ہوم << پی ایچ ڈی چھوڑ کر ماڈل بننے والی زارا ڈار - حافظ محمد زبیر

پی ایچ ڈی چھوڑ کر ماڈل بننے والی زارا ڈار - حافظ محمد زبیر

سوشل میڈیا پر آج کل ایک امریکی خاتون بہت وائرل ہیں کہ جنہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم چھوڑ کر ایک فحش ویب سائیٹ کے لیے کام کرنا شروع کر دیا اور کچھ ہی عرصے میں ایک ملین ڈالر یعنی ستائیس کروڑ روپے کما لیے۔ خاتون کا نام زارا ڈار ہے۔ کچھ صارفین نے انہیں جب پاکستانی کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ البتہ انہوں نے یونیورسٹی آف ٹیکساس سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کیا اور پھر پی ایچ ڈی کی تعلیم درمیان میں چھوڑ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اگرچہ ایک مشکل فیصلہ تھا اور ان کے لیے ایک جوا بھی تھا لیکن انہیں اب اس پر اطمینان ہے کہ انہوں نے گاڑی بنا لی ہے اور اب اپنا گھر بھی آسانی سے بنا لیں گی۔
اس کیس اسٹڈی پر جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ آئندہ کی نوجوان نسل یہی فیصلے کرے گی بلکہ کرے گی کیا، کر رہی ہے۔ ہمارے کامساٹس یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک کولیگ کا مجھے ایک مرتبہ فون آیا کہ آپ ڈکی بھائی کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ وہ جو سوشل میڈیا انفلوئنسر ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ میں نہیں جانتا۔ اس نے آپ سے نہیں پڑھا؟ مجھے بات سمجھ نہیں آئی۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ یہاں کامساٹس میں پڑھتا رہا ہے۔ اور ان کا اسٹوڈنٹ بھی رہ چکا ہے۔ میں بھی چونکہ کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں اسلامک اسٹڈیز پڑھاتا تھا تو ان کا خیال تھا کہ شاید اس نے مجھ سے بھی پڑھا ہو۔ لیکن بہر حال دس سالوں میں اتنے طلباء نے پڑھا ہے کہ پڑھا بھی ہو تو بھی یاد نہیں رہ جاتا کہ کون کیا تھا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے بعد میں یو ٹیوب پر ڈکی بھائی کو سرچ کیا تو حیرانگی ہوئی کہ کمپیوٹر سائنس کے طلباء فیملی وی لاگنگ اور اپنی بیویوں کی نمائش کرا کے پیسے کمانے میں لگے ہیں۔ ایک مرتبہ یاسر شامی جو ڈیلی پاکستان والے ہیں، ان کا انٹرویو سنا کہ انہوں نے یو ایم ٹی سے گریجویشن کی ہے اور انہیں ککھ نہیں آتا۔ اور گریجویشن بھی ان کی غالبا بزنس ایڈمنسٹریشن یا اسی قسم کی کوئی ڈگری تھی۔ کہاں وہ ڈگری اور ڈسپلن اور کہاں یہ کام کہ ویڈیو بنانے کے لیے سڑکوں پر دھکے کھاؤ۔
دیکھیں، بات واضح اور کلیئر ہے کہ آپ کی یونیورسٹیز منسٹری آف ایجوکیشن کے تحت نہیں بلکہ بزنس منسٹری کے تحت کام کرتی ہیں۔ یہ یونیورسٹیز تعلیم وتہذیب کے ادارے نہیں بلکہ بزنس ایمپائرز ہیں۔ طالب علم کسٹمر ہے اور استاذ سیلز مین ہے۔ ڈگری وہ پراڈکٹ ہے جو بیچی جاتی ہے اور فیس اس پراڈکٹ کی پرائس ہے جو اسٹوڈنٹ پَے کرتا ہے۔ اور اس سارے کاروبار کا مقصد پیسہ کمانا ہے۔ یونیورسٹی کا مقصد بھی یہی ہے، استاذ کا بھی اور طالب علم کا بھی۔ تو یہاں سے آپ کسی تعلیمی، تہذیبی، فکری، تخلیقی ایکٹوٹی کی امید ہی کیوں رکھتے ہیں؟ جدید نظام تعلیم کی بنیاد ہی کیپٹلزم ہے اور وہ اسی کی چھتری کے نیچے کام کر رہا ہے۔ آپ کی یونیورسٹیز کی ساری تعلیم وتحقیق کیپٹل گین کی غرض سے ہے۔
یونیورسٹی کو ہائر رینکنگ چاہیے، وہ ریسرچ بڑھانے سے ملے گی۔ اور ہائر رینکنگ اس لیے چاہیے کہ اسٹوڈنٹ نے گوگل پر سرچ کر کے ایڈمشن لینا ہے کہ فلاں یونیورسٹی کی رینکنگ اتنی ہائی ہے۔ اور اسٹوڈنٹ کو یہ اس لیے چاہیے کہ اس سے اس کے سرٹیفکیٹ اور ڈگری کی ویلیو بڑھے گی کہ ہارورڈ یا آکسفورڈ سے گریجویٹ ہے یا اس یونیورسٹی سے کہ جس کی رینکنگ فلاں فلاں ہے۔ پروفیسر کو نیکسٹ گریڈ چاہیے کہ اس سے اس کی تنخواہ بڑھے گی اور مراعات بھی، وہ ریسرچ سے ملے گا کہ یونیورسٹی کی رینکنگ اس کی ریسرچ سے بڑھتی ہے۔ بڑے بڑے پبلشنگ ہاوسز کو ریسرچ جرنلز پبلش کر کے پیسہ کمانا ہے تو اس کے لیے پروفیسرز کو بطور ایڈیٹر ہائر کریں گے اور پیسے لے کر ان کے مقالے شائع کریں گے اور پیسہ بنائیں گے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی پراڈکٹس بیچنی ہیں تو وہ ریسرچ پراجیکٹس اور ریسرچ جرنلز کے لیے فنڈنگ کریں گی کہ ہماری مرضی کے نتائج نکالو اور خود بھی فائدہ اٹھاو اور ہمیں بھی دو۔
نہ باپ نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ۔ اس وقت یہ صورت حال پورے تعلیمی سیکٹر کی بنی ہوئی ہے لہذا ایسے میں کسی طالب علم کا یہ سوچنا معمول کے مطابق ہی ہو گا کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی تو پیسہ کمانے کے لیے ہی لینی ہے اور اگر وہی پیسہ آسان ذریعے سے اور بڑی تعداد میں حاصل ہو جائے تو اتنی محنت کرنے کا کیا فائدہ۔ سب سے پہلے جو کرنے کا کام ہے، وہ مقاصد تعلیم متعین کریں اور ان کی روشنی میں اپنے پورے نظام تعلیم کو ریوائز کریں۔ تعلیم کا مقصد تہذیب اخلاق ہے؟ حق سچ تک رسائی حاصل کرنا ہے؟ مادی ترقی ہے؟ تخلیق وایجادات ہیں؟ ڈگری حاصل کرنا ہے؟ ملازمت کا حصول ہے؟ ٹک ٹاکر یا یو ٹیوبر پیدا کرنے ہیں؟ قوم کی تعلیم وترقی کے لیے معلم اور محقق بنانے ہیں؟ روپیہ پیسہ کمانا ہے؟ بزنس ہے؟ کیا ہے؟
جب یہ طے ہو جائے گا تو ہی گاڑی درست سمت میں سفر کرنا شروع کرے گی۔ یہ مقصد تعلیم طے نہ ہونے کا ہی تو نتیجہ ہے کہ کمپیوٹر سائنس کے طلباء پروگرامنگ یا آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے نہیں بلکہ فیملی اور جسم دکھا کر کما رہے ہیں اور برنس ایڈمنسٹریشن کے گریجویٹس، جرنلزم اور میڈیا سے پیسہ بنا رہے ہیں۔ مقصد تعلیم صرف پیسہ بنانا تھا۔ وہ جب ڈگری سے نہ بنا تو کسی اور کام سے بنا لیا۔ تو ڈگری کاہے کو لی تھی؟ اس پر والدین کا لاکھوں روپیہ خرچ ضائع کیوں کیا، جب ناچ گانے سے ہی پیسہ کمانا تھا۔