دنیا میں ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، امیر ہو یا غریب اپنی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور اس کامیابی کے حصول کے لئے اپنے اہداف طے کر کے اس کے مطابق اپنی امکانی حد تک لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے۔ پھر کوئی شارٹ کٹ سے اس ہدف تک پہنچنے کے لئے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرتا ہے اور کوئی آہستہ روی سے جائز راستے پر چلتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آخر وہ کامیابی کا معیار ہےکیا کہ جس تک پہنچ کر انسان کو اطمینان نصیب ہو سکے۔ جب ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی کا معیار کامیابی پیسے کا حصول ہے کسی کا عزت اور شہرت، کسی کا عشق و محبت میں کامیابی، کسی کا اعلی منصب اور جاہ و جلال کو پالینا، وغیرہ وغیرہ۔ کوئی امریکہ یا کسی یورپی ملک کے گرین کارڈ کے حصول کو کامیابی سمجھتا ہے لیکن کیا یہ سب حاصل کر لینے کے بعد انسان مطمئن ہوکر بیٹھ جاتا ہے؟ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بالکل بھی نہیں۔ جس چیز کو انسان نے کامیابی کا معیار سمجھ رکھا تھا اسکو حاصل کر کے پھر اسے کھونے سے ڈرنے لگتا ہے۔
جو پیسے کو کامیابی سمجھتا تھا اس کی ہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ وہ دن رات دولت کو بڑھانے کے منصوبے بناتا رہتا ہے اگر وہ لکھ پتیوں میں شمار ہوتا ہے تو کروڑ پتی بننا اسکا مقصد بن جاتا ہے اگر کروڑ پتی ہے تو پھر ارب پتی بننا چاہتا ہے۔ اسی طرح جو عزت و شہرت کا پجاری ہوتا ہے وہ اسی کے پیچھے بھاگ دوڑ کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح گرین کارڈ ہولڈر معاشی طور پر تو شاید خوش حال ہو جائے لیکن دل کا اطمینان اور سکون شاید کم ہی نصیب ہو اور پھر دنیا کے بدلتے ہوئے حالات سے یہ سب کچھ چھن جانے کا خوف اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔
انسان جس چیز کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنی ساری توانائیاں صرف کر کے جب اس تک پہنچتا ہے تو اسے یہ پتا چلتا ہے کہ نہیں یہ میری منزل نہیں بلکہ یہ تو نشان منزل ہے ابھی تو اور آگے جانا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ انسان جس کامیابی کے حصول کے لئے اپنی زندگی کھپا دیتا ہے وہ اس کے پاس کتنا عرصہ رہے گا کب تک وہ اس سے مستفید ہو سکے گا؟اس زندگی کے چند ماہ و سال اور بس؟ پھر اس کے بعد کیا؟
ایک شخص ساری زندگی اپنی توانائیاں اور محنت اپنی اولاد کے مستقبل کو سنوارنے کے پیچھے بھاگ دوڑ میں لگا کر یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اولاد سیٹ ہو جائے تو پھر میں کامیاب ہو جاوں گا اور سکون کی زندگی گزاروں گا لیکن جب وہ محنت و مشقت کی زندگی گزار کر بڑھاپے کی سٹیج تک پہنچتا ہے تو اکیلا رہ جاتا ہے کہ اولاد اپنے کام دھندوں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مصروف ہے اور ان کے پاس بوڑھے باپ کو دینے کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ جس ٹارگٹ کو حاصل کرنا اس نے اپنی کامیابی کا معیار طے کیا تھا وہ تو ایک سراب نکلا۔ اب سوائے پچھتاوے کے اور کوئی چارہ نہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات کا کلام قرآن مجید کس ٹارگٹ کو کامیابی قرار دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے "پس جو (اس روز) آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ کامیاب ہو گیا"۔ یعنی اصل کامیاب وہ ہے جو روز آخرت کامیاب ہوا۔ دنیا کی ہر ناکامی اور ہر کامیابی ہمیشہ کے لئے نہیں ہے دونوں صورتوں میں چند روزہ پریشانی یا آسانی ہے اور پھر اسکے بعد ابدالآباد کی زندگی جو اس زندگی کی کمائی کے نتیجے میں یا ہمیشگی کی آسانی کے ساتھ ہو گی اور یا پھر ہمیشہ کے لئے عذاب کے ساتھ۔
ہم میں سے ہر شخص یہ علم رکھتا ہے کہ یہ زندگی محدود ہے اور یہاں جو بھی ذی روح پیدا ہوتا ہے وہ گزرتے ہوئے ہر لمحے کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ لیکن ہم دنیا کی رنگینی میں اتنے مگن رہتے ہیں کہ موت کے بارے کبھی سوچتے بھی نہیں۔ نہ کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہم جیسے اس وقت ہوش و حواس میں ہیں عین اسی کیفیت میں عنقریب اپنے رب کے سامنے جوابدہی کے لئے کھڑے ہوں گے۔ اوراس دنیا کی زندگی کے شب و روز میں ہمیں اپنی اصل کامیابی کا کبھی خیال بھی نہیں آتا تو اس وقت اگر ہم ناکام لوگوں میں شامل ہو گئے تو پھر ہمارے پاس کیا راستہ ہو گا؟
ہم میں سے اکثر جھوٹی امیدوں اور تمناؤں کے سہارے اپنی عیش و مستی میں مگن ہیں۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم تو عاشق رسول ہیں عمل چاہے جیسے بھی ہیں اللہ بخش ہی دے گا۔ کسی کے لئے بس کلمہ گو ہونا ہی کافی ہے۔ کوئی اپنے آپ کو شفاعت رسول کا پکا حقدار سمجھے بیٹھا ہے۔ لیکن اپنے دل سے پوچھئیے کہ جس طرح ہم دنیا میں کامیاب ہونے کے لئے محنت و مشقت کرتے ہیں اسی طرح آخرت کے لئے کیا نسبت طے کر رکھی ہے جہاں کی زندگی کا اس محدود زندگی کے ساتھ کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔ اگر ہم دنیا میں کسی نالائق طالب علم جس نے کبھی کتاب کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اس کی امتحان میں کامیابی کو انصاف کے خلاف سمجھتے ہیں تو کیا معاذاللہ ہم اس خالق و مالک سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہمیں بغیر کچھ کئے جنت دے دے گا کیونکہ ہم آخری امت میں سے ہیں اس لئے لاڈلے اور چہیتے ہیں اب چاہے زندگی کے ہر گوشے میں اس کے احکام کو کوئی اہمیت نہ بھی دیں تو بھی ہم بخشے ہی ہوئے ہیں۔ تو کیا یہ مبنی بر انصاف ہو گا؟
قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ہے کہ کیا ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے ان لوگوں کے برابر تصور کئے جائیں گے جنہوں نے ساری زندگی اللہ اور رسول صل اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں گزاری۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ جس طرح دنیا میں کوئی کامیابی بغیر کوشش اور محنت کے حاصل نہیں ہوتی اسی طرح آخرت میں بھی کچھ کئے بنا کامیابی حاصل کرنا ہمارا اپنا غلط تصور تو ہوسکتا ہے لیکن یہ علمی اور عقلی طور پر کسی بھی طرح درست نہیں ہوگا۔ اس لئے ہمیں آج ہی سوچنا ہو گا اور آخرت کی تیاری کو آنے والے نئے سال کی پلاننگ میں بھی شامل کرنا ہو گا پھر ہی ہم اللہ کی رحمت کے امیدوار ہو سکیں گے لیکن اگر یہ چیز ہماری کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہی نہ ہو اور ہم اپنی طرف سے جنت میں الاٹمنٹ کروائے بیٹھے ہوں تو پھر یہ صرف ایک سراب ہی نکلے گا۔ اللہ ہمیں ہدایت کاملہ عطا فرمائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے