ہوم << اپنا مقدمہ درست طریقہ سے پیش کریں - رقیہ اکبر چوہدری

اپنا مقدمہ درست طریقہ سے پیش کریں - رقیہ اکبر چوہدری

پی ٹی وی کا ایک مشہور ڈرامہ تھا "دن"، شاید کسی کو یاد ہو۔ اس میں سہیل احمد کا ایک ڈائیلاگ میرے حافظے میں محفوظ ہو گیا۔کہا تھا: مخالف فریق سے پہلے تھانہ کچہری کر لو تو آدھا کیس پہلے ہی جیت جاؤ گے. بات درست ہے اور میں اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہوں کہ اپنا مقدمہ "درست طریقے" سے پیش کر دو تو آدھا کیا قریب قریب پورا مقدمہ ہی جیتا جا سکتا ہے۔

ناکام پیشکش ہماری سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بات کو وہ پذیرائی ان طبقوں سے بھی نہیں مل پاتی ہم جن کے حق کےلیے بول رہے ہوتے ہیں۔ آپ اسی وائرل تصویر والے مقدمے ہی کو دیکھ لیں. آپ لاکھ کہیں کہ یہ غلط ہے، ایک پورا طبقہ آپ کو مخالفت میں ملے گا کیونکہ آپ کو غلط کو درست طریقے سے کہنا ہی نہیں آیا۔ آپ نے ایک غلط بات کو اس سے بھی زیادہ غلط طریقے سے کہہ کر سارے مقدمے کا بیڑا ہی غرق کر دیا تو قبولیت کی خواہش بیکار ہے۔ ہمیشہ سے ایک بات کی طرف متوجہ کرتی رہی ہوں کہ "مصلح کا لب و لہجہ اگر طنزیہ ہے ، تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے تو بات پھیل تو سکتی ہے مؤثر نہیں ہو سکتی."

خواتین کا مردوں کو ایسی سروس دینا ہرگز درست نہیں۔کسی بھی زاویے سے ،کسی بھی پہلو سے۔ نہ صرف مذہبی بلکہ ہمارے کلچر کے حساب سے بھی قابل قبول نہیں۔ اور ایک چیز اس کے علاوہ بھی ہے، وہ ہے ڈگنیٹی ،وقار، یہ کام یقینا ان کے وقار کے بھی منافی ہے۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایسی سروس فراہم کرنے والی خواتین کو بتائیں کہ یہ سب دیکھ کر آپ کو سخت برا اس لیے لگ رہا ہے اور آپ اس کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ سب سے پہلے تو ہمارا مذہب، پھر ہمارا کلچر، اور تیسرے نمبر پر عورت کا احترام ،مقام اور وقار جو ہم انہیں دیتے ہیں یا دینا چاہتے ہیں یا جس مقام کے لیے خواتین خود تگ و دو کر رہی ہیں، وہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر جائیں.

آپ کو نہ صرف اپنے الفاظ اور اپنے لب و لہجے میں نرمی رکھنی چاہیے تھی بلکہ آپ کو دونوں فریق مرد و زن پہ بات کرنی چاہیے تھی۔ مگر یہاں پھر وہی مسئلہ درپیش آیا جس کی بابت میں نے شروع میں بات کی یعنی "مقدمہ کی غلط پیشکش". آپ نے بجائے نرم انداز میں بتانے کے اس عمل کو فیمنزم ، میرا جسم میری مرضی اور گھریلو امور سے اس کا تقابلی جائزہ پیش کر کے بگاڑ دیا اور ہمیشہ کی طرح متنازع بنا دیا۔ حالانکہ یہ سروس فراہم کرنے والی ورکرز نہ تو فیمنسٹوں کی نمائندگی کر رہی تھیں ، اور نہ ہی کسی بھی جاب کا گھریلو امور سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر آپ نے اس کے برعکس ایک نہایت نامناسب ،گرا ہوا بازاری لب و لہجہ اپنایا اور پھر سے خواتین کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا۔ آپ نے بجائے ملازمت کی نوعیت پہ بات کرنے کے "خاوند کی بات ماننا غلامی، کسٹمر کی بات ماننا آزادی" جیسی باتوں سے جا ملایا۔

آپ نے کس بنیاد پر یہ سوچ کر طنز کے تیر برسانا شروع کر دیے کہ گھر میں شوہر کے پیر دھونا تو تجھے غلامی لگتا ہے مگر یہاں غیر مرد کے پیر دھونا آزادی ہے. آپ کو کیا معلوم کہ یہ سب لڑکیاں یا ایسی لڑکیوں کی اکثریت گھروں میں شاید شوہروں کی اس سے بھی زیادہ خدمت کرتی ہوں۔ اور کیا خبر جو ملازمت نہیں کرتیں، وہ شوہروں کی رتی برابر بھی خدمت نہ کرتی ہوں، کیا خبر الٹا انھوں نے شوہروں کو غلام بنا رکھا ہو۔ آپ نے جاب کی نوعیت کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے ان خواتین کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا اور ان کے کردار پہ ایسے ایسے گھٹیا اور بازاری جملے بولے جو خود آپ کے "دیندار یا مذہب پسند" ہونے پہ بہت بڑا سوالیہ نشان تھے۔

آپ نے اسے بار بار مذہب سے جوڑا مگر اپنے لیے مذہب کی ہر پابندی ،ہر اخلاقی حد بھول گئے۔ بےشک اس معاملے کو مذہب سے جوڑنا بنتا تھا مگر مذہب کی بات کرنے والے کو پھر مذہب کے تقاضے بھی پورے کرنے چاہییں۔ مگر آپ نے نہایت منافقت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک فریق کو رج کے ذلیل کیا اور دوسرے کو کلین چٹ تھما دی۔ آخر کیوں؟ خواتین کو سینگوں پہ اٹھایا تو اس مرد پہ بھی انگلی اٹھاتے نا. کیوں ہاتھ لرز گئے کیونکہ نامحرم صرف ان عورتوں کے لیے وہ مرد نہیں تھا بلکہ اس مرد کےلیے بھی وہ خواتین نامحرم ہی تھیں۔ جو سروس فراہم کر رہا ہے وہ غلط تو سروس لینے والا بھی اتنا ہی غلط ۔ اگر لکھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو دوستو پھر پیش کرنے کا سلیقہ بھی سیکھ لو۔

Comments

رقیہ اکبر چوہدری

رقیہ اکبر چوہدری شاعرہ، کالم نویس اور کہانی کار ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں سے کیا۔ پھول، پیغام اور بچوں کے دیگر کئی رسالوں اور اخبارات میں کہانیاں شائع ہوئیں۔ نوائے وقت، تکبیر، زندگی، ایشیا، ہم قدم اور پکار کے لیے مضامین لکھے۔"نکتہ داں کے قلم سے" کے عنوان سے کالم کئی برس تک پکار کی زینت بنا۔ معاشرتی اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے حقوق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ادبی رسائل میں شاعری اور تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ دو کتابیں زیر طبع ہیں

Click here to post a comment