آج کل سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے درمیان حافظ نعیم کے فلسطین کے حوالے سے کی گئی 90 منٹ کی تقریر میں ایک منٹ سے کم کے بیان پر خوب بحث ہورہی ہے. ہوا یوں کہ اس تقریر میں حافظ نعیم نے فلسطین کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطین کو جہنم بنانے کے بیان پر اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امت مسلمہ کے لیڈر عمران خان سے درخواست کردی کے آپ بھی جیل سے مذمت کردیں . یہ بات شاید ایسے سرسری گزر جاتی مگر جنگ اور جیو نے اپنے مطلب کی ہیڈ لائن بنا کر خبرکی زینت بنا دیا
شاید اس کو بھی توجہ کے قابل نہ سمجھا جاتا مگر ان دنوں تحریک انضاف کو اپنی انگلیوں پر نچانے والے دو کردار ایک مظلومیت کی کہانی لیے تحریک انصاف کے یوٹیوبر عمران ریاض اور دوسرا امریکہ میں بیٹھے یو ٹیوبر اور چندے پر مزے کرنے والے شہباز گَل نے اس کو ایشو بنا کراپنے کارکنان کو جماعت اسلامی اور حافظ نعیم کے خلاف اکسایا .پھیڑ چال چلنے والے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سپاہیوں نے تحریک انصاف کے قریب سمجھے جانے والے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کے خلاف یکطرفہ سوشل میڈیائی جنگ شروع کردی .
جہاں حافظ نعیم کے بےہودہ کارٹون بنائے گئے وہیں پورا زور لگا دیا کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کا کارندہ ثابت کیا جائے. ہر دوسرا سوشل میڈیا انصافی ڈنڈا لے کر اُن کے پیچھے پڑ گیا اور جہاں جس کو جیسا موقع ملا وہاں ہر طرح کی زبان استعمال کی گئی .نہ تمیز کا خیال رکھا گیا نہ تہذیب کا ۔ایسے لگا جیسے حافظ نعیم نے یہ بیان عمران خان کے خلاف دیا ہے اور اب ساری دشمنی حافظ سے ہی نکالنی ہے، اب نہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مسئلہ ہے ،نہ فارم 47 والی حکومت سے ان کو کوئی اختلاف ہے، اور نہ ہی رجیم چینج والے امریکہ سے کوئی شکایت، مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت فارم 47 والی حکومت سے مذاکرات چل رہے ہیں اور امریکہ سے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے.
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ا کہ حافظ نعیم کی ذات پر حملہ کیا گیا ہو .بجلی کے مسئلے پر دھرنے کے موقع پر بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر الزام لگایا گیا کہ یہ عمران خان سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے اور یہ کھیل بھی فوج کے کہنے پر کھیلا جارہا ہے. اس موقع پر بھی تمام حدود پار کردی گئی تھیں .صرف یہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی جب بھی موقع ملا بابا کوڈا جیسے پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے نہ سید منور حسن کو بخشا گیا نہ اپنے محسن قاضی حسین احمد کو، بلکہ ان کے گھر کی خواتین تک کو نہیں بخشا گیا .اور یہ ان لوگوں کے ساتھ کیا جارہا ہے جو سیاسی طور پر تحریک انصاف اور عمران خان کے قریب ہیں .میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور نظر بھی آتا ہے کہ حافظ نعیم اور ان کے کچھ قریبی ساتھیوں کا جھکاؤ یا کہیے سوفٹ کارنر تحریک انصاف کی طرف ہے . جماعت اسلامی اوراسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ سابقین (جو حافظ نعیم کو بھی پسند کرتے ہیں) بھی سوشل میڈیا پرپی ٹی آئی کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے کچھ متحرک کارکنان بھی اسسٹیبلشمنٹ کے سخت رویے کی وجہ سے ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں،مگر کچھ جماعتی پی ٹی آئی کے دوغلے ماضی کی وجہ سے ان سے سخت سیاسی اختلاف رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی گندی سیاست میں پی ٹی آئی بھر پور شریک رہی ہے اور آج بھی ہے . آج بھی عمران خان کا مطمح نظر جرنیلوں کی سرپرستی کا حصول ہے، اس لیے وہ بار بار جرنیلوں سےبراہ راست مذاکرات کی بات کرتے ہیں.
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ حافظ نعیم نے پی ٹی آئی کے خلاف سوشل میڈیا پر سخت زبان استعمال کرنے والے کارکنان کو ذاتی طور پر منع بھی کیا ہے. اکثر جگہ وہ پی ٹی آئی کے مؤقف کی بھر پور حمایت کرتے نظر آئے ہیں. وہ واحد غیر پی ٹی آئی لیڈر تھے جنھوں نے رجیم چینج کی سخت مخالفت کی، زخمی عمران خان سے ملنے گئے، گرفتاریوں کی مذمت کی، اور میری معلومات کے مطابق انھوں نے ایک بار بھی عمران خان کے خلاف بیان نہیں دیا۔ نہ ان کے کسی لیڈر نے آج تک پی ٹی آئی کے خلاف کوئی سخت بات کی. حافظ نعیم نے 24 کے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور آج بھی اسے جعلی قرار دیتے ہوئے فارم 47 کی حکومت قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے بھیک میں ملی ہوئی اپنی سیٹ اسٹیبلشمنٹ کے منہ پر مار دی اور واضح طور پر کہا کہ یہ سیٹ تحریک انصاف کی ہے. انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنان بالخصوص خواتین کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کی۔ابتدا میں کراچی، لاہور اوراسلامآباد سمیت دیگر مقامات پر جماعت اسلامی کے مقامی رہنماؤں نے پی ٹی آئی کے کارکنان کو چھڑایا بھی ہے . حافظ نعیم نے 26 نومبر کے واقعے کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ حالانکہ خود پی ٹی آئی کے لیڈرز شہدا کی بڑی تعداد کے حوالے دینے کے باوجود جن کو قاتل کہتے تھے، ان کے ساتھ ہنستے ہوئے مذاکرات کررہے ہیں.
جماعت اسلامی نے پختونخوا میں دھوکہ کھانے کے باوجود کراچی میں پی ٹی آئی کا ساتھ دیا۔ لیکن عین موقع پر پی ٹی آئی کے30 کونسلرز نے مقامی قیادت کی رضامندی کے ساتھ پانچ کروڑ میں اپنا ووٹ پیپلزپارٹی کو بیچ کرشہر کراچی پرآصف زرداری کے نمائندے کو مسلط کروا دیا۔ اس کے باوجود حافظ نعیم نے پی ٹی آئی کے خلاف ایک لفظ تک ادا نہیں کیا بلکہ پیپلزپارٹی کو اس خریداری پر تنقید کا نشانہ بنایا ، پی ٹی ائی سے شکایت تک نہیں کی. الیکشن کے حوالے سے ایک نہیں کئی مواقع پر انھوں نے پی ٹی آئی کے مؤقف کی حمایت کی ہے. وہ بار بار کہتے ہیں کہ یہ الیکشن پی ٹی آئی نے جیتا ہے، حکمرانی ان کا حق ہے.
پوری دنیا جانتی ہے کہ سیاست کے جس معیار کا دعویٰ عمران خان کرتے ہیں، اس پر صرف جماعت اسلامی پورا اترتی ہے، یعنی کرپشن سے پاک ،موروثیت سے پاک، حافظ نعیم کی بیگم نہ ان کی بہنیں جماعت کے معاملات میں مداخلت کرتی ہیں. عالمی استعماری قوتوں کے خلاف جہد و جہد کی ہمت جماعت ہی رکھتی ہے. مگر دو باتیں ہیں، ایک تو تحریک انصاف پر قابض کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ جماعت اسلامی سے دور رہا جائے ، اور دوسرے کچھ لوگوں کی خواہش یہ ہے کہ جماعت اسلامی عمران خان کے سامنےہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جائے، حافظ نعیم ان کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے اپنے کارکنان کو قربانی کا بکرا بنائے، اور جو کام تحریک انصاف کے کارکن نہ کرسکے، وہ جماعت کی اسٹریٹ پاور کرے، اس سے کم پر وہ راضی نہیں ہوں گے.
اس تمام قصے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے حامی درحقیقت، سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک مذہبی کلٹ کی مانند ہیں، جہاں اُن کے لیڈر سے اختلاف کفر کے برابر سمجھا جاتا ہے ، اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے لیڈر کو دوسرے بھی مہاتما کا درجہ دیں ، لہٰذا جس پر بھی شک ہوگا کہ وہ اطاعت نہیں کرتا ، اس کے بخیے اُدھیڑ دیے جاتے ہیں . مگر اس مرتبہ ایسا ضرور ہوا کہ جماعت کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس منہ چھپا کر نہیں بیٹھے بلکہ سوشل میڈیا پر اس بے بنیاد بات کا سختی سے جواب دیا اورتحریک انصاف کو وضاحتوں پر مجبور کرکے اسے کافی پیچھے دھکیل دیا . جماعت کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہم کیوں اطاعت کریں . ہم تو اپنے امیر تک کا احتساب کرتے ہیں، آپ کیا چیز ہیں؟ ہم کوئی آپ کے غلام ہیں کیا ؟ مگر مجھے یہ ضرور لگتا ہے کہ جماعت اسلامی میں تحریک انصاف کے خلاف سخت رویہ اپنانے والے جماعت کے کارکنان جا کر اپنے امیر سےضرور پوچھتے ہوں گے،ہن آرام آیا اے حافظ صاحب.!
تبصرہ لکھیے