فکری بددیانتی اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی روایت نے ہمیشہ عظیم مفکرین کی میراث کو دھندلانے کی کوشش کی ہے ، حقیقت کی روشنی مگر خود سجائی دکھلا دیتی ہے۔
حال ہی میں ایک مضمون میں مارکسی مارکہ فکر ولی الہی کے نام پر سید مودودی کی فکر کو غلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صاحب مضمون کا یہ رویہ نہ صرف علمی دیانت داری کے منافی ہے بلکہ اسلامی فکر کی گہرائی کو بھی سمجھنے میں ناکامی کی علامت ہے۔ جس کسی نے بھی شاہ ولی اللہ اور سید مودودی کو پڑھا ہے، وہ ضرور حیران ہوگا کہ یہ خود ساختہ دعویدار کس طرح ان دونوں عظیم مفکرین کے ساتھ نہ علمی دیانت برتتے ہیں اور نہ ابلاغی انصاف۔
یہ لوگ کس بنیاد پر نظام مساوات کی بات کرتے ہیں، جبکہ ان کا طرزِ عمل خود عدل اور دیانت کے بنیادی انسانی اصولوں کے خلاف ہے۔ مضمون کے مصنف نے مولانا مودودی پر ایک بڑا الزام یہ عائد کیا کہ انہوں نے جاگیرداری اور سرمایہ داری کی حمایت کی۔ یہ دعویٰ سراسر غلط فہمی اور مولانا کے نظریات کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں بارہا جاگیرداری کے استحصالی نظام کو مسترد کیا اور اسلامی اصولوں کے مطابق زمین کی ملکیت کو استعمال اور محنت سے مشروط قرار دیا۔
تنقید نگار نے یہ الزام لگایا کہ مولانا نے اپنی کتاب "مسئلہ ملکیت زمین" لکھ کر جاگیرداری کی حمایت کی اور زمین کی اصلاحات کے خلاف موقف اپنایا۔ حالانکہ اگر تھوڑی تحقیق کی جاتی تو یہ معلوم ہوتا کہ مولانا نے ان مضامین کا آغاز 1938 کے لگ بھگ کیا تھا، اور یہ کتاب بعد میں جیل میں مرتب کی گئی۔ مولانا نے ان مضامین میں نہ صرف اشتراکی نظریات کو بے نقاب کیا، جو معاشرے کو مکمل حکومتی کنٹرول کے تحت استحصال کا شکار بناتے ہیں، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی آزادی پر بھی تنقید کی۔
مولانا مودودی نے لکھا:
"درحقیقت اسلامی نظریۂ تمدن و اجتماع سرے سے اس تخیل ہی کا مخالف ہے کہ زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار حکومت کی ملکیت ہوں اور پوری سوسائٹی اس مختصر سے حکمران گروہ کی غلام بن کر رہ جائے جو اِن ذرائع پر متصرف ہو۔ جن ہاتھوں میں فوج، پولیس، عدالت اور قانون سازی کی طاقتیں ہیں اُنھی ہاتھوں میں اگر سوداگری، کارخانہ داری اور زمین داری بھی سمٹ کر جمع ہوجائے تو اس سے ایک ایسا نظامِ زندگی پیدا ہوتا ہے جس سے بڑھ کر انسانیت کُش نظام آج تک شیطان ایجاد نہیں کرسکتا۔"
مولانا مودودی نے اسلام کا یہ اصول بیان کرکے کمیونزم اور سرمایہ داری دونوں نظاموں کی جڑ میں چھپی ہوئی ارتکاز دولت و اختیار کی ہوس پر کاری ضرب لگائی۔ تاریخ شاہد ہے کہ کمیونزم کے تحت سوویت یونین میں ریاستی کنٹرول کی وجہ سے معیشت تباہ ہوئی، اور 1991 میں نظام کا شیرازہ بکھر گیا۔ اسی طرح چین کے ماؤ زے تنگ کے "گریٹ لیپ فارورڈ" نے لاکھوں انسانوں کو قحط کا شکار کر دیا۔ دوسری طرف سرمایہ داری میں، دنیا کی 1 فیصد آبادی کے پاس 46 فیصد دولت مرتکز ہو چکی ہے، جبکہ کروڑوں افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔
مولانا مودودی نے مسئلہ ملکیت زمین میں انگریزوں کے پیدا کیے ہوئے جاگیرداری نظام کو غیر اسلامی اور استحصالی قرار دیا۔ ان کا موقف واضح تھا کہ ان زمینوں کی ملکیت کی حد بندی ہونی چاہیے اور زائد زمین کو منصفانہ طریقے سے غیرمالک کاشتکاروں کو منتقل کیا جانا چاہیے۔ مولانا کی یہ تجویز متوازن اور اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی کہ:
"ان سب [انگریز کی دی ہوئی جاگیروں]کے متعلق آج یہ تحقیق کرنا سخت مشکل ہے کہ کس کی ملکیت کس طرح شروع ہوئی، اور آیا وہ شرعاً جائز نوعیت کی تھی یا ناجائز نوعیت کی، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتنے بڑے بڑے رقبوں کی ملکیت سے، جن سب کا جائز ہونا بھی متحقق نہیں ہے، ہمارے نظامِ معیشت میں سخت ناہمواری پیدا ہوگئی ہے۔ اس حالت میں شرعاً یہ درست ہوگا کہ ایک عارضی تدبیر کے طور پر ملکیت کی ایک حد مقرر کر دی جائے، اور اس حد سے زائد جو رقبے لوگوں کے پاس ہوں انھیں ایک منصفانہ شرح سے خرید کر آگے غیرمالک کاشت کاروں کے ہاتھ منصفانہ شرح پر فروخت کر دیا جائے۔" مسئلہ ملکیت زمین
سید مودودی نے ایک نہایت معتدل اور حکمت پر مبنی تجویز دی، جس کے تحت زمین کی ملکیت کی ایک عارضی حد مقرر کرنے کا اصول پیش کیا گیا۔ اس تجویز کے مطابق زائد زمین کو منصفانہ شرح پر خرید کر ان غیرمالک کاشتکاروں کے حوالے کیا جائے، جو اس زمین پر خود کاشتکاری کریں۔ یہ تجویز نہ صرف معاشی ناہمواری کو ختم کرنے کی کوشش ہے بلکہ اسلامی عدل و انصاف کے اصولوں کے عین مطابق بھی ہے۔
یہ واضح ہے کہ تنقید نگار نے مولانا کے اس موقف کو یا تو سمجھنے کی کوشش نہیں کی یا پھر دانستہ طور پر اسے مسخ کر کے پیش کیا۔ ان کے الزامات کہ مولانا جاگیروں پر حد بندی کے قائل نہیں تھے، سراسر بے بنیاد اور حقیقت کے برعکس ہیں۔ مزید برآں، یہ طرفہ تماشا ہے کہ یہی نیم ملا اور نیم اشتراکی لوگ، جو خود کو فکر ولی الہی کے علمبردار قرار دیتے ہیں، عملی طور پر ممتاز دولتانہ جیسے جاگیرداروں کی سرپرستی کو ترستے نظر آتے ہیں۔ یہ رویہ ان کی فکری دیانتداری اور عدل کے اصولوں سے دوری کو واضح کرتا ہے۔
یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ شاہ ولی اللہ جیسے عظیم مفکر کی فکر کو بھی اشتراکی تعبیرات کے پردے میں توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی شاہکار تصنیف "حجۃ اللہ البالغہ" میں عدل اجتماعی اور ارتفاقات کے وہ جامع اصول پیش کیے ہیں جو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک منصفانہ اور متوازن نظام زندگی کے قیام کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ ان کی فکر اسلامی نظام حیات کی روح کو واضح کرتی ہے، جہاں عدل و انصاف نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی سطح پر بھی اہم ستون ہیں۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نے "ارتفاقات" اور "عدل اجتماعی" جیسے تصورات کے ذریعے انسانی سماج کے ارتقا اور توازن کو بیان کیا۔ لیکن بعد میں، کچھ مفکرین جیسے مولانا عبید اللہ سندھی نے ان کے ان تصورات کو اشتراکی نظریات کے قریب کرنے کی کوشش کی، جو حقیقت سے دور اور ان کی اصل فکر کے منافی ہے۔ شاہ ولی اللہ کے نزدیک عدل اجتماعی کا مطلب طبقاتی جدوجہد نہیں، بلکہ ایک ایسا نظام تھا جو اسلامی اصولوں کے مطابق معاشرتی توازن کو یقینی بنائے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ شاہ ولی اللہ نے اسلام کو ہمیشہ ایک مکمل نظامِ زندگی کے طور پر پیش کیا، نہ کہ کسی وقتی یا سیاسی ایجنڈے کے لیے۔ ان کی فکر کی جامعیت کو کسی خاص مادیت پسند نظریے کے ساتھ جوڑنا ان کے فکری میراث کے ساتھ ناانصافی ہے۔
سید مودودی اور شاہ ولی اللہ کی حقیقی فکر ہمارے لیے ایک روشن مینار ہے۔ ان کی تحریریں اسلامی نظام زندگی کے دفاع میں مضبوط دلائل فراہم کرتی ہیں اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے جامع رہنمائی پیش کرتی ہیں۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم ان مفکرین کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کریں، تاکہ موجودہ فکری چیلنجز کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔ شاہ ولی اللہ کی فکر پر ایک تفصیلی مضمون، ان شاء اللہ، جلد قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا
تبصرہ لکھیے