ہوم << مطلق ساورنٹی اور ساورن اتھارٹی - اطہروقار

مطلق ساورنٹی اور ساورن اتھارٹی - اطہروقار

سلیم منصور خالد صاحب نے اپنے ایک لیکچر میں وضاحت کی تھی کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد جب مولانا مودودی رحمہ اللہ اور دیگر نے ریاستی و آئینی سطح پر اسلامائزیشن کی جدوجہد شروع کی تھی تو آٹھ قسم کی مختلف قوتوں نے اس اسلامائزیشن کی ان کوششوں کی سخت مزاحمت کی ۔ اور ان قوتوں میں ایک قوت قوم پرستوں اور کیمونسٹوں پر مشتمل بھی تھی ۔بلاشبہ قرار داد مقاصد کی منظوری، اس جدوجہد کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے ۔

وہ بتا رہے تھے کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ تقسیم کے فوراً بعد جب پاکستان پہنچے تو فوراً آرام سے نہیں بیٹھ گئے بلکہ کسمپرسی کی حالت میں بھی ائینی و دستوری جدوجہد میں مصروف ہو گئے ،حالانکہ وہ ذیلدار کے بجائے اس وقت عارضی ٹینٹوں میں قیام پذیر تھے اور حالانکہ جماعت اسلامی کی عددی قوت بھی اس وقت چند سو افراد پر مشتمل ہو گی لیکن مولانا مودودی رحمہ اللہ نے دیگر اسلام پسند قوتوں کی مدد سے ،ریڈیو پاکستان پر خطبات کی صورت میں اور پنجاب یونیورسٹی میں لا کالج میں تقاریر کی صورت میں دین اسلام کو نوزائیدہ پاکستان کی اجتماعی زندگی سے متعلقہ رکھنے کے لیے یہ ساری جدوجہد کی یہاں تک کہ جیل بھی کاٹی ۔

قرار داد مقاصد کو مشتبہ بنانے کا عمل بدستور جاری ہے کبھی یہ سیکولرازم کے لبادے میں ہوتا ہے اور کبھی بظاہر اسلامی رنگوں کے ساتھ بھی ۔۔۔ بہرحال دیکھا جائےتو قرار داد مقاصد میں ساورنٹی ،ساورن اور اتھارٹی کے الفاظ علیحدہ علیحدہ استعمال کیے گئے ہیں اور اس لیے ان تینوں اصطلاحات کا استعمال اس کے بیان کردہ پس منظر میں دیکھتے ہوئے کرنا چاہیے ۔ جیسا کہ قرارداد مقاصد میں درج ذیل پس منظری الفاظ ہیں:
Whereas sovereignty over the entire universe belongs to Allah Almighty alone and the authority which He has delegated to the State of Pakistan, through its people for being exercised within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
This Constituent Assembly representing the people of Pakistan resolves to frame a Constitution for the sovereign independent State of Pakistan;
Wherein the State shall exercise its powers and authority through the chosen representatives of the people;
Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice as enunciated by Islam shall be fully observed;
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and the Sunnah;
درج ذیل پیراگرافوں میں مطلق ساورنٹی کو صرف اللہ تعالیٰ کی بزرگ و برتر ذات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے البتہ اتھارٹی کو نیابت کے مفہوم میں ڈیلیگیٹ کیا ہے ،گویا ریاست میں منتخب کردہ مسلمانوں کی اجتماعیت ،ڈیلیگیٹ کی گئی اتھارٹی رکھتی ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی مطلق ساورنٹی ۔۔۔ اس لیے اس کے بعد کے پیراگراف میں ریاست کو جو ازاد اور ساورن سٹیٹ بتلایا گیا ہے اسے بھی خدا تعالیٰ کی طرف ڈیلیگیٹ کی گئی اتھارٹی کے پس منظر و سکوپ کے تحت سمجھنا چاہیے نا کہ مجرد ساورنٹی کے مفہوم میں ۔۔۔ یوں سمجھیے کہ ساورنٹی ود کیپٹل S ہے جبکہ ریاست ساورن ود سمال s ہے ۔ نتیجتاً ریاست کو ساورن ،اللہ تعالیٰ کی مطلق ساورنٹی کے متقابل نہیں کیا گیا بلکہ تفویض کردہ نیابتی ڈیلیگیٹ اتھارٹی کے ضمن میں کہا گیا ہے ۔ اگر اس مرحلے پر ریاست کو آزاد ساورن نہ لکھا جاتا تو ڈیلیگیٹ کردہ اتھارٹی کو رئیل پالیٹکس اور دیگر نیشن سٹیٹ کے جمگھٹے میں ایکچولائز ہی نہیں کیا جا سکتا تھا ،اور پاکستان دشمن ریاستیں ،ریاست پاکستان کو قبائلی اکائیوں کے ڈھیلے ڈھالے مجموعہ سمجھتے ہوئے نوچنے لگتیں ۔چنانچہ ریاست پاکستان ساورن ہے ہر بری نظر رکھنے والی نیشن سٹیٹ کے لیے ، نہ کہ خدائے بزرگ و برتر کی مطلق ساورنٹی کے بالمقابل ۔۔۔

دوسری وجہ یہ رہی کہ ریاست پاکستان کو ساورن لکھنا ،وفاق پاکستان اور integrated پاکستان کا مجموعہ بنانے کی pre requisite کنڈیشن ہے کیونکہ کوئی بھی وفاق اپنی اکائیوں کی حد تک ساورنٹی کے دعوے کے بغیر ،سیاسی مقتدرہ کا دعویٰ نہیں رکھ سکتا ۔ اگر ریاست پاکستان وفاق ہے اور صوبائی اکائیوں کا مجموعہ ہے تو پھر اپنے اسلامی سیاق و سباق کے ساتھ اسے اتھارٹی کے مفہوم میں ساورن ہونا چاہیے ۔ اور ہم اسے یوں کیوں نہیں دیکھتے کہ ریاست پاکستان کی یہ وفاقیت و ساورنٹی ، پاکستان کے جغرافیائی حدود میں مختلف قومیتوں میں بٹے مسلمانوں کے درمیان اس اخوت پر مبنی اتحاد کو برقرار رکھنے کی سب سے بڑی صورت ہے جس کی تلقین و ترغیب قرآن وسنت میں مسلمانوں کو دی گئی ہے ۔اگر ہم وفاق کے خلاف بغض و تعصبات کو ایک طرف رکھ دیں تو اسلامی ورلڈ ویو کے تابع اور مسلمانوں کی اکثریت و اجتماعیت کا سیاسی وفاق ، مسلمانوں کے عملی سماجی اتحاد کی سب سے بڑی عملی صورت ہے ۔

پھر مسلمان ہوتے ہوئے بھی قوم پرستی و علاقہ پرستی و تاریخ پرستی و مادیت پرستی یا سیکولرازم کی محبت میں اس کی مخالفت کیسے کی جا سکتی ہے ؟؟؟؟ اگر ہم اس فرق کو معروف معنوں میں اپنی اپنی حدود میں استعمال کریں تو خلط مبحث پیدا نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس پیراگراف کے سباق میں بھی مسلم اجتماعیت کو تفویض کردہ اتھارٹی کو اسلامی عقیدے و ورلڈ ویو کے تابع اور اس سے ہم آہنگ ،جمہوری ،ازادی،مساوات،برداشت اور سماجی انصاف کے اصولوں سے مزین کیا گیا ہے ۔ اور پھر اس پر بھی ڈبل چیک اس طرح لگایا گیا ہے کہ اتھارٹی یا نیابت رکھنی والی ریاست کی اجتماعیت ہر لحاظ سے قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو منظم کرنے کی پابند رہے گی ۔ قرار داد مقاصد کے ان بنیادی پیراگراف کے بعد کی شقوں میں بھی مطلق ساورنٹی ،تفویض کردہ عارضی اتھارٹی کے درمیان نسبتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور ان میں دینی ضروریات کے مطابق توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

بدقسمتی سے پاکستان میں سیکولر و کیمونسٹ طبقات نے اول روز سے قرار داد مقاصد کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اس وقت کی مخالفت کرنے والی قوتوں کے پاؤں میں اپنا پاؤں بغیر سوچے سمجھے ڈالا ہے ۔ پاکستان میں قرار داد مقاصد کی منظوری کے بعد ،عملا ان سیکولر طبقات نے اس کی سپرٹ کو اجتماعی زندگی میں خود افشا نہیں ہونے دیا ہے اور ڈی فیکٹو سپیس کو سیکولررایز رکھا ہے ،اور اس سیکولررایشن کی وجہ سے جو بد نظمی ،انتشار اور فساد پیدا ہوا ہے اسے کمال چالاکی سے نظری طور پر قرار داد مقاصد کی طرف ریفر کیا ہے ۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ ایسے کٹر بند بظاہر مذہبی طبقات جو جداگانہ قومیت کے سیاسی اصول کی تصوریت میں ناکام رہے ہیں وہ بھی قرار داد مقاصد کی آئینی و دستوری اسلامائزیشن کی اہمیت سے ناواقف ہیں اور اپنے خوابیدہ تعصبات کے تحت اس طے شدہ سفر کو مشتبہ بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔