تین دن پہلے نام لکھوانے کی شروع ہونے والی کمپین پر سرد موسم کا اثر بھاری رہا۔ دھاک کے وہی تین پات: آٹھ لوگوں نے نام لکھوائے۔ میٹنگ پوائنٹ جو ایک دو دوستوں کو چھوڑ کر سب سے ہی 6 یا 7 کلومیٹر دور تھا تک پہنچتے پہنچتے ایک سعودیہ سے آیا ہوا تاجر جو سائیکلنگ میں اپنے آپ کو تیس مار خان کہہ کر شامل ہوا تھا میٹنگ پوائنٹ سے پہلے ہی گھر واپس لوٹ گیا کہ ایہہ تے کم ای کتا ایے۔
صبح کے چار بجے جمع ہوئے۔ ایک دوست واپس لوٹ چکا تھا، ایک فون کو بند کر کے پڑا ہوا تھا، چھ لوگوں نے ساڑھے چار بجے ابتداء کی۔ یہ اپنے شہر سے باہر کو جاتی سڑک پر نواحی شہر دونگ یانگ کی طرف کا سفر تھا۔ شروع سے کچھ چڑھائی کی وجہ سے پہلی بار شامل ایک ٹین ایجر ساتھی نے اس چڑھائی کو موت کہنا شروع کیا۔
اسے سمجھایا کہ واپس جانا ہے تو ابھی چلے جاؤ لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ پچھوں قبائلی اقدار کا مالک ہے جو بات ایک بار کہہ دی ہے تو پورا کرے گا۔ شہر سے باہر پہلی ٹنل سے گزر کر دوسرے شہر کا حقیقی سفر شروع ہوا۔ دوسری ٹنل کے اندر جایا ہی چاہتے تھے کہ اس کی سائیکل پنکچر ہوگئی۔ یہ بالکل بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والی بات تھی۔ اسے واپس بھجوائے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ کارگو ٹرک اس وقت اتنی صبح آنلائن نہ تھے، جغرافیائی لحاظ سے ہم اتنی کمپلیکیٹیڈ جگہ پر تھے کہ ہماری لوکیشن ہی میپ پر نہ آ رہی تھی۔ ہم جانے والی ٹنل کے منہ پر اوور ہیڈ سڑک کے ذریعے سے موجود تھے۔ کچھ فاصلے پر آنے والی ٹنل، نیچے پانچ چھ سڑکیں ایک دوسرے کو کراس کرتی ہوئیں، کچھ فاصلے پر فاسٹ ٹرین کا اوور ہیڈ ٹریک اور اطراف میں چند اور نئی بنتی ہوئی ٹنلز۔ اللہ اللہ کر کے مینیوئلی ایک ٹیکسی منگوائی، کار پہنچ چکی ہے کا نوٹیفیکیشن ملا، ادھر ادھر دیکھا تو نیچے ایک سڑک پر کار کی پارکنگ لائٹس نظر آئیں، آوازیں دیکر اسے متوجہ کیا تو اسے نے کہا کینسل کر دینا میں جا رہی ہوں۔ ایک اور ٹیکسی بلوائی تو وہ بھی نیچے ہی ایک سڑک پر آئی۔ اس کے بعد بھی دو کاروں کی رائیڈ یہ پتہ چلنے پر کہ یہ دائیں بائیں یا اوپر نیچے آئیں گی ان کو کینسل کیا، اللہ اللہ کر کے ایک ٹیکسی ہم تک پہنچی، ہم نے جان بوجھ کر بڑی لگژری کار منگوائی تھی تاکہ اس کی بڑی ڈگی میں سائیکل رکھ کر چلی جائے لیکن نئی چمچماتی کار کی مالکہ بگڑ گئی۔ بڑی مشکل سے کچھ اضافی پیسوں کے بعد اس کی سیٹیں برابر کیں، سائیکل کے دونوں وھیلز کھول کر علیحدہ کیئے اور کار میں لوڈ کر کے اس لڑکے کو واپس روانہ کیا۔
یہاں ہمارا ایک گھنٹہ ضائع ہوا تھا لیکن پھر بھی نماز میں ابھی آدھا گھنٹہ وقت پڑا تھا۔ طے پایا کہ ان ٹنلز کے جال سے باہر نکل کر کہیں نماز ادا کریں گے۔ 28 کلومیٹر کے بعد ایک نو آبادی کو مڑے، ان کی جھیل کے ڈیک پر نماز پڑھی، 5 منٹ کا ایک یوٹیوب لیکچر سنا، واپس مین روڈ پر جا کر اس شرط پر سفر شروع کیا کہ جہاں تھکیں گے وہاں دسترخوان بچھا کر قہوہ اور کھجوروں کا دور چلائیں گے۔ پچھلی بار فریش فرام فارم سٹرابیری لی تھی جس کا ریٹ ہمارے شہر سے ملنے والی سٹرابیری سے دوگنا تھا۔ اس بار وہی ساتھی (مسعود /اظہری شیخ) اپنے ساتھ 3 پاؤنڈ سٹرابیری لایا تھا، اسے بھی تھک جانے والی جگہ پر کھایا جانا طے ہوا۔
ہم پانچ افراد ایسے چل رہے تھے کہ دو بہت آگے نکل کر جا چکے، ایک درمیان میں اور دو آخر میں (میں سیکنڈ لاسٹ)۔ سر سُٹ کر چلتے چلتے آٹھ بج چکے تھے یعنی کہ ہمیں نماز کے بعد بھی چلتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا کہ ایک آبادی کے باہر بنی جھیل کے درمیان میں بنے شیڈ پر آگے آگے چلنے والے دو ساتھی نظر آئے۔ گویا یہ ہمارے قہوہ پینے کا مقام تھا۔
میں نے گروپ کو بتایا کہ چھٹے ممبر کے واپس جانے کے بعد ہم بالکل وہی پانچ لوگ بچے ہیں جو پچھلی بار کے پانچ تھے۔ اس موقع پر اللہ کے حضور دعا کی گئی کہ ہمیں آخرت میں (جنت میں) بھی ساتھ رکھے۔ آمین
کیپٹن سے پوچھا کتنا سفر باقی رہتا ہے؟ کہنے لگا کہ اگر وہ ٹین ایجر ساتھ رہتا تو ہمارا کل سفر 55 کلومیٹر رہنا تھا لیکن اب ہم اس سال 2025 میں ہونے والی اس پہلی سائیکلنگ ایکٹیویٹی کو یادگار بنانے کے مشن پر ہیں۔ سفر کتنا ہو چکا ہے اور کتنا باقی رہتا ہے سرپرائز ہے ریسٹورنٹ پر پہنچ کر بتا دونگا،
میں نے اپنے شبہے کا اظہار کیا کہ چند کلومیٹر پہلے ایک سائن بورڈ دیکھا تھا جس کے مطابق فوتھانگ کا تاریخی قصبہ 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا اور وہاں سے ایوو کا باقی سفر مزید 16 کلومیٹر، گویا ہم ابھی بھی 30 کلومیٹر دور ہیں!!! کیپٹن نے کہا سلیم: ہم تمہیں دیکھ دیکھ کر ہمت باندھے یہ سفر کر رہے ہیں، ایسی باتیں کر کے ہماری ہمت نہ توڑو۔ اس گول مول جواب پر میں نے خاموشی اختیار کی۔
پہلے سٹرا بیری، پھر تین چار اقسام کی اعلی کھجوریں اور عربی قہوہ۔ محفل شاندار جمی۔ یہاں سے ہم نے تھکن دور ہونے پر دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ کیپٹن نے مجھے ہلکا سا بتا دیا کہ سلیم تمہارا اندازہ درست ہے ہم نے مزید 28 کلومیٹر کرنا ہے۔
آج کا موسم 2 سینٹی گریڈ بتا رہا تھا لیکن ایسے لگتا تھا جیسے سردی بالکل نہیں۔ یہ گمان تب ٹوٹا جب صبخ کی نماز کیلیئے دوبارہ وضو کیا، ہاتھوں کو پانی لگنے کے بعد ایسی سردی لگی کہ انگلیاں سن ہو گئیں، ایسے لگتا تھا کہ جب تک آگ پر نہ سینکی گئیں ٹھیک نہ ہونگی، آگ نہیں تھی ٹھیک ٹھیک ہوتے ہوتے گھنٹہ لگ گیا۔ قہوہ والے مقام پر ہمارے سروں کی ٹوپیوں پر برف جمی ہوئی دیکھی۔
فوتھانگ کے بعد پہاڑون کے ساتھ ساتھ چلتی سڑکوں کے جال سے نکلے اور دیہاتی سڑکوں کا نظارہ ملا۔ خزاں ہے، ہر طرف ویرانی سی لگتی ہے، دھان کے اجڑے کھیتوں نے ماحول کو اور بھی افسردہ بنا رکھا ہے۔ بہت کم ایسا موقع ملا کہ فطرتی حسن کشید ہو جائے، بس چلتے رہو چلتے ہو والی صورتحال بنی رہی۔
ساڑھے نو بجے واپسی کا فائنل ،مقام طے شدہ ریسٹورنٹ پر پہنچے۔ مزے کا ناشتہ کیا۔ ایک دوسرے کا شکریہ ادا کیا، آئندہ شامل ہوتے رہنے کے وعدے کا اعادہ کیا اور گھروں کو روانہ ہوگئے۔
گھر پہنچے تو اپنے چیٹ گروپ سے پتہ چلا کہ ہم نے آج 84 کلومیٹر کا ٹریک کیا ہے۔ ایپ پر 79 کلومیٹر اور 5 کلومیٹر کے دو ٹنلز جنہیں ایپ شمار نہیں کر سکتی کو ملا کر کل 84 کلومیٹر، الحمد للہ، اللہ سلامتی دے اور یہ سلسلہ جاری رہے۔
تبصرہ لکھیے