارت کو تکا ، ساتھ ہی ایک ستون پہ ایستادہ قد آدم کلاک پہ نظر پڑی ۔۔۔ گہرے گلابی یا قدرے سرخی مائل ہسپتال کی عمارت بھی ساتھ ہی جڑی تھی. اسے محسوس ہوا کہ یہ ہسپتال نہیں ایک بڑا سا دیو ہے جو منہ کھولے کھڑا ہے اور ہر قریب آنے والے کو ہڑپ کر جاتا ہے ۔--- یہ کیفیت اسی کربناک دن کے بعد پیدا ہوئی تھی ورنہ سارا بچپن اسی ہسپتال کی راہداریوں میں چکر کاٹتے اور انھی جانی پہچانی سڑکوں پہ اچھلتے کودتے گزرا تھا. روز گارڈن میں رنگا رنگ تروتازہ پھولوں کے سنگ نرسنگ ہاسٹل کے گراؤنڈ میں جھولے جھولتے طارق ہال اور رفیدہ ہال کے کمروں میں کتابوں میں منہ گھسائے مستقبل کے مسیحاؤں کی فکرمندی کو حیرت سے تکتے ہنستے ہنساتے شرارتیں کرتے وہ بڑے ہوگئے تھے۔

اور پھر ایک دن ۔۔۔۔۔۔ایک سنسناہٹ سی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی. اس نے سر جھٹکا اور تیز تیز قدم اٹھاتا بیرونی گیٹ کی جانب بڑھا، اس کے دائیں جانب بڑے سے حروف میں ایمرجنسی وارڈ لکھا تھا. اس نے نظریں چرا لیں لیکن یہ آواز ----- اس آواز کا وہ کیا کرے، ایمبولینس کے لمحہ بہ لمحہ بجتے سائرن کی آواز ۔۔۔۔اور اس آواز کے ساتھ جڑا درد--- اس کا دل ڈوبنے لگا ۔۔۔۔رکشہ ---- اس نے جلدی سے ہاتھ کا اشارہ کیا اور جھٹ سے رکشے میں سوار ہو گیا۔۔۔قاسم باغ لے چلو قلعہ پہ --- رکشہ بھی مزیدار عوامی سواری ہے شور اتنا کہ اردگرد سے کچھ سنائی نہ دے جبکہ دروازوں کی جگہ دونوں اطراف سے کھلی ہو تو باہر کے نظاروں سے لطف بخوبی لے سکیں. آج چھٹی ہے تو یقینا وہاں تفریح کے لیے آنے والوں کا ایک ہجوم ہو گا. اس ہجوم میں وہ گم ہونا چاہتا تھا۔

نشتر روڈ --- اس سڑک کے چپہ چپہ سے وہ واقف تھا ، کہاں کون سا میڈیکل سٹور ہے، کون سے پرائیویٹ کلینک اور ہسپتال ہیں، برگد کا گھنا درخت کس کونے میں ہے جس کی چھاؤں تلے بابا شیدو نان چنے کا ٹھیلا لگاتا تھا، ہاسٹل سے نکل کے مستقبل کے اکثر ہی ڈاکٹر یہاں سستا ناشتہ کرنے جمع رہتے تھے ۔-- یونیورسٹی بس کا اسٹاپ کہاں ہے اور تین چار سال وہ کیسے بھاگ بھاگ کے بس پکڑتا تھا --- اور یہیں قریب نشتر کی جامع مسجد تھی جہاں یہ دنیا چھوڑ کے جانے والوں کے کتنے ہی اعلان ہوئے اور اتنے ہی جنازے ۔--- لیکن وہ فجر کی اذان کے ساتھ ہونے والا ایک اعلان اور مغرب کی نماز کے بعد ہونے والا جنازہ اس کے دل کو چیر گیا تھا، ایک ایسا زخم جو ہر وقت رستا رہتا ---- ۔اور پھر ایمرجنسی وارڈ کی دیوار سے ذرا ہی آگے قبرستان کی دیوار شروع ہو جاتی تھی۔۔۔اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا السلام علیکم یا اھل القبور--- بس اتنا ہی کیونکہ مکمل دعا عربی میں تھی جو اسے یاد نہ رہی تو وہ شہر خموشاں کے مکینوں سے اردو میں ہی بات کر لیتا تھا ۔۔۔جب سے کچھ اپنے پیارے یہاں آباد ہوئے تھے اس کی وحشت بھی اس جگہ سے کچھ کم ہوئی تھی، دور تک قبروں کی طویل قطار دیکھتے اس کے ذہن میں عجیب خیال آیا . وہ سوچنے لگا کہ جتنے لوگ اس وقت زمین کے اوپر چل پھر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ تو زمین کے نیچے ہیں یعنی وہ دنیا ہماری اس دنیا سے زیادہ پر رونق ہوئی --- یہ عجیب و غریب تقابل اسے دلچسپ لگا اور وہ خود ہی مسکرانے لگا---

اس نے محسوس کیا کہ جس دنیا میں وہ سانس لے رہا ہے ، وہ تو بس ایک تماشا گھر ہے جہاں سب کردار اپنے اپنے حصے کا تماشا دکھا کے اپنی راہ لیتے ہیں، یا پھر یوں کہ جیسے ایک قید ہے اور قیدی کو ایک خاص وقت قید میں رہنے کے بعد رہائی مل جائے ۔۔۔ یا جیسے یہ سرائے ہے جہاں مسافر کو کچھ وقت کے لیے پڑاؤ کرنا ہے --- پھر اگر ایسا ہی ہے تو یہ دل میں اس کی محبت کیوں رچ بس جاتی ہے ---

رکشہ قبرستان سے آگے بڑھ چکا تھا ، لیکن وہ ابھی قبرستان ہی میں تھا. وہ محسوس کر سکتا تھا کہ زندہ وجود کے ساتھ اذیت اور درد کے لمحات سے گزر کے آگے بڑھنا کیسا ہوتا ہے. سنو کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر جانے والے کے ساتھ ایک نہیں دو قبریں بنتی ہیں، ایک میں ہم اپنے پیارے کو دفنا دیتے ہیں اور دوسرے میں اپنے دل کا ایک ٹکڑا دفن کر دیتے ہیں۔۔۔اپنے وجود کا کچھ حصہ ہم وہیں کہیں چھوڑ آتے ہیں۔ پھر زندگی کبھی بھی پہلے سی نہیں رہتی ،سب بدل جاتا ہے۔

" بیٹا کچھ امداد کر دو اللہ تمہیں لمبی حیاتی دے" فقیر کی صدا نے اسے حال میں لا پھینکا. رکشہ ایک سگنل پہ رکا تھا ۔۔۔۔ لمبی حیاتی -- وہ تلخی سے ہنس دیا " با با جی آپ کو دعا بدلنی ہو گی "اس نے کچھ رقم فقیر کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ گن کے پورے چار قبرستان آتے تھے قلعہ تک کے راستے میں۔۔۔گرد، گرما، گدا اور گورستان۔۔۔ہاں یہی چار علامتیں تھیں اس شہر کی ۔۔۔تو بس قبرستان تو جا بجا آباد تھے ۔۔۔قلعہ کے داخلی گیٹ پہ اتر کے وہ پیدل ہی اندر والی سڑک پہ ہو لیا---- دور ہی سے شاہ رکن عالم اور بہاؤالدین زکریا کے مزارات کے گنبد واضح دکھائی دے رہے تھے ۔اس اوپر کی جانب چڑھتی سڑک سے اسے ایک خاص ہی انسیت تھی، کتنے ہی ٹھکانے تھے جہاں پہنچنے کو اسی سڑک سے گزرنا ہوتا تھا ۔۔آج چھٹی کا دن تھا تو رونق میلہ کچھ زیادہ ہی تھا، لوگ باگ طوطوں کے ذریعے فال نکلوا رہے تھے ۔۔۔دیگیں بانٹی جا رہی تھیں ۔۔کہیں بے سرے سے قوال تالیاں پیٹتے قوالی کی محفل جمائے بیٹھے تھے۔۔۔مختلف اسٹال لگے تھے پارک بچوں سے بھرے ہوئے تھے. جھولے لیتے، غبارے پھاڑتے، ٹافیاں کھاتے ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے بچے ۔۔۔۔ کہیں نوجوانوں کی ٹولیاں تھیں، ایک دوسرے سے گھٹیا سے مذاق کرتے بے فکری سے قہقہے لگاتے نوجوان۔۔۔وہ چلتا گیا، آگے بڑھتا گیا، اندر کا شور کہیں دب گیا تھا ، باہر کا شور اب زیادہ ہو رہا تھا۔چلتے چلتے تھک کے وہ نیچے کی جانب اترتی سیڑھیوں پہ جا بیٹھا ، دور افق پہ کہیں ڈھلتا سورج ایک ٹکیا کی مانند دِکھ رہا تھا ۔

۔سنو ۔--- وہ چونک گیا ۔۔۔ --- سنو کیا تنہائی با برکت ہوتی ہے ؟ آواز کہیں قریب سے ہی آئی تھی بالکل قریب سے --- اچھا سنو دل ڈوبتا کیوں ہے بالکل ایسے جیسے وہ دور پرے سورج ڈوب رہا ہے ؟ کیا انتظار کا سفر آسان ہو سکتا ہے؟ بچھڑ کے ملنے کی خواہش ہو تو امید کے سہارے زندہ رہا جا سکتا ہے؟ کتنی مدت تک ؟ پھر کب یہ ہوتا ہے کہ آپ زخم کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں تکلیف کی شدت میں بھی مسکرانے لگتے ہیں اور پھر کب یہ ہوتا ہے کہ درد ہی دوا بن جائے ؟ ہاں کب ؟ اندر کا شور پھر بڑھنے لگا تھا --

Comments

سعدیہ نعمان

سعدیہ نعمان زمانہ طالب علمی ہی سے ادب و صحافت سے وابستہ ہیں۔ طالبات کے ماہانہ جریدے پکار کی مدیر رہی ہیں۔ اب کئی سالوں سے مختلف جرائد میں افسانہ، کہانی اور مضامین لکھ رہی ہیں۔ زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے ابلاغیات کیا ہے. حمید نظامی ایوارڈ ہولڈر ہیں

Click here to post a comment