غامدی صاحب نے قرآن مجید کو مضمون اور صنف کے لحاظ سے 'ایک رسول کی سرگذشتِ انذار 'قرار دیا ہے۔ یہ جملہ اپنا مدعا آپ بیان کر دیتا ہے، بشرطیکہ لفظ' سرگذشت 'کی بجائے 'رسول کی سرگذشتِ انذار' کی پوری ترکیب پر غور کیا جائے۔ قرآن محض ایک سرگذشت نہیں، یہ محض رسول کی سرگذشت بھی نہیں، وہ سیرت کا موضوع ہے، یہ رسول کے انذار کی سرگذشت ہے، جہاں انسانوں کے مختلف گروہ رسول کی دعوت دین کے مخاطب ہیں اور اسی کے ذیل میں دین و شریعت بیان ہوئے ہیں۔ قرآن کی یہ نوعیت ایک امرِ واقعہ ہے۔
رسول کی سرگذشت انذار ہونے کی بنا پر یہ محض ایک سوانح یا کسی تاریخ کا بیان نہیں ہے، ایسا سمجھنا بدذوقی کی بات ہے۔ رسول خدا کا دین لے کر آتا ہے جو اپنی نوعیت ہی میں آفاقی ہے۔ قرآن اُسی دین کی تبلیغ میں رسول کی سرگرمیوں اور ان کو درپیش حالات کا بیان ہے۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رسول نے تبلیغ دین کا فریضہ کس اہتمام سے سر انجام دیا، اس کی قوم نے اس کے رد و قبول میں کن رویوں کا اظہار کیا۔ اسے قبول کرنے والوں پر کیا بیتی، اپنے تزکیہ و تطہیر کے لیے وہ کن مراحل سے گزر کر خدا کی رضا کے مستحق ٹھیرے، رسول کے منکرین پر کیسے اتمام حجت ہوا اور وہ کیسے سزا کے مستحق ہو کر سزا یاب ہوئے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ دین ایک تدریجی حکمت کے ساتھ تعلیم کیا گیا ، اہل ایمان نے اطاعت و مصائب پر کیسے صبر سے کام لیا، کیسے وہ اپنی درماندگی کا اعتراف کرتے، خدا سے نصرت کی خواست گاری کرتے، فتوحات پر شکر کرتے، لغزش و کوتاہیوں پر تنبیہات پاتے، نادم ہوتے، توبہ کرتے، اور خدا سے انعام پاتے نظر آتے ہیں، اور دوسری طرف کچھ لوگ کیسے کھلے حقائق کا انکار کرتے، سرکشی پر اڑتے، منافقت اختیار کرتے، بے نقاب ہوتے اور سزا پاتے دکھائی دیتے ہیں۔گویا، خدا کی عدالت لگی ہے، جہاں لوگوں کے اعمال تولنے کے بعد ان کی جزا اور سزا کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ یوں یہ کتاب اخلاق و شریعت کی معلّم ہی نہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک زندہ کتاب بن کر سامنے آتی ہے۔ اس کے ذریعے سے دین ہی منتقل نہیں ہوتا، بلکہ دین زندہ انسانوں کے تعاملات کے ساتھ منتقل ہوتا ہے۔
یہ کتاب بتاتی ہے کہ تاریخ کے اس دور میں خدا کی محسوس مداخلت کس طرح اپنے دعاوی اور چیلجنز کی تکمیل کے ساتھ سامنے آئی، جس نے خدا کے وجود، اس کی وحدانیت اور وقوعِ آخرت پر ناقابل تردید شہادتیں قائم کر دیں۔ پھر یہ سب حالات بعد والوں کے لیے ایک کتاب کی صورت میں محفوظ کر دیے گئے، تاکہ قیامت تک اس کے پڑھنے والوں پر خدا کی حجت تمام ہوتی رہے کہ اس کائنات کا خدا ہے۔ اس نے انسانوں سے کچھ تقاضے کیے ہیں، جو انھیں پورے کرنے ہیں، اس پر وہ ان سے جواب طلب کرنے کے لیے ایسے ہی آخرت کی عدالت لگائے گا، جیسے اس نے اس دنیا میں ایک قوم کے لیے عدالت لگائی تھی۔
غامدی صاحب نے اپنے تفسیر "البیان" کے مقدمے میں جہاں یہ لکھا ہے، "اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سر گذشت انذار ہے۔" وہاں یہ بھی لکھا ہے:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے نتیجے میں خدا کی جو عدالت سر زمین عر ب میں قائم ہوئی، اُس کی روداد اِس حسن ترتیب کے ساتھ اِس کتاب میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئی ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو قرآ ن مذہب کا یہ بنیادی مقدمہ بالکل آخری درجے میں ثابت کر دیتا ہے کہ خدا کی عدالت پورے عالم کے لیے بھی ایک دن اِسی طرح قائم ہو کر رہے گی۔"
یہ وہ اصل ہے، جس پر دین کا مقدمہ قائم ہے، وہ سرّ رشتہ ہے، جو فرد کے لیے دین پر عمل کا تقاضا پیدا کرتا ہے۔ آخرت کی جواب دہی کا یقین پیدا ہوتے ہی فرد کو اپنے تزکیے کی فکر لاحق ہوتی ہے تو قرآن اسے بتاتا ہے کہ یہ تزکیہ اسے اسی طرح حاصل ہوگا، جیسے پہلوں نے اس دین پر عمل کر کے حاصل کیا۔ قرآن سے اسے صرف دین نہیں ملتا، اس پر عمل کے انسانی نمونے بھی ملتے ہیں، جو اس کی نفسیات کے تما م پہلوؤں کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ اس طرح قرآن ہر فرد کے ساتھ پورے طور پر متعلق ہو جاتا ہے ۔
کسی عام سرگذشت کے برعکس، "رسول کی سرگذشت" کے عنوان سے یہ طے نہیں ہو جاتا یا یہ خدشہ پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں دی گئی ہدایات اور احکام اصلاً خاص ہیں، اور اب ان کی تعمیم کے لیے کوئی دلیل دیکھی جائے۔ رسول تمام انسانوں کے لیے خدا کا پیغام لے کر آتا ہے، اس لیے اس کی سرگذشت میں ہر بات یہ احتمال رکھتی ہے کہ وہ سب کے لیے ہو۔ اسی لیے یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ کیا چیز انذار رسالت کے مخاطبین کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے، جو اب دیگر لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔ یہ چند احکام جو قانونِ رسالت یا قانونِ اتمام حجت کے نتیجے میں خاص قرار پاتے ہیں، انھیں غامدی صاحب نے متعین کر کے پیش کر دیا ہے۔ ان کے علاوہ باقی سب احکام عام ہیں، کسی خلط مبحث کی گنجایش نہیں ہے۔ اس کے بعد اس کہانت کی کوئی حقیقت نہیں رہتی کہ دین کو تاریخ کے کسی دور میں متحجر Fossilized کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
ان خاص احکامات کی ایک فہرست یہاں دی جاتی ہے:
1. انکارِ اسلام کی پاداش میں رسول کی مخاطب قوم سے قتال درحقیقت خدا کی طرف سے ان کی سزا کا اعلان تھا، جو رسول کے اتمام حجت کے بعد کیا گیا تھا۔ عام مسلمانوں کو اس کا حق نہیں کہ تبلیغِ دین کے بعد کسی قوم کے انکارِ اسلام پر ان کے خلاف مسلح اقدام کریں۔ البتہ، ظلم و عدوان کے خلاف جہاد ایک عمومی فریضہ ہے۔
2. رسول اللہ ﷺ کے اتمام حجت کے بعد کفار سے تعلقات اور معاہدات کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے لیے کفار اور اہل کتاب سے دوستی کی ممانعت اس بائیکاٹ کے خاص پس منظر سے متعلق تھی۔ عام غیر مسلموں سے دوستی نہ کرنے کا کوئی عمومی حکم نہیں دیا گیا۔
3. مسلم اور غیر مسلم کی گواہی میں فرق بھی دورِ رسالت کا اختصاص تھا، اس کی وجہ بھی اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے ساتھ یہی بائیکاٹ تھا۔ اب یہ فرق ملحوظ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔
4. مسلم اور غیر مسلم میاں بیوی میں تفریق بھی اسی بائیکاٹ کا نیتجہ تھی۔ اس کو بھی کوئی عمومی حکم نہیں سمجھنا چاہیے۔
5. مسلم اور غیر مسلم ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے، اس تفریق کا سبب بھی یہی بائیکاٹ تھا۔ اسے عمومی حکم نہ سمجھا جائے۔
6. ارتداد کے جرم میں موت کی سزا شریعت کا حکم نہیں۔ ارتداد، درحقیقت کفر ہی تھا اور کفر کی سزا مشرکین کے لیے، سورہ توبہ میں مذکور حکم کے مطابق موت مقرر کی گئی تھی۔
یہ واضح رہنا چاہیے کہ آیتِ حجاب کی تفہیم میں قانونِ رسالت یا قانونِ اتمامِ حجت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، جیسا کہ بعض ناقدین نے سمجھا ہے۔ یہاں لسانی دلالت کی بحث ہے۔ بتایا گیا کہ چادر اوڑھنے کے حکم کی علت اوباشوں کا دفع ضرر ہے، جسے خود اللہ تعالی نے بیان کر دیا ہے۔ اس علت کی بنا پر اس حکم کو اسی صورت حال کے لیے مخصوص سمجھا جائے۔
غامدی صاحب کے ڈسکورس میں دین کے ان عام اور خاص احکام میں انتخاب الل ٹپ نہیں۔ احکام کی علتوں کی نوعیت، ان کی تعیین اور ان کے اطلاقات کی پوری سائنس ہے، جو غامدی صاحب نے اپنی کتابوں اور لیکچرز میں پیش کر دی ہے۔
یہ درست ہے کہ قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرنے سے متعلق عام قاری کو جب یہ باور کرایا جاتا ہے کہ قرآن اپنے قاری سے براہ راست مخاطب نہیں ہوتا، بلکہ اولین مخاطبین کی سرگزشت میں رہ کر خطاب کرتا ہے، تو کوہِ طور کی سیر کو نکلا سادہ لوح قاری کچھ دل شکنی سی محسوس کرتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خود کو قرآن کا براہ راست مخاطب سمجھنے کا زاویہ بعض اوقات بڑے غلط نتائج تک لے جاتا ہے۔ مثلاً :
"یا ایھا الذین امنوا" کے مخاطب مخلص صحابہ بھی تھے، کم زور اہل ایمان بھی اور منافقین بھی، جو ایمان کا دعوی کرتے تھے۔ ایک عام قاری اگر قرآن کی ایسی ہر ندا کا مخاطب خود کو سمجھ لے، تو اسے بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قرآن مجید رسول سے کہتا ہے کہ تم اپنے مخالفوں پر فتح یاب رہو گے، دین کو عرب میں غالب کرو گے، اُدھر صحابہ سے بھی فتح و نصرت اور خلافت ارضی دیے جانے کے وعدے کرتا ہے، اِدھر ایک عام مسلمان ان وعدوں کو خود سے منسوب کرتا ہے تو وہ فضائے بدر پیدا کر کے بے تیغ و سپر دشمنوں سے جا بھڑتا ہے، اس امید پر کہ گردُوں سے فرشتے اس کی نصرت کے لیے قطار اندر قطار آتے ہی ہوں گے، مگر جب ناکام ہوتا ہے، تو اسے سمجھ نہیں آتا کہ اپنے ایمان پر شک کرے یا خدا کے وعدوں پر۔
قرآن مجید میں خدا نبی سے کہتا ہے کہ آپؐ کی مشکلات کے بعد آسانی آنے والی ہے، اور یہ ضرور آئے گی، اور یہاں اپنے کاروباری مشکلات کے بعد آسانی کی امیدیں لگا لی جاتی ہیں۔
خدا اعلان کرتا ہے کہ حق ضرور غالب آ کر رہے گا، اور ادھر مسلمان عدالتوں سے اپنے مقدمات میں انصاف ملنے کی امید میں عمریں گزار دیتے ہیں، مگر ان کے حق کو فتح نہیں ملتی۔ پھر شکوہ اور جواب شکوہ کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
یہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ پیغمبر نے خدا کے حکم پر منکرین حق کو مباہلہ کا چیلنج دیا تو یہاں مسلمانوں نے بھی مباہلہ کے چیلنج دے دیے، مگر فریق مخالف پر خدا کا عذاب نشان حق بن کر نازل نہ ہوا۔
قرآن جو پیغام ایک پیغمبر کی سرگزشت کے حوالے سے دیتا ہے، جو نشانِ حق وہ قائم کرتا ہے، آخرت کی جواب دہی کا جو مسئلہ وہ سامنے رکھتا ہے، تزکیہ و تطہیر کا جو لائحہ عمل وہ پیش کرتا ہے، وہ سب نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور اپنی دنیا کے مسائل حل کرنے میں اپنی ناکامی کو قرآن اور اسلام پر تھوپ دیا جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے