ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے کہ اللہ کی یہ انسان پر رحمت ہے کہ اس نے اس کی زندگی کو مختلف حصوں میں بانٹ دیا، جس سے زندگی جینا اور جھلینا آسان ہوگیا، دن، ہفتے، مہینے، سال۔ صبح ،دوپہر شام، بچپن، لڑکپن، جوانی ،ادھیڑ عمری اور بڑھاپا، پھر زندگی کے نشیب و فراز اور نت نئی مصروفیات۔ یہ سب زندگی کے بے شمار دائرے یا حصے ،جن میں سے ہر اگلے حصے میں قدم رکھتے ہوئے انسان کچھ جدت، کچھ نیا پن اور کچھ تازگی و توانائی محسوس کرتا ہے۔
زندگی کی یہ مختلف گرہیں ،اگر ہم غور کر سکیں تو واقعی ہمارے لئے عظیم نعمتیں ہیں۔ آدمی یکسانیت سے نکل کر رنگا رنگی حاصل کر لیتا ہے، دن بھر کا تھکا آدمی شب سو کے نئی صبح کیلئے اٹھتا ہے تو عزائم بھی نئے اور تازہ ہوچکے ہوتے ہیں اور ان کی تکمیل کیلئے توانائی بھی نئی اور تازہ۔
انھی میں سے ایک نیا سال ہے۔ نیا سال ہی کیا، ہر نئے دن بھی آدمی کو اپنے گزشتہ دن کا جائزہ لیکر آئندہ روز کیلئے تازم دم اور تازہ عزائم ہوجانا چاہیے۔
بہرکیف ،نیا سال تو اس کے لیے بڑا اہم موقع ہے۔ آدمی پچھلے سال کی کمیوں، کوتاہیوں اور قصوروں کا جائزہ لے اور نئے سال کیلئے کچھ نیا اور مختلف سوچ کر زندگی کو نئے رنگ اور نئے معانی دینے کی کوشش کرے۔ یہ درست ہے کہ نئے سال کے لئے باندھے گئے نئے عزائم اکثر پہلے ہی مہینے سال گزشتہ کی طرح غائب ہو چکے ہوتے ہیں، مگر کیا خبر کوئی بات دل اور عمل میں ایسی بسے کہ عمر آئندہ روشن ہو جائے، اچھا چلئے ایک ماہ یا چند دن ہی اگر ذرا مختلف ہوجائیں تو بھی کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے۔
اگلے سال کیلئے ہمیں تین طرح کی چیزیں سوچنے اور ان میں کچھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
1: ذاتی طور پر
اگر ہم دیکھیں تو دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اے آئی کا جو طوفان انسان کے سر پر کھڑا ہے، یہ ایک بم بھی ہے اور ایک موقع بھی ہے۔ وہ افراد اور قومیں ہمیشہ پیچھے رہ کر پامال ہو جاتی ہیں جو نئی سوچ کی طرف قدم بڑھاتے یا سنبھلتے ہوئے ہچکچاہٹ میں وقت ضائع کر دیتی ہیں۔ سو نئے دور کے تیور سمجھئے، نئی مہارتیں پیدا کیجئے، سوشل میڈیا کی راہ سے اپنی طبیعت کے زنگ اتارئیے اور نئے دور کے نئے تقاضوں کے متعلق سوچئے بھی اور کچھ عمل بھی کیجیے تاکہ نئے دور میں ہم اجنبی بن کے نہ رہ جائیں۔
2: اولاد کے حوالے سے
یہ دور مشکل دور ہے، نئی مہارتوں اور جدید دنیا نے پرانی دنیا سے الگ کر دی ہے، والدین کی روایتی زندگی اب اولاد کے زیادہ کام نہیں آنے والی۔ بہت مشکل یہ ہے کہ والدین کا سارا تجربہ ایک گزر گئی دنیا کا تجربہ ہے۔ بہرحال بچوں کو نئی دنیا کیلئے تیار کرنے کی کوشش کیجیے۔ خصوصا ورچوئل دنیا کے چینلجز کے سامنے دانشمندی سے بند باندھنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری نئی نسل اپنی اقدار، اپنی حیا اور اپنی حفاظت اس طوفان کے میں سب کھو سکتی ہے۔
3:ملک کے حوالے سے
ہمارا پچھلے ستر سال کا سفر ایک سلطنت بے آئین اور ایک شہری بے حیثیت کی طرح گزرا ہے۔ یہاں طاقت کی حکمرانی رہی ہے۔ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہیں۔ جہاں شہریوں کو آئینی تحفظ حاصل نہ ہو، وہاں آزادی قید ہو جاتی ہے اور جہاں آزادی قید ہوجائے وہاں تخلیقیت ، خود داری اور ترقی کی جگہ نقل،بزددلی ،خوشامد اور خیرات طلبی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے پیچھے رہنے کی وجہ بھی یہیں ہے۔ جہاں آئین آپ کی حمایت میں حفاظت کیلئے نہ آئے،وہاں آپ اصول اور یقین کیساتھ کہیں بھی کھڑے نہیں ہو سکتے۔ریاست کی طاقت تلے سانس لیتی ہماری سیاست کا سفر ہمیشہ کھوٹا کیا گیا اور اس بے جڑ سیاست نے ہماری نسلیں اجاڑ کھائی ہیں۔ سو کچھ کوشش کیجیے کہ پارٹیوں خواہ وہ سیاسی و لسانی ہوں یا مذہبی و مسلکی ،ان سے مزید تقسیم اور انسانی تحقیر کم کر دیجئے، میں ختم کرنے کی بات نہیں کر رہا کہ جہاں ریاست اس تقسیم اور تحقیر کے پیچھے ہو، وہاں ایسی چیزیں ختم نہیں ہو سکتیں البتہ ہماری شعوری کوشش سے کم ضرور کی جا سکتی ہیں۔
حرف آخر
یہ کہ اپنی ، اپنی فیملی اور اپنے رشتہ داروں کی فکر کیجیے، سب سے پہلے آپ ان کے ذمہ دار ہیں، معاش کیلئے جائز مگر متنوع ذرئع اختیار کیجیے۔ قناعت شعار کیجیے اور کسی بھی طرح اپنے معاشی مفاد نظر انداز نہ ہونے دیجئے،اس لئے کہ بے دستور ریاستوں میں زندہ رہنے کیلئے آپ کو اپنے لئے خود ہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ دوسروں کے کام آئیے، اخلاق اور تعاون سے دوسروں کی زندگی آسان کرنے کی کوشش کیجئے۔
اس طرح ،
شائد ہمارے سال نو کی زمین میں کچھ نرمی، کچھ محبت اور کچھ آسانیوں کے گلاب اگ سکیں۔
اللہ کرے کہ نیا سال ہمیں راس آئے اور ہمارے لئے امید و یقین لیکر آئے۔
تبصرہ لکھیے