ہوم << ہم کس برتے پر سال نو کا جشن منائیں - عالیہ شمیم

ہم کس برتے پر سال نو کا جشن منائیں - عالیہ شمیم

سال نو کا جشن منانے کا تصور مغرب سے مستعار لیا گیا ہے . ہم جس مذہب کے پیروکار ہیں، اس کی تعلیمات کے مطابق گزرنے والا بردن کاؤنٹ ڈان کا کام کرتا ہے۔اب تو دسمبر کا مہینہ سقوط ڈھاکہ کے علاوہ معصوم بچوں کے خون سے بھی رنگا ہوا ہے یہ کیسی خوشی کا موقع ہے سال بھر میں ایک رات کا ہلا گلا کر کے نیو اییر نائٹ منا کر کون سی خوشی پالی. ہمارے عمل کی کیا اساس ہے. ہم کس برتے پر سال نو کا جشن منائیں؟ ہمارے خالی دامن میں بجز ندامت کے اور کیا ہے. ؟
محنت لگن دیانت سے خالی معاشرہ بھوک افلاس بد دیانتی دولت کی ہوس ۔جو اسلام کے نام پر بھائی بھائی تھے وہ چند ٹکوں کی خاطر قتل کر دینے والے ۔بروزگاری سے اپنے کنبے بال بچوں کی یا تو جان لینے والے یا خود کشی کر کے اپنی جان ختم کرنے والے معاشرے میں سال نو مناکر کون سی خوشی منائی جاۓ گی؟؟؟
سال نو تو وہ منائین جن کی ۔ زندگی انسانوں کے لیے وبال نہیں۔ امن و انصاف کا دور دورہ ہو۔۔ صحت و تعلیم اور ہر شہری کے سر پہ چھت میسر کرنا ریاست کی ذمے داری ہو اور اس کے بدلے شہری ٹیکس دیتے ہوئے خوشی محسوس کریں ۔۔۔زندگی جیسی نعمت جلیل کی قدر تو ان کو ہوگی جو معاشرے میں سر اٹھا کر جی رہے ہیں ۔ تو پھر یہ لوگ خوشیاں کیوں نہ منائیں؟ سرشاری کے عالم میں رقص کیوں نہ کریں؟
ہے کوئی ہمارے ہاتھ وہ چیز وہ کامیابی، وہ خوشی۔ جو 77 برس گزر جانے کے بعد بھی ہمارے حافظے میں محفوظ ہو۔۔۔
، جو قوم اپنی سمت کا تعین نہ کر پائے اس کی بدنصیبی پر ماتم کیا جاتا ہے، جشن تو نہیں منایا جاتا۔ جس قوم کے بچوں کو لوڈشیڈنگ کے اندھیرے، جرائم کی لوٹ مار رشوت کی بھر مار سفارش کلچر ورثے میں ملیں، اسے کیا حق پہنچتے ہے، سال نو منانے کا. جس مملکت کی حدوں میں انصاف بکتا ہو وہاں خیرو برکت کا کیا کام؟ جس دیس میں دنیا کا بہترین آب پاشی کا نظام ہو ۔کھیت کھیت ہریالی ہو اس کے باسی آٹے دال چینی کے حصول کے لیے صبح سے شام تک قطاروں میں خوار ہوتے پھریں تو فاقوں کی ماری یہ قوم کس طرح جشن منائے ؟ جس قوم کے رہنما چند ٹکوں کے عوض اپنے ہی ملک کو بیچ دیں ۔ اپنی بیٹیوں کا سودا کردیں ۔ اپنے معصوم فلسطینی ۔۔کشمیری بچوں۔ بھائیوں بہنوں کے اجڑنے پر سرد خاموشی بے حسی طاری رکھیں ۔ان پر ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کر لیں کہ ان کی ہنستی بستی بستیاں اجڑ چکی ہیں۔ شہر کے شہر ویران، اوربازار خریداروں کی چہل پہل سے آباد تھے، اب وہاں راکھ کے ڈھیر ہیں اور تباہ حال عمارتوں پر آگ کے شعلے تھمے نہیں ہیں.
ہمارے حکمراں اپنی راجدھانی میں بد مست ہیں۔ ایسے میں جب کہ پورا وطن جل رہا ہے ۔ جہاں مسجدوں میں، شہری بازاروں میں علم کے متلاشی اپنی درسگاہوں میں،اپنے ہی ہم وطنوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ۔ہین خون کی اتنی ارزانی۔اتنی فراوانی پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی ، اب تو عوام بلبلا اٹھے ہیں اور حکمرانوں سے دست بستہ عرض گزار ہیں، خدارا تم ہمیں آٹاچینی نہ دو۔بجلی پیٹرول کی قیمتیں بھی بھلے کم نہ کرو، لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے بھی دور نہ کرو، ہم پر ٹیکسوں کی بھرمار کردو ۔ہم سب کچھ سبہ لیں گے مگر خدارا! ہماری زندگیوں کا تحفظ تو دے دو، ہم تم سے کچھ بھی نہیں مانگتے ہمارے بچوں کی جان تو بچالو.
سال نو کو ہم پھر بھی خوش آمدید کہتے ہیں، گو کہ مسلمانوں کا اسلامی سال تو یکم محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کریں؟ اپنی بے بسی کا رونا روتے رہیں۔ حالات کی گردش اور دنوں کے ہیر پھیر کو حرز جاں بنائیں۔ ہیتے ہوئے سالوں کا ماتم کرتے رہیں، حساب سود و زیاں کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مور الزام ٹھیراتے رہیں۔ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو جائیں موت کے خوف سے باہر نکلنا چھوڑ دیں ، موت جو آج پاکستان کے گلی کوچوں میں وحشیانہ رقص کرتی نظر آتی ہے۔ کیا کسی مسیحا کی راہ تکتے تکتے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ نہیں، یہ آزاد قوموں کا چلن نہیں، زندہ قوموں پہ بہت کڑے وقت آتے ہیں لیکن وہ ہمت نہیں ہارتیں ، ، نہ اپنے حوصلوں کو ماند پڑنے دیتی ہیں۔ ہمیں بھی اسی ڈگر پر چلتا ہے، زندہ رہنے کا ثبوت دیا ہے، اپنی بساط بھر ہر پاکستانی کو اس دیس کی ایڑی چوٹی سنوارناہے. وطن کی آن پر قربان ہوتے ہوئے پورے پورے عزم ے ساتھ تھ کھڑا ہوتا ہے کہ اس میں دوا کی جا۔ میں ہماری نجات ہے۔
ہم کس برتے پر سال نو کا جشن منائیں، ہے کوئی ایسی چیز نمار دامن میں باسٹھ برس گزر جانے کے بعد بھی، جو قوم اپنی سمت کا تعین نہ کر پائے اس کی پالیسی پر ماتم کیا جاتا وقت بھی آتے ہیں۔ جب زندگی شہر جاتی ہے۔ مگر یہ تو میں نے تو شیر دیان، جو ہے، جشن تو نہیں منایا جاتا۔ جس قوم کے بچوں کو اکیسویں صدی کی دہلیز پر لوڈشیڈنگ کے اندھیرے، کرپشن کی لوٹ مار رشوت کی بھر مار، سفارش کلچر ورثے میں ملیں ، اسے کیا حق مان تا ہے، ایپی نیو ائیر کا، جس مملکت کی حدوں میں انصاف ملنے کی بجائے ہلتا ہو وہاں خیرو برکت کا کیا کام ؟ جس دیس میں دنیا کا بہترین آب پاشی کا نظام ہو، کھیت کھیت ہریالی ہو اس کے پاس آئے چینی کے حصول کے لیے صبح سے شام تک قطاروں میں خوار ہوتے پھریں تو فاقوں ماری ہے قوم کس طرح جشن منائے کیسے رقص کرے۔ جس قوم کے رہنما چندلکوں کے عوض اپنے تو کیا قوم کی بیٹیوں کو ان کے معصوم بچوں سمیت
ہاں لاکھ کے لی آگ کے کی صدائیں رہا ہے، کچھ ا۔ وطن عزیز کردہ ایسا بھی تمام کرنا میں سے بک
تے ہیں جب کہ حنت لگن دیانت ئے تو یہ حق رکھتے عنی، اسلام کے ستفادہ کر کے اہل توں اور رفاعی یں انسانوں کے ہے۔ صحت و تعلیم ت کی ذمے داری ہوئے خوشی محسوس در ان قوموں نے پنے آپ پر پیار آتا میں؟ سرشاری کے
اکتفا کرتے ہیں۔ خون کی اتنی ارزانی اتنی فراوانی پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی، اب تو عوام بلبلا اٹھے ہیں اور حکمرانوں سے دست بستہ عرض گزار ہیں، خدارا تم ہمیں آنا چینی نہ دو، بجلی پیٹرول کی قیمتیں بھی بھلے کم نہ کرو، لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے بھی دور نہ کرو، ہم سب کچھ سہہ لیں گے، مگر ہماری زندگیوں کا تحفظ تو دے دو، ہم تم سے کچھ بھی نہیں مانگتے ہمارے بچوں کی جانیں تو بچالو!
سال نو کو ہم پھر بھی خوش آمدید کہتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کریں؟ اپنی بے بسی کا رونا روتے رہیں۔ حالات کی گردش اور دنوں کے ہیر پھیر کو حرز جاں بنالیں۔ بیتے ہوئے سالوں کا ماتم کرتے رہیں، حساب سود و زیاں کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہیں۔ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو جائیں، موت کے خوف سے باہر نکلنا چھوڑ دیں ، موت جو آج پاکستان کے گلی کوچوں میں وحشیانہ رقص کرتی نظر آتی ہے، کیا کسی مسیحا کی راہ تکتے تکتے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، نہیں، یہ آزاد قوموں کا چلن نہیں، زندہ قوموں پہ بہت کڑے وقت بھی آتے ہیں۔ جب زندگی ٹھہر جاتی ہے۔ مگر یہ نہ تو ہمت ہارتی ہیں، نہ اپنے حوصلوں کو ماند پڑنے دیتی ہیں۔ ہمیں بھی اسی ڈگر پر چلنا ہے، زندہ رہنے کا ثبوت دینا ہے، اپنی بساط بھر ہر پاکستانی کو اس دیس کی اجڑی مانگ سنوارنا ہے، وطن کی آن پر قربان ہوتے ہوۓہر پاکستانی کو پورے عزم حوصلے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا ہے ۔حق کا ساتھ دینا ہے کہ اس میں ہماری بقا و نجات ہے۔۔