ہوم << کرم معاہدے کے بعد - فیض اللہ خان

کرم معاہدے کے بعد - فیض اللہ خان

کرم معاہدے ہوچکا . کراچی اور دیگر شہروں میں مظاہرے ختم ہو گئے ہیں، سڑکیں بھی کھل گئی ہیں. اس کے بعد شیعہ قیادت کو کچھ باتوں پہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے مثلاً پہلی بار شاید ایسا ہوا کہ کراچی میں فعال سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت ان سات دنوں میں آپ کے دھرنے میں شریک ہوئی نہ حمایت میں بیان دیا بلکہ خلاف بھی کچھ نہیں بولے، جسے علامہ حسن ظفر نقوی میڈیا پراپیگنڈہ قرار دے کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رہے ہیں ، بنیادی طور پہ وہ عام شہریوں کا ردعمل ہے جو سوشل میڈیا پہ بکھرا پڑا ہے. یاد رکھیں کراچی میں لوگ پہلے ہی مختلف مسائل کے سبب بہت پریشان ہیں. روڈ انفراسٹرکچر سے سفر میں تاخیر انہی میں سے ایک ہے. ایسے میں سڑکیں بند کرنا یہاں پاپ کے زمرے میں آتا ہے. سڑکوں پہ ڈنڈے اٹھائے لڑکوں سے لوگ لڑ نہیں سکتے مگر سوشل میڈیا پہ بھڑاس ضروری نکالی جاسکتی ہے. اس حوالے سے بغیر ریاستی معاونت کے رائے عامہ آپ کے اس عمل کیخلاف ہے .
شیعہ علماء کی ہٹ دھرمی کے سبب ہمیشہ نرم رویہ کا مظاہرہ کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے مشکل ہوگیا تھا کہ سڑک بند رہنے پہ خاموش رہتے، یہاں تک کہ پولیس ایکشن پہ شیعہ مولویوں نے پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاء سے تشبیہ دی. واضح رہے کہ پاکستانی شیعوں میں جنرل ضیاء یزید کا مترادف سمجھا جاتا ہے مگر اپنی دیرینہ اتحادی پیپلز پارٹی کو خود شیعہ علماء یہاں تک لائے (امریکی سفارت خانے بطور احتجاج جانے پہ شیعہ ہو یا سنی، حکومت جس کی بھی ہو وہ روکنے کےلیے طاقت کا استعمال کرتی ہے اور وہ سب کو پتہ بھی ہے، البتہ اس قسم کے شیعہ دھرنوں سے پولیس دور ہی رہتی ہے، تشدد نہیں کرتی) پیپلز پارٹی کی حکومت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگائیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کراچی آئے تو انھوں نے کوئی ملاقات کی دعوت دی نہ ملے، بلکہ سب کچھ گورنر سندھ کے حوالے کردیا کہ وفاق جانے مہمان جانے .
اس ہفتہ دس دن کے دوران عجیب و غریب ویڈیوز سامنے آئیں مثلاً ایک خاتون استاد دھرنے میں شریک بچوں کو باقاعدہ سبق پڑھا رہی تھیں کہ اگر حکومت نے پاڑہ چنار میں ہم سے اسلحہ لیا تو ہم بدذات حکومت کے منہ پہ چپڑیں کرائیں گے . طویل مدت بعد نشریاتی اداروں پہ دھرنوں کیخلاف خبریں چلیں، حالانکہ پہلے عوامی مشکلات نظر انداز ہوتی تھیں .
کراچی میں ایک سیاسی بیانیہ مقامی و غیر مقامی کا بھی ہے جسے کراچی میں رہنے والے خوب سمجھتے ہیں. مجلس وحدت المسلمین کے مہاجر علماء نے سرائیکی، بلتی، پشتون، سندھی اور مہاجروں کو فرقے (شیعہ ملت یعنی مقامی و غیر مقامی اگر شیعہ ہیں تو ایک قوم ہیں )کی بنیاد پہ جمع کرکے شہر بند کرایا، اور اس بیانیہ کو خاصا متاثر کیا ہے ، کراچی میں یہ سوال سنجیدگی سے اٹھاہےکہ پاڑہ چنار کے قبائلی تنازعے کو یہاں کیوں لایا گیا ؟
اپنے سخت گیر رویے کے باعث مجلس وحدت المسلمین کے کارکن پولیس سے بھی ٹکرائے، دو طرفہ فائرنگ سے کوئی دو درجن کے قریب پولیس اہلکار و دھرنے کے شرکاء زخمی ہوئے، اور ایک کارکن جان سے گیا. اسی طرح گاڑیاں جلنےاور سولجر بازار و جعفر طیار میں کاروبار زبردستی بند کرانے سے عوام میں مجلس وحدت کا تاثر مجروح ہوا ہے. جلاؤ گھیراؤ کی سیاست سے کراچی نکل چکا ہے، دوبارہ نہیں جانا چاہتا.
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگی حکومتی شخصیات نے مجلس وحدت المسلمین پہ الزام لگایا کہ اپنی اتحادی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے دباؤ ہٹانے کے لیے کراچی کا انتخاب کیا گیا (یہ دلچسپ نکتہ ہے تحریک انصاف کراچی میں ان کے دھرنے میں شریک ہوئی نہ حق میں بیان دیا) . کراچی میں اہل تشیع تنظیمات سمجھتی ہیں کہ وہ سڑکیں وغیرہ بند کرکے حکومت یا شہر کو اپنی طاقت دکھاتے ہیں، درحقیقت یہ معاملہ بیک فائر ہوچکا ہے، اس وجہ سے عام شہری نفرت کرنے لگے ہیں (نفرت کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ پہلے سے تنگ شہریوں کا مزید ذلیل ہونا ہے محرم وغیرہ کے دس دن کے سوا مختلف جلوس و مجالس کےلیے مرکزی سڑکوں سے لیکر گلی محلے اور ذیلی سڑکوں کا بند ہونا شہریوں کو نفسیاتی بنا چکا ،مگر شیعہ قیادت اسے ابھی تک نہیں سمجھ پا رہی )
آخری بات یہ ہےکہ مجلس وحدت کے ان دھرنوں میں قطعی اتنے لوگ نہ تھے کہ اسے قابل ذکر سمجھا جاتا، واضح طور پہ نظر آیا کہ نہ صرف مختلف شیعہ تنظیمات بلکہ منظم و مؤثر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بھی ان دھرنوں سے مکمل طور پہ لاتعلق رہی .
شیعہ سنی اختلاف کبھی ختم ہوگا نہ یہ دونوں ، مگر وقت آگیا ہے کہ اپنے عقائد و نظریات پہ رہتے ہوئے فریقین کی قیادت ایسی راہ نکالے جس میں ایک دوسرے کا احترام ہو اور شہریوں کے لیے پریشانی نہ بنے. یہ ہم سب کے بڑے ہونے کا مرحلہ ہے، ورنہ یقین کریں اگلی نسلیں ان معاملات سے ویسے لاتعلقی اختیار کرتی جارہی ہیں، اور یہی رویہ رہا تو پھر جو ساتھ ہیں، وہ بھی ساتھ چھوڑ جائیں گے