جدید دور میں ڈیجیٹل معیشت ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ بینک اکاؤنٹس، آن لائن سرمایہ کاری، کریپٹو کرنسی، اور ای والٹس جیسے ڈیجیٹل اثاثے عام ہوچکے ہیں۔ لیکن اگر کسی مالک کا اچانک انتقال ہوجائے تو ان اثاثوں کی وراثت کے حوالے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ مضمون اسی موضوع پر روشنی ڈالتا ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات اور عملی تدابیر پیش کرتا ہے۔
ڈیجیٹل اثاثے روایتی اثاثوں سے مختلف ہیں کیونکہ ان تک رسائی محض لاگ ان معلومات اور پاسورڈز کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آن لائن بینک اکاؤنٹس، اسٹاک پورٹ فولیوز، کریپٹو کرنسی والٹس اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے محفوظ کردہ مال صرف مالک کی رسائی میں ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنے ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی معلومات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے، جس کی وجہ سے موت کی صورت میں ان اثاثوں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے.
قانونی پیچیدگیاں:
بعض اوقات، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے قوانین وراثوں کو اکاؤنٹس تک رسائی دینے سے انکار کرتے ہیں، جس سے میت کے مال کی تقسیم رُک جاتی ہے۔ اسلام نے مال و دولت کے حقوق کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قرآن و سنت کے مطابق، میت کے تمام اثاثے وراثت میں شمار ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، تمام معلوم اور نامعلوم اثاثوں کو جمع کرنا ضروری ہے۔ وراثوں پر لازم ہے کہ وہ میت کے ڈیجیٹل اثاثوں کی تفصیل معلوم کریں اور انہیں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کریں۔ وراثت کی تقسیم قرآن میں سورۃ النساء (آیات 11-12) کے تحت مقرر کردہ حصوں کے مطابق کی جاتی ہے۔ تمام وارثوں کو ان کے حق کے مطابق حصہ دیا جاتا ہے، اور کسی وارث کو محروم کرنا جائز نہیں۔
ڈیجیٹل اثاثوں کے حوالے سے موجودہ دور میں کئی چیلنجز موجود ہیں۔ ان کا حل مندرجہ ذیل عملی تدابیر میں مضمر ہے:
زندگی میں منصوبہ بندی
اثاثوں کی فہرست تیار کریں:
اپنی تمام جائیداد، خاص طور پر ڈیجیٹل اثاثوں کی تفصیل مرتب کریں اور اسے کسی معتمد شخص کے حوالے کریں۔
ڈیجیٹل وصیت:
اپنی زندگی میں وصیت تیار کریں جس میں ڈیجیٹل اثاثوں کا ذکر ہو۔
پاسورڈ مینجمنٹ ٹولز:
پاسورڈ مینیجر استعمال کریں اور کسی قریبی شخص کو اس کی رسائی فراہم کریں۔
قانونی ماہرین سے مشورہ کریں اور پاور آف اٹارنی کا بندوبست کریں تاکہ حادثاتی موت کی صورت میں وراثوں کو قانونی مشکلات پیش نہ آئیں۔ پلیٹ فارمز کی موت کے بعد اثاثوں تک رسائی کے قوانین کو سمجھیں اور ان کے مطابق ضروری کاغذات تیار کریں۔ اپنی وصیت کی تیاری اور اثاثوں کی تقسیم کے لیے علمائے کرام سے رہنمائی حاصل کریں تاکہ یہ شرعی اصولوں کے مطابق ہو۔
عملی مثال
ایک شخص کے پاس آن لائن سرمایہ کاری کے اکاؤنٹس میں $50,000 اور ڈیجٹل کرنسی والٹ میں $30,000 ہیں۔ اگر وہ بغیر وصیت یا معلومات دیے وفات پا جائے تو یہ اثاثے ضائع ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ زندگی میں اپنے ڈیجیٹل اثاثوں کی تفصیل کسی قابل اعتماد فرد یا وصیت میں درج کر دے تو یہ اثاثے آسانی سے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ آن لائن ڈیجیٹل اکاؤنٹس اور ان سے جڑے اثاثے آج کے دور کی ایک اہم حقیقت ہیں۔ حادثاتی موت کی صورت میں، ان اثاثوں کی وراثت کے مسائل پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ اسلام نے وراثت کے اصول واضح طور پر بیان کیے ہیں، اور ان اصولوں پر عمل کر کے ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا حساب رکھے، وصیت کا بندوبست کرے، اور اپنے ڈیجیٹل اثاثوں کی حفاظت کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرے۔ اس طرح نہ صرف وراثوں کو مشکلات سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ شریعت کے تقاضے بھی پورے کیے جا سکتے ہیں۔
سنگِ پارس
(کتاب البیان پر تبصرہ )
نام کتاب:البیان
مصنف: سید عابد علی عابد
صفحات:224
سنِ اشاعت:جون 2023
ادارہ اشاعت:علم و عرفان پبلشرز،لاہور
علمِ بیان پرمبنی یہ کتاب سید عابد علی عابد کی تصنیف ہے۔اس کتاب ک ابواب بندی کچھ یوں ہے۔
باب:اول
اس باب کی حیثیت تمہید کی سی ہے ۔اس میں مصنف نے انتہائی عالمانہ انداز سے علمِ بیان پر گفتگو کی ہے"علمِ بیان " جو اصل میں مجاز کا مطالعہ ہے۔سید صاحب نے اس باب میں ایک انتہائی اہم نکتہ چھیڑاہے،نکتہ یہ ہے کہ زبان جو اصل اظہار کا ایک وسیلہ ہے، اس کی کم مائیگی کا احساس کبھی کبھار انسان بالخصوص تخلیق کار کو ہوجاتا ہے۔اب یہ تواصول ہے جو حضرتِ غالب نے بہت پہلے سے بتایا ہے کہ :
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
اب تخلیق کار نے تو اظہار کرنا ہوتا ہے،اپنی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ حقیقت کی بجائے مجاز کا راستہ اپنا جہاں اس کی یہ احساسِ کم مائیگی دور ہوجاتا ہے،اور تخلیق کار جو بقول حفیظ جالندرھی کے "خدا" بن چکا ہوتا ہے اپنے تخلیق کا کماحقہ حق اداکر لیتا ہے۔باالفاظِ دگر وہ الفاظ کو آواگون کے چکر میں ڈال لیتا ہے۔یہاں سے ایک نئے باغیچے کا در وا ہوجاتا ہے۔
حصہ دوم :متقدمین کی تعریف کا تجزیہ اور اس میں ترمیم کی ضرورت
اس حصے میں مصنف موصوف نے کمالِ مہارت سے مشرق اور مغرب کے متقدمین کو یکجا کرکے ان کی تعریفوں میں سے کھوٹ نکالے ہیں اور ان کو عہدِ جدید کے تقاضوں میں ڈھالا ہیں ،بعد ازاں انہوں نے جامع تعریف پیش کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔
حصہ سوم:علمِ بیان کی نئی تعریف اور اس کا تجزیہ
تیسرے باب میں مصنف نے اپنے پیش کردہ تعریف کی توضیح کی ہے ۔ ساتھ میں انہوں نے ایک شجرہ بھی پیش کیا ہے ،جو اپنی دل چسپی کی وجہ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
شجرہ ارکانِ مجاز:
معانی:لغوی معنی 2:مجازی معنی
مجازی معنی :استعارہ ،مجازِ مرسل ،کنایہ
اس کے علاوہ انہوں نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ شاعری کے علاوہ نثر میں بھی ہم علمِ مجاز کا استعمال کرتے ہیں۔سب سے پتے کی بات انہوں نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ علمِ کا استعمال برائے علمِ بیان نہیں کرنا چاہیے تاکہ شعر کا حسن قدرتی رہے ۔انہوں نے استعارے اور اشارے درمیان فرق کو اپنی ذہنیت کے منشور کی مدد سے نمایاں کردیا ہے۔اس کے علاوہ بھی انہوں نے وہ انکشافات کر لیے ہیں جو نو آموز کے لیے بالخصوص جب کہ منجھے ہوئے لوگوں کے لیے بالعموم چونکا دینے کے لیے کافی ہیں ۔
باب :دوم
اس باب میں مصنف نے تشبیہ اور تشبیہ کے اقسام کے متعلق بحث کی ہے۔جو کسی بھی شخص کے لیے حیرت کا باعث ہوسکتا ہے۔حیرانی کی وجہ مصنف موصوف کا مدلل انداز ہے،جو نئے انکشافات کا حامل ہے ،علاوہ ازیں ان کا انداز درسی نوٹس کے انداز سے ہٹ ہے۔
باب :سوم
یہ باب استعارے کے متعلق ہے ،جس میں مصنف نے استعارے کی تعریف ،علامت،اصطلاح اور اشارے کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔اس باب کا وہ حصہ زیادہ قابلِ توجہ ہے جس میں مصنف نے استعارے اور اس کے قریب ترین اصطلاحات کے درمیان حدِ فاضل کھینچنے کی کامیاب سعی کی ہے ۔
باب چہارم اور پنجم میں مصنف نے روایتی انداز سے مجازِ مرسل اور کنایے پر اجمالی انداز سے روشنی ڈالی ہے۔
یہ کتاب کیوں پڑھیں؟
ویسے تو یہ کتاب "کانِ اوصاف " ہے ،تاہم چند انتہائی اہم وجوہات کی بنا پر دوسرے کتابوں سے ممتاز ہے۔ان خصوصیات میں سرِ فہرست عابد علی عابد کا عالمانہ اسلوب اعر طرزِ استدلال ہے،جو روایتی درسی طرز سے ہٹ کر نئے انداز کا حامل ہے۔انہی طرزِ استدلال کا معجزہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعے دوران قاری پر حیرت کے نئے نئے دروازے وا ہوتے ہیں۔مصنف اندازِ خمہ فرسائی اور طریقہ استدلال اس کتاب میں لاجواب ہے۔دوسری بڑی خصوصیت جو اس کتاب کو شہکار بتاتا ہے ،وہ ہے مصنف کی کثیر الجہات شخصیت ۔سید صاحب علم کے جس وادی میں بھی قدم رکھتا ہے سرخ رو لوٹ آتا ہےخاکسار کی رائے تو اس کتاب کے متعلق یہ ہے کہ "اس کتاب کے پڑھنے سے پہلے جو میں تھا وہ اب نہیں ہوں ۔
بہتری کے لیے تجاویز
فیض فرماتے ہیں کہ
تجھ کو دیکھا تو سیرِ چشم ہوئے
پھر تیرے بعد کوئی چاہ نہ کی
اس کتاب کے متعلق یہ شعر بہتری کا دلیل تو ہے ہی ،تاہم یہی شعر میری کم مائیگی پر بھی دال ہے۔جس طرح حضرتِ غالب نے میر کے بارے میں کہا تھا کہ
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہون غالبؔ
کہتے اگلے زمانے میں کوئی میربھی تھا
جس کا مطلب یہ ہے کہ اب میر صاحب منوں مٹی تلے استراحت فرمارہے ہیں،لہذا فلحال اردو کا طرہ استادی میرے سر ہے ۔بالکل اسی طرح میں بھی ہوں کہ اس کتاب کے دیکھنے کے بعد میں سیرِ چشم ہوا۔اس کا مطلب یہ کہ میری اوقات ہی نہیں کہ موضوعی لحاظ سے اس کتاب میں کھوٹ نال سکوں ۔لہذا پرنٹ اور جلد بندی پر ہی اکتفا کیے دیتا ہوں، جو دونوں لاجواب اور کاغذ قیمتی ہے
حاصلِ بحث
عابد علی عابد کے اس کتاب کو پڑھ کے مجھے پہلی دفع علمِ بیان کا کماحقہ اندازہ ہوچلا ،جو کسی بھی لحاظ سے ایک نعمت سے کم نہیں ۔میری نظر میں تو اس کتاب کی اہمیت اس حد تک ہے کہ یہ ہر ادب دوست،تخلیق کار اور ادب کے طالب علم کے لائبریری کی زینت ہونی چاہیے کیوں کی اس کتاب کے علمِ بیان کو سمجھنا میرے خیال میں عام آدمی کے لیے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔