پاکستان میں سیاسی پارٹیاں برائے نام ہیں، جبکہ اصل میں یہ سیاسی جائیدادیں زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ ملکی سیاست کا بنیادی محور صرف دولت ہے۔ جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہو، وہی اس میدان کا سب سے بڑا کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں میں نظریاتی قیادت کا فقدان ہے، جس کے باعث پورا نظام بے یقینی اور انتشار کا شکار ہے۔ ہر کوئی ذاتی مفادات کے لیے جی ایچ کیو کی طرف دیکھتا نظر آتا ہے۔ ہمارے سیاسی نظام میں اصل "رہنما" آرمی چیف کو سمجھا جاتا ہے، اور اس کا "سیاسی مندر" جی ایچ کیو ہے، جہاں وفاداری اور فرمانبرداری کے اظہار کے لیے حاضری دی جاتی ہے۔
پاکستان اس طرز سیاست کی بدولت مکمل تباہی کی طرف گامزن ہے۔ معاشرتی اقدار کی پامالی اور اخلاقی زوال نے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ سیاست میں مقابلہ قابلیت، دیانت، اخلاقیات یا کارکردگی کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ جھوٹ، فریب، بدتمیزی، اور بہتان تراشی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جو ان منفی ہتھکنڈوں میں ماہر ہو، وہی سیاست کے میدان کا "سلطان" کہلاتا ہے۔
کسی قوم کی ترقی اس کی سیاسی بصیرت اور قومی جدوجہد پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر قیادت دوراندیش اور مخلص ہو، تو ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ بدقسمتی سے ہمارے لیڈران بصیرت سے عاری اور عالمی سطح پر گداگری کے راستے پر گامزن ہیں۔ یہ لوگ بھیک مانگنے کے طریقے تو بدل لیتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ بھیک کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کیوں نہ کیے جائیں؟ لیکن اس کا حل تلاش کرنے کی زحمت کون کرے گا، کیونکہ ان کی حکمرانی احمق عوام پر ہی قائم ہے۔
ہر بڑی سیاسی جماعت کے پاس اربوں کا سرمایہ موجود ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف، ان کے خاندان، زرداری اور ان کے قریبی حلقے، عمران خان اور ان کے ساتھی—سب کے پاس بے تحاشا دولت ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی دولت کا محض ایک چھوٹا حصہ قوم کے بچوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں، تو پاکستان حیرت انگیز ترقی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں، کیونکہ ان کی حکمرانی اس نظام کی خرابیوں پر ہی قائم ہے۔
اس کے برعکس، حافظ نعیم الرحمن جیسے افراد ایک مثال ہیں۔ جن کے پاس ذاتی ملکیت کا کوئی بڑا اثاثہ نہیں، وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، عام زندگی گزارتے ہیں، اور اپنی ٹیم کے ساتھ نوجوانوں کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کا منصوبہ "بنو قابل" نوجوانوں کے لیے ایک امید کی کرن ہے، جس کے ذریعے آئی ٹی کے مفت کورسز کرائے جا رہے ہیں۔ ان کی محنت، بہترین انتظام، اور رضائے الٰہی پر یقین نے انہیں ایک منفرد مقام دیا ہے۔ نوجوان طبقہ ان کی جانب مائل ہو رہا ہے، کیونکہ وہ محسوس کر رہے ہیں کہ حافظ نعیم ان کے لیے واقعی کچھ کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔ ان کے روایتی ہتھکنڈے مزید کارگر نہیں ہوں گے، کیونکہ نوجوان نسل انہیں پہچان چکی ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی سوچنا چاہیے کہ سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ملک کا بیڑا غرق کرنے کے بجائے ان افراد کو موقع دیا جائے، جو واقعی مخلص اور ملک کے وفادار ہیں۔
تبصرہ لکھیے