شیخ محمد بن راشد کو گھوڑوں سے شدید پیار ہے۔ ان کی زندگی میں عِشق والا لَوࣿ گھوڑے اور دبی ہیں۔
گھوڑوں کے متعلق پورا ایک بات لکھا ہے ۔
میری پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی جہاں گھوڑوں سے محبت کی جاتی تھی۔ ہم سب چھوٹے بڑے سرد راتوں میں آگ کے گرد مل کر بیٹھتے تھے اور ہمارے بزرگ ہمیں روایتی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
انہی میں سے ایک میں بتایا گیا کہ جب اللہ تعالی نے گھوڑے کو پیدا کرنا چاہا تو جنوب کی ہوا سے کہا کہ میں تجھ سے ایک مخلوق پیدا کرنے والا ہوں۔ میں اسے اپنے ساتھیوں کے لیے باعث عزت بناؤں گا اور دشمنوں کے لیے باعث ذلت۔ اور اپنے اطاعت گزاروں کے لیے حمایت کا سبب بناؤں گا۔ تو ہوا نے سرتسلیم خم کیا اور یوں ہوا سے گھوڑے کی تخلیق ہوئی اور کہا " میں نے تجھے " فرس " کا نام دیا، تجھے عربی بنایا، بھلائی تیرے ماتھے پر عیاں ہے، تم جہاں بھی جاؤ، تونگری تمہارے سنگ رہے گی اور میں نے تمہیں پروں کے بغیر اڑنے کے قابل بنایا۔
جی ہاں ! ہمیں یہی میراث ملتی تھی۔ میں جب گھوڑے کو دیکھتا ہوں تو اس کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں خواتین یہ روایت نقل کرتی تھیں کہ جس خیمے کے باہر اصلی عربی نسل کے گھوڑے بندھے ہوں وہاں جن اور بد روحیں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتیں۔ یہ تھا وہ ماحول جہاں میں پلا بڑھا تو پھر کیوں نہ مجھے گھوڑوں سے محبت ہو !
اللہ نے قرآن کریم میں اس کی قسم کھائی ہے اور کہا ہے " و العادیات ضبحا" (ترجمہ : قسم ہے ان (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں) اور رسول پاک ﷺ نے فرمایا: " گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک بھلائی باندھ دی گئی ہے۔ " اس سب کے بعد بھی مجھے کیونکرگھوڑوں سے محبت نہ ہو۔
میرے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گھوڑے میرے پاس ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ جب آدھی رات کو میں بستر سے غائب پایا جاتا تو صرف میری والدہ ہی جانتی تھیں کہ میں اصطبل میں اپنے گھوڑے کے پاس سو رہا ہوں گا۔ مجھے اپنے گھوڑے سے محبت ہے اور اسکی قربت پسند ہے۔ وہ میری طبیعت اور مزاج سے واقف ہے اور میں اس کی فطرت سے واقف ہوں۔ اس سے دور ہو جاؤں تو وہ میرے بارے میں پوچھتا ہے اور اگر اس کے ساتھ رہوں تو ہم دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔
ایک مغربی دوست نے ایک گھڑ دوڑ کے بعد برطانیہ میں جبکہ ہم رات کا کھانا کھا رہے تھے ، پوچھا کہ آپ دنیا کے ایک کامیاب ترین گھڑدوڑ مالک ہیں آپ کے نزدیک شاندار گھوڑوں سے کیا مراد ہے پہلے میں مخمصہ کا شکار ہوا اس لیے نہیں کہ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھا بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس سوال کا مختصر جواب مشکل تھا۔ گھوڑے عربوں کے وقار معاشرتی مرتبے اور فراخدلی سے جڑے ہوئے ہیں اس کا تسلسل نو ہزار سالوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ جب گھوڑوں کو جزیرہ نما عرب میں بطور پالتو جانور رکھنا شروع ہوا عربوں نے یہ اخذ کیا کہ گھوڑا انسان کے بہترین دوستوں میں سے ایک ہے انہوں نے یہ پایا کہ گھوڑے کتنے ذہین، وفادار اور صبر والے ہیں انہوں نے ان سے قریبی رشتہ قائم کر لیا۔ اور اسی رشتے کے ثمرات تھے کہ اس جانور کو " عربی گھوڑے " کا نام ملا جو اپنی وفاداری، تیزی اور ذہانت سے جانے جاتے ہیں۔ عرب اپنے گھوڑوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا کہ وہ اپنی اولاد سے ، شب و روز ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں ان سے ہم کلام ہوتے ہیں اور بات سنتے ہیں اور اس کے جواب میں گھوڑے اپنے مالک کا خیال رکھتے ہیں انہیں وفاداری اور تحفظ دیتے ہیں اور ضرورت کے وقت، تنازعہ یا مصیبت کے وقت انہیں مایوس نہیں کرتے۔
عرب تاریخ بتاتی ہے کہ پرانے وقتوں میں ایک جنگ چھڑی تھی جو چالیس سال جاری رہی۔ " داحس اور غبرا" کے نام سے یہ جنگ مشہور ہے یہ جنگ 40 سال کے بعد ختم ہوئی یہ جنگ قبیلہ بنی عبس اور ذبیان کے درمیان ہوئی اور اور اس جنگ کی بنیادی وجہ گھوڑ دوڑ میں دھوکہ بازی تھی۔ میں اس جنگ پر فخر نہیں کرتا کیونکہ انسانی جانیں زیادہ قیمتی اور قابل احترام ہیں لیکن یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ عرب عوام کے دلوں میں گھوڑوں کی کس قدر قدر و منزلت ہے۔
والد صاحب نے ایک دفعہ مجھے "کُہیلا" نامی گھوڑی کی کہانی سنائی۔ وہ کسی قبیلے کے سردار شیخ کی ملکیت تھی اور اپنی خوبیوں کے اعتبار سے اس کا کوئی مثل نہیں تھا۔ وہ ایک ایسی گھوڑی تھی جس میں خوبصورتی ، تیزی اور طاقت سبھی کچھ تھا۔
کہیلا کے حسب نسب اور اسکی خوبیوں کی وجہ سے قبائل میں اس کا چرچا بڑھنے لگا اور بہت سے لوگ اسکو حاصل کرنے کی حرص کرنے لگے۔ تاہم اسکا مالک نہ تو اس سے دستبردار ہوتا نہ بیچنے کی ہامی بھرتا۔ ایک دوسرے قبیلے کے شیخ نے کہیلا کو حاصل کرنے کے لیے بڑے جتن کیے۔ نہ صرف مال و دولت کی پیشکش کی بلکہ اسکے قبیلے کے ساتھ حلیف ہونے کی بھی پیشکش کی لیکن ہمیشہ جواب میں انکار ہی سننے کو ملتا تھا۔ اس نے ایک منصوبہ سوچا اور یہ ٹھان لی کہ وہ ہر صورت کہیلا کو حاصل کر کے ہی رہے گا خواہ اسکو کہیلا چوری ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
اس نے اپنے ایک سوار کا حلیہ بدل کر غریب اور ضرورت مند کا روپ میں کہیلا کے مالک کے پاس بھیجا کہ وہ ان کی خدمتگاروں میں شامل ہونا چاہتا ہے نیک دل شیخ نے اسے قبول کر لیا۔ سوار نے اونٹوں کے چرواہے کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ اسے اس حیثیت سے یہ موقع مل گیا کہ وہ کہیلا کے بارے میں اطلاعات جمع کرے۔ اس نے شیخ کی بیٹی تک رسائی حاصل کی تا کہ گھوڑی تک رسائی رہے وہ اس بات میں کامیابی رہا اور اخذ کیا کہ کہیلا کو ہر بعد از دو پہر چرانے کے لیے قریبی چراہ گاہ میں لے جاتے ہیں اور رات ہونے سے قبل واپس لے آتے ہیں۔
سوار نے اس کی تمام حرکات کی تفصیل ازبر کر لی اس کے جانے اور واپسی کا وقت نوٹ کر لیا اور ہمہ وقت ہاتھ میں لگام رکھے اس بات کا منتظر رہتا کہ کب موقع ہاتھ آئے اور وہ اسے چوری کر کے لے جائے۔
اور پھر اسے ایک ایسا لمحہ ملا کہ ادھر نگران ے ذرا نظر ہٹائی تو اس نے اپنی لگام کہیلا پر ڈالی او لے کر بھاگ نکلا۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہیلا کا مالک شیخ اور اس کے بیٹے پر تو گویا بجلی گر گئی۔ وہ اصطبل کی جانب تیزی سے گئے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور اسکے تعاقب میں نکل گئے۔ چونکہ وہ اجنبی تھا اور ریگستان میں رستوں کا علم نہ تھا اس لیے جلد ہی اسے شیخ اور اس کے بیٹے نے جا لیا۔
شیخ کا بیٹا جس گھوڑے پر سوار تھا وہ " بلیق " کہلاتا تھا چونکہ یہ گھوڑا غیر معروف تھا تو اس لیے کسی کو اسکی نسل کا نہیں پتہ تھا۔ اپنے تعاقب میں ان دونوں کو آتا دیکھ کر چور پریشان ہو گیا، کچھ سوچے سمجھے بنا وہ کہیلا کو نرم ریت والے حصے میں لے گیا جس سے کہیلا کو آگے بڑھنے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ بلیق اصل رستے پر گامزن تھا اس طرح دونوں کے درمیان فاصلہ کم ہوتا گیا۔
شیخ کے چہرے پر واضح خوف طاری تھا جب وہ بلند آواز سے چور پر چلایا " کہیلا کو بائیں جانب لے کے جاو ، وہاں زمین ہموار ہے بائیں طرف زمین مضبوط ہے۔ " چور اسے ہموار رستے پر لے گیا جہاں کہیلا برق رفتاری سے دوڑنے لگی اور کسی کے لیے بھی اس کو پکڑ نا ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ بیٹے نے اپنے والد کی طرف غصے سے گھورا اور بولا کہ کیوں چور کو ہموار رستہ دکھا رہے ہو شیخ نے جواب دیا تا کہ کوئی یہ نہ کہ سکے کہ ایک نا معلوم نسل کا گھوڑا، میری پیاری گھوڑی " کہیلا" سے تیز نکلا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ عرب ، گھوڑوں سے کتنی محبت کرتے ہیں شیخ نے ہار کو ترجیح دی کہ قبیلوں کے درمیان کہیلا کی ساکھ نام اور رتبے کو تحفظ دیا جا سکے۔
میرے پاس بھی ایک ایسا گھوڑا ہوا کرتا تھا جومجھے ویسے ہی محبوب تھا جیسے اس شیخ کو کُہیلا۔ جب چھوٹا تھا اس کا نام یازار تھا، میں نے آج تک جتنے گھوڑے رکھے ، یہ ان میں سے بہترین گھوڑا تھا۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ گھوڑے کو اس کے بچپن میں ایک نام دے دیا جاتا ہے اور جب یہ بڑا ہوتا ہے تو اسکی قابلیتوں کو دیکھتے ہوئے اس کا نام تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
لیکن یازار کو اسکے بچپن سے ہی دیکھ کر میں نے بھانپ لیا تھا کہ اس کے اندر ایک بہترین گھوڑے کی خوبیاں ہیں۔
عظیم گھوڑوں کی اپنی ہی خاص نشانیاں ہوا کرتی ہیں۔
محض ان کی آنکھوں کو دیکھ کر بھی آپ ان کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ آپ وہ دیکھتے ہیں جو گھوڑا دیکھتا ہے۔ کچھ گھوڑوں کے آگے سے جب کوئی اجنبی گزرے تو وہ خوفزدہ ہو کر دم ہلاتے ہیں جبکہ کچھ گھوڑے کوئی حرکت نہیں کرتے بلکہ چیلنجنگ اور متجسس طریقے سے وہ نئی چیزوں کی طرف دیکھتے ہیں گھوڑے نئی چیزوں کو کس طرح دیکھتے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں یا نہیں۔
گھوڑوں میں بڑی آنکھیں ایسی ہی ہیں جیسے مسکراتا ہوا انسانی چہرہ۔ اور یہ انکی دیانتداری اور وفاداری کی علامت ہوتی ہیں۔ تاہم صرف آنکھوں کا بڑا ہونا ہی کافی نہیں مگر ان کی گہرائی اور چمک سے بھی بہت کچھ پتہ چلتا ہے ، گویا ان کی آنکھیں ایک گہرے سمندر جیسی ہوتی ہیں۔
ضروری نہیں کہ چھوٹی آنکھوں کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑا با صلاحیت نہیں ہے مگر یہ طے شدہ امر ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے لیے تیار نہیں ۔
مسکراتی آنکھیں یا وہ آنکھیں جو بولتی ہیں وہ آپ کو عندیہ دیتی ہیں کہ آپ کس درجہ آسانی کے ساتھ اس گھوڑے کی تربیت اور دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔ کچھ گھوڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اپنے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں زیر کر نے بعد اپنی گردن اکڑا لیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے سدھارنے والے کو بھی للکارتے ہیں اگر وہ ان کی استثنائی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگائیں۔
گھوڑے کا چہرہ بھی اس کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ اگر اسکے کانوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے تو یہ اس کے عظیم ہونے کی نشانی ہیں کیونکہ کھوپڑی کا ڈھانچہ کانوں کے درمیان ہوتا ہے یہ گھوڑے کے دماغ کی ماپ کی نشانی ہے البتہ یہ خصوصیات رفتار کی تیزی کی نشانی نہیں بلکہ یہ اس کی فہم کی علامت ہے کہ گھوڑا کسی بھی کام کو جلدی سمجھ لے گا اور موقع محل کے مطابق رد عمل دینے کے لیے یقینا دماغ کی تیزی کی ضرورت ہوتی ہے۔
گھوڑے کی نتھنوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ کھیل کا کتنا شوقین ہے ۔ اگر نتھنے بڑے اور چوڑے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ ایسے گھوڑے زیادہ آکسیجن لے سکتے ہیں اور ان کے پھیپھڑے اس قابل ہیں کہ سانس لینے کے دوران وہ آکسیجن پھیپھڑوں میں جمع کر سکیں۔ چوڑا منہ بھی گھوڑے کے تیز رفتار اور طاقت ور ہونے کی نشانی ہے اور اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کی سانس کی نالی کشادہ ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ گردن صحیح زاویہ میں ہو۔
گھوڑے کو جانچنے کے لیے سب سے اہم خاصیت اسکی چال ہے۔ گھوڑے اپنی چال میں خاص تناسب رکھتے ہیں جس سے ان کے چلنے کے انداز کے بارے پتہ چلتا ہے۔
میری پوری زندگی میں وہ واحد گھوڑا تھا جسے میں نے بہت چاہت سے اپنی ملکیت میں رکھا تھا، اس کی خصوصیات اور قد و قامت مثالی تھیں۔ اسکے کان خوبصورت تھے اور ان کے درمیان کافی فاصلہ تھا، ان کے کنارے ایسے تھے جیسے باریک پنکھ ۔ چوڑی پیشانی تھی جس پر باریک ہڈیاں نمودار تھیں جنکی شکل جیسے اہرام ہو۔
ابرو کے اوپر پٹھے بھی اہرام کی مانند تھے جنہوں نے خوبصورت شاندار آنکھوں کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ جہاں تک ناک کا تعلق ہے بڑے سوراخ تھے جو کہ زیادہ مقدار میں ہوا لینے کے قابل تھے۔ اس کی گردن لمبی تھی جس سے تفاخر اور شان کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی نچلا درمیانی حصہ اس کے جسم کا وسیع تھا جو کہ اس کے ہم عمر دیگر گھوڑوں کے مقابلے میں دو گنا تھا۔
چمڑی نرم چمکیلی تھی جس میں اس کی سینکڑوں رگیں دیکھی جا سکتی تھیں بالخصوص جو رگ دل سے آتی تھی جو کہ الگ لمبی اور وسیع تھی ، اس کی چھاتی چوڑی تھی اور پشت کو مضبوط ہڈیوں نے سہارا دے رکھا تھا اور اردگرد پٹھوں کی تہہ تھی۔ اس کی دم کا سب سے خوبصورت پہلو یہ تھا کہ وہ زیادہ اونچی نہ تھی اور نہ ہی نیچی بالکل مناسب جگہ تک تھی وہ بالکل ریڑھ کی ہڈی کے آخر میں تھی یہ مکن نہ تھا کہ رانوں کی چوڑائی پر غور نہ کیا جائے یا اس کے کھڑا ہونے یا چلنے کے انداز پر۔ اس کی وسیع آنکھیں تھیں شان اور فخر سے لبریز اور بغیر کسی خوف و خطر کے آثار کے۔ وہ لمبا اور مغرور تھا غالب طرز عمل کے ساتھ ۔ وہ یہ بھانپ لیتا تھا کہ ہ سوار نا تجربہ کار ہے وہ آگ کی گیند کے گولے کی طرح ہمیشہ زندگی اور طاقت سے بھر پور تھا۔
میں اسے القوز دبئی کے اصطبل میں ملتا۔ وہاں بیٹھ کر اس کی خوبصورت تخلیق پر تعجب سے نظر ڈالتا۔ وہ اپنے سر کو میری بانہوں میں ڈال لیتا کہ میں اسے کچھ گاجریں دوں جو میں ہمیشہ چھپا کر رکھتا تھا جب میں اس کی گردن کو جھٹکا دیتا وہ بہت خوش نظر آتا میں اسکے پاس بیٹھ جاتا اور ہم ایک دوسرے پر نظریں جمائے رکھتے۔ میں چارے کے برتن جس کی اونچائی اسکی چھاتی کے برابر تھی، پر بیٹھ جاتا۔ جب ہم چلتے وہ میری اونچائی کے برابر لگتا وہ اپنی پچھلی اونچی کر کے اور اپنا سر میرے سامنے رکھ کر آرام کرتا گویا کوئی پرندہ ہے جو میری موجودگی میں آرام کر رہا ہے۔ مضبوط ترین جانور کی جانب سے یہ حتمی اعتبار کا مظاہرہ تھا۔ میں اس قدر خوشی اس دیو قامت گھوڑے کے سامنے بیٹھ کر محسوس کرتا تھا۔ میں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر اسے محبت اور تعریف بھری نظروں سے دیکھا کرتا تھا۔ میں نے جو بھی گھوڑے رکھے ان سب سے وہ عظیم ترین تھا۔ " دبئی میلینئیم " اور اس کی کہانی دراصل قابل ذکر ہیں۔
تبصرہ لکھیے