ہوم << ادھورا پن - دعا عظیمی

ادھورا پن - دعا عظیمی

وہ اکثر راتوں میں اپنی قبر کھول کر نکل آتی ہے۔ اسے دفناتے دفناتے اس کی بہت سی توانائیاں خرچ ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ اس کی قبر دوبارہ کھودتا ہے تو خود کو تھکا ہوا پاتا ہے اور بےحال ہو جاتا ہے جیسے کوئی اپنے پیارے کو قبرستان میں دفن کر کے آئے۔۔مٹی ڈال کر واپس آئے تو اسے تنہائی چاہیے ہوتی ہے مگر اسے بھرا ہوا صحن ملتا ہے۔۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی زکر کرتا ہے اپنے جانے والے کا رسمی انداز سے۔۔۔ وہ اس حقیقت کو دوسروں کی نظر سے دیکھتا ہے اور حیران ہوتا ہے دوسروں کے لیے یہ بچھڑ جانے کی بات کتنی معمولی ہے وہ ان میں اور اپنے میں ایک عجیب سا فاصلہ محسوس کرتا ہے مگر وہ منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کرب کی ہوا کو بھی نہیں چھو سکتے جو اس کی ہستی کے ہرخچے اڑائے چل رہی ہے۔
وہ ہر شے کو نارمل لینے کی کوشش کرتا ہے۔۔ لوگ اسے یقین دلاتے ہیں کہ اس دنیا کا یہی اصول ہے۔ موت ہی زندگی کا مقدر ہے۔ وہ یقین کر لیتا ہے۔ وہ قبول کر لیتا ہے مگر اس کے جذباتی رخ کو کوئی اندر ہی اندر کند چھری سے ذبح کر رہا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے مرغیوں کا ذبح ہونا معمول کی بات ہے۔ زندگی اپنے ماتھے پر ذبح ہونے کا مقدر لے کر طلوع ہوئی ہے۔ ہر طلوع کا غروب ہے مگر وہ اپنے پیارے کے جسم کی خوشبو سے محروم ہو جانے کے دکھ کو بیان نہیں کر سکتا۔ اس کے اندر کا جذباتی روپ بالکل ایسے ہی تڑپتا ہے جیسے نیلے ڈبے میں مرغیاں مکمل ذبح ہونے سے پہلے تکبیر کے بعد پھڑپھڑاتی ہیں اور بھرے صحن والے ظالم ان مرغیوں کے قورمے سے لطف اندوز ہونے کے لیے بےچین ہیں یہ حلال ہے۔۔۔موت حلال ہے۔۔۔۔ موت حلال ہے مگر خودکشی حرام ہے مگر قتل حرام ہے اور آج اس نے اپنے اندر کی اس آرزو کو پچاسویں بار قتل کیا ہے۔۔۔ ہر قتل کے بعد وہ ایسے رویا ہے جیسے کوئی اپنے پیارے کو قتل کر کے رویا ہو ۔۔ قتل کر کے ہر بار اسے اطمینان ہوا ہے کہ اس نے جائز قتل کیا ہے۔۔ بھلا قتل بھی جائز ہوتے ہیں ہاں غیرت کی خاطر قتل جائز ہوتے ہیں اگر غیرت کے نام پر قتل جائز ہوتے ہیں تو وہ بدروح بن کر اس کا پیچھا کیوں کرتی ہے۔۔
کوئی اسے کہتا ہے وہ تمہارا خواب ہے بدروح کہیں نہیں ہے مگر وہ کبھی روح بن کر کبھی بدروح بن کر اس کا پیچھا کرتی ہے کبھی کبھی تو وہ باقاعدہ جسم اوڑھ کر نوجوان بن کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے جب وہ قتل کرنے کے لیے اس کا پیچھا کرتا ہے تو وہ الٹے پاؤں دیوار پر چڑھ کر غائب ہو جاتی ہے۔۔ مگر اس نے تو اپنے ہاتھوں سے اسے دفنا دیا تھا پھر یہ کہاں سے آ جاتی ہے۔۔۔؟
کل حسبِ معمول اس نے اس ادھورے مکان کو جھانک کر دیکھا ۔ یہ مکان اسے ہمیشہ اپنی جانب کھینچ لیتا تھا۔
چھت سے جو منظر نظر آتا تھا۔ ادھورا تھا۔ نامکمل ۔۔۔
کہانی اس کے یہاں بسنے سے پہلے کی ہے جو سنائی گئی تھی۔ یہاں ایک بیوہ رہتی تھی۔ اس کا بڑا بیٹا ڈاکٹر تھا۔ کسی نے اسے مار دیا تھا۔ بیماری نے؟
موت نے؟
حکم نے؟
جانے کس نے ؟
نیچے والا پورشن کسی طرح آدھا ادھورا بن چکا تھا ۔ پچھلا صحن کچا تھا۔ اس کی ایک دیوار کے ساتھ مرغیوں کا ڈربہ تھا۔۔
ناگہانی موت کے بعد ماں بستر سے لگ گئی تھی۔ بھائی حواس باختہ سا تھا۔۔ ادھورے منظر میں دور سے کچھ چوکھٹیں نظر آتی تھیں جن کے گرد اینٹوں کا سہاراتھا مگر کمروں کی دیواریں نہیں تھیں یا ادھوری تھیں۔ پچھلے صحن کے نچلے پورشن کے پچھواڑے پر ایک کپڑوں کی تار باندھی گئی تھی۔ جس پر کچھ کپڑے سوکھنے کے لیے ڈالے جاتے تھے۔ کپڑے اپنی ہئیت کے اعتبار سے میلے ملوٹے ہی لگتے تھے۔۔۔۔ ایک نوجوان جو ادھیڑ عمر تھا جو جانے ذہنی طور پر مکمل حواسوں میں تھا یا مخبوط الحواس شدید بے خط کالی داڑھی اور گنجل گنجل بال۔۔۔ وہ مرغیوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ دانہ دنکا ڈالتا تھا۔
ادھورے مناظر میں ایک آدھا آدمی پوری چال چلتے ہوئے زندگی کی پرچھائیں ہی محسوس ہوتا تھا۔ در و دیوار سے ٹپکتی وحشت بتاتی تھی کہ زندگی جامد ہے۔
ایک بار ان کے گھر جانا ہوا تو احساس ہوا دیواروں پہ لٹکی ساری گھڑیاں ساکت تھیں۔۔ ٹک ٹک سے محروم۔۔۔ خاموش۔۔۔ کہیں کہیں جالے لٹک رہے تھے۔۔۔کہیں اس کے اندر بھی ایسا ہی ادھورا پن تھا جیسا منظر آرزو کے قتل کے بعد اس کے من میں اترتا تھا ۔دو ادھورے منظر مل کر مکمل ہو جاتے ہیں مگر خالی چوکٹھیں بغیر دیواروں کے اسے ہر بار اپنی جانب کھینچ لیتی تھیں ۔۔ وہ سارے کام چھوڑ کر اس خلا کو پر کرنے ان میں داخل ہو جاتا تھا اس کی آرزو یہیں پھر سے زندہ ہو کر اس کے گلے لگ جاتی تھی۔ مخبوط الحواس مرغیوں کو دانہ ڈالنے آ آ کر رہا تھا۔ مرغیاں ادھر ادھر سے نکل کر ڈربے کی طرف بڑھنے لگی تھیں۔دو ادھورے منظر مل کر بھی پورے نہیں ہو پائے ۔ اس نے خود کو تسلی دی
ادھورے پن کا اپنا تیکھا نمکین گہرا مکمل حسن ہے۔

Comments

Avatar photo

دعا عظیمی

دعا عظیمی معروف ادیبہ ، افسانہ نگار ہیں۔ سماجی بہبود میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے کیا۔ علم نفسیات اور ادب کی طالبہ ہیں۔ تخیل کی بلند پروازی ان کی نثرِ لطیف کا خاصہ ہے۔ سماج کے درد کو کہانی میں پرونے کا فن جانتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی افسانوں کی پہلی کتاب فریم سے باہر ' شایع ہوئی جسے قارئین اور اہلِ ادب نے سراہا۔

Click here to post a comment