ہوم << پیغمبروں کی سرزمین - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

پیغمبروں کی سرزمین - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

ہم جیسے ہی دبئی ائیرپورٹ کے اس دور افتادہ حصے میں پہنچے جہاں سے تل ابیب کے لئے پرواز جانے والی تھی تو نہ جانے کیوں مجھے یہ محسوس ہوا کہ جیسے یہ گوشہ اسرائیل کا حصہ ہو
وہاں کی سیکورٹی کے اور دیگر خاص انتظامات کو دیکھ کر اور نوجوان اسرائیلی جوڑوں کے فاتحانہ
طور و اطوار اور کھلے عام بوس وکنار سے یہ تاثر اور گہرا ہونے لگا
وہاں پہنچے ابھی چند لمحے بھی نہ گزرے ہوں گے کہ مجھے گھٹن کا سا احساس ہونے لگا
یوں تو آجکل سارا مشرق وسطی ہی اسرائیل کی چراگاہ بن چکا ہے لیکن دبئی میں خاص طور پر اسرائیلی باشندوں کی جو پذیرائی دیکھنے میں ملتی ہے جس طرح کے خاص انتظامات ان کے لئے کئے جاتے ہیں چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا
دبئی سے تل ابیب جانے والی تمام پروازیں خواہ وہ امارات کی ہوں یا فلائی دبئی کی اسی گیٹ سے جاتی ہیں
اس لئے یہاں اسرائیلی باشندوں کا راج نظر آتا ہے وہ جو جی چاہے کریں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ماسک پہننے کی بھی کوئی پابندی نہیں تھی
ابھی ہمیں وہاں پہنچے تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ تل ابیب سے حمزہ کا فون آگیا وہ بہت خوش اور پرجوش نظر آرہا تھا
اس نے چھوٹتے ہی یہ خوش خبری سنائی کہ آخر پانچ گھنٹے کی کڑی تفشیش اور جانچ پڑتال کے بعد اسے اسرائیل داخلے کا پروانہ مل گیا ہے
“ ابو مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں یروشلم جا رہا ہوں - جب انہوں نے ہمارے گروپ انچارج اور دیگر دو افراد کو ویزا دینے سے انکار کیا اور انہیں فوراً ملک چھوڑنے کا کہا تو میں بھی ذہنی طور پر واپس دبئی جانے کے لئے تیار ہو گیا تھا اور بلکہ میں نے تو مصر جانے کا پروگرام بھی بنا لیا تھا لیکن ابھی ایک اسرائیلی ویزا آفیسر نے آ کر میرا پاسپورٹ اور ویزا میرے حوالے کیا ہے اب میں ائیرپورٹ سے باہر یروشلم جانے کے لئے بس کا انتظار کر کر رہا ہوں “
وہ بہت پرجوش لہجے میں بتا رہا تھا وہ صبح نو بجے گروپ کے دیگر ارکان کے ساتھ تل ابیب پہنچ گیا تھا اور پچھلے پانچ چھ گھنٹے سے اسرائیلی امیگریشن کا سامنا کر رہاتھا لیکن اس کے لہجے کی تازگی اور بشاشگی سے ذرا بھی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنے مشکل حالات سے گذرا ہے
خود مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کیونکہ زیادہ امکان یہی تھا اور میں ذہنی طور پر اس کے لئے تیار بھی تھا کہ اس کا ویزا مسترد ہو جائے گا
چند سال پہلے جب وہ ایمسٹرڈیم یونیورسٹی ہالینڈ میں پڑھتا تھا تو اس نے ایک دفعہ ایمسٹرڈیم کے سب سے بڑے synagogue کنییسہ میں ہونے والی ایک یہودی نمائش میں جانے کی کوشش کی تھی تو اسے بارہ گھنٹے حراست میں رکھ کر بڑی کڑی تفشیش کی گئی تھی
پھر تین سال پہلے وہ اردن کے قاصد عربک انسٹیٹوٹ میں عربی سیکھنے کے لئے گیا تو وہاں بھی اس نے اردن کے راستے اسرائیل داخلے کی کوشش کی تھی لیکن اس کا ویزا مسترد کر دیا گیا تھا
‎یوں تو وہ ساری دنیا گھوم چکا تھا لیکن
‎القدس اور فلسطین کی سیر اس کی زندگی کی بڑی خواہشات میں سے ایک تھی
اسی لئے اس دفعہ اس نےہر ممکن تیاری کی تھی اپنے سارے سوشل اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دئیے تھے اور آن لائن اس کی جتنے مقالے مضامین اور تحاریر اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف موجود تھیں وہ بھی حذف کر دی تھیں اور کوشش کی تھی کہ گروپ کے باقی افراد کے ساتھ تل ابیب پہنچے تاکہ گروپ کی موجودگی کا فائدہ اٹھا سکے
لیکن اس سب کے باوجود ہم زیادہ خوش گمان نہیں تھے اور زیادہ امکان یہی تھا کہ اس کے پچھلے ریکارڈ کی بناء پر اس کا ویزا مسترد ہو جائے گا
حمزہ کی اس مسرت بھری کال نے بلال پر بھی بڑا خوش گوار اثر ڈالا جو ساری رات جہاز میں اور پچھلے دس گھنٹوں سے دبئی ائیرپورٹ کے ہوٹل میں اپنی یونیورسٹی کی اسائینمٹ assignment تیار کرتا رہاتھا جو اسے کل جمع کروانی تھی اور صرف چند گھنٹے ہی سویا تھا
اب بہت تھکا تھکا اور پژمردہ نظر آرہا تھا لیکن حمزہ کی زبانی یہ خوش خبری سن کر وہ ایک دم سے ہشاش بشاش نظر آنے لگا
کچھ ہی دیر کے بعد جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا تو ہم ایک بار پھر کڑی تلاشی اور پوچھ گچھ کے بعد تل ابیب جانے کے لئے جہاز میں سوار ہو گئے
جہاز میں سوار ہونے والے زیادہ تر مسافروں کی تعداد ان نوجوان اسرائیلی جوڑوں پر مشتمل تھی جو بیرون ملک سیر و تفریح کے لئے گئے تھے اور اب واپس اسرائیل جا رہے تھے
صرف چند ہی لوگ ایسے تھے جو اپنے لباس اور طور طریقوں سے عرب یا فلسطینی مسلمان نظر آتے تھے دو تین خواتین نے حجاب بھی پہن رکھا تھا
تقریباً تمام ہی اسرائیلی نوجوان انتہائی نامناسب لباس میں ملبوس تھے چار پانچ نوجوانوں نے تو صرف نیکر پہن رکھی تھی اور ٹی شرٹ یا تو نیکر کی جیب میں ٹھونس رکھی تھی یا کندھے پر رومال کی طرح دھری تھی
یہی حال لڑکیوں کا تھا اکثر نے لباس کے نام پر ایک چھوٹی سی سکرٹ یا نیکر پہنی تھی اور جسم کے بالائی حصے اور سینے کو ایک رومال نما کپڑے کی دھجی سے ڈھانپ رکھا تھا
کسی ایک نے بھی ماسک نہیں پہن ہوا تھا اور وہ فضائی میزبان جنہوں نے ہمیں اپنے برسبین سے دبئی تک کے چودہ گھنٹوں کے سفر کے دوران ایک لمحے کے لئے ماسک اتارنے کی اجازت نہیں دی تھی یہاں مکمل طور پر بے بس نظر آتے تھے
جہاز کی بہت سی سیٹیں خالی تھیں ان اسرائیلی نوجوانوں نے جہاز چلنے سے پہلے ہی فوراً ان پر قبضہ کر لیا اور جوڑوں کی صورت میں وہاں لیٹ گئے اور بو س وکنار میں مشغول ہو گئے
میں ستائیس اٹھائیس سال سے بیرون ملک میں مقیم ہوں اور سال
میں کئی بار بین الاقوامی سفر کرتا ہوں میں نے زندگی میں پہلے کبھی دوران پرواز ایسا ماحول اور مناظر نہیں دیکھے تھے
میری اور بلال کی سیٹ اکٹھی نہیں تھی وہ کافی پیچھے ایک اسرائیلی جوڑے کے ساتھ بیٹھا تھا
مجھے کھڑکی والی نشست ملی
ابھی میں ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں پایا تھا کہ ایک بہت موٹا گورا جس کے طول و عرض میں بڑی مسابقت تھی ہیلو کہہ کر میری پہلو والی نشت پر بیٹھ گیا وہ اتنا موٹا تھا کہ اڑھائی نشستوں پر وہ اور آدھی نشست پر میں بیٹھا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا بایاں پہلو نشستوں سے باہر کاریڈور تک پھیلا ہوا تھا اور گذرنے والوں کو خاصی دقّت ہو رہی تھی لیکن وہ تھا بہت خوش اخلاق
“ مائیک ! اس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے مصافحہ کیا میں امریکہ میں رہتا ہوں لیکن تل ابیب میں کام کرتا ہوں “
پھر اس نے معذرت کی کہ اس کی وجہ سے مجھے دقّت ہو رہی ہے ۔
اتنے میں جہاز نے رن وے پر رینگنا شروع کر دیا اور وہ میرے تعارف کو سنا ان سنا کر کے میری طرف سے بے خبر ہو کر اونگھنے لگا ۔
اور جلد ہی جہاز اس کے اونچے اونچے خراٹوں سے گونجنے لگا ۔ لگتا تھا جیسے وہ برسوں سے نہ سویاہو ۔ اس کے آنکھیں موندتے ہی میں نےاپنے حصے کی آدھی نشست پر قبضہ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن کوئی بس نہ چلا ۔ ہر کوشش اس کے دیو ہیکل بدن کے سامنے ناکام ہوگئی تو بے بسی سے اپنی قسمت کو کوستا ہوا کھڑکی کے باہر جھانکنے لگا
فضائی میزبان کھانا لے کر آئی لیکن اس نے انکار کر دیا
میں نے یہ پہلا موٹا انسان دیکھا تھا جس نے کھانے کو انکار کیا تھا
طیارہ سعودی عرب میں داخل ہوا اور سعودی عرب پر سے گزرتاہوا بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے شمال مغربی صحرائی علاقے پر سے اڑتا اردن میں داخل ہو گیا۔ سعودی عرب کے اس علاقے کو آج کل تبوک کا علاقہ کہتے ہیں ۔ اور اسی صوبے میں بحیرہ احمر کے کنارے سعودی عرب اپنا پانچ سو ارب ڈالر کا شہر
“ نیوم - Neom “ بسانے جا رہاہے یہ شہر مصر ، اسرائیل ، اردن اور سعودی عرب کے درمیان بسایا جائے گا -
یہ علاقہ زمانہ قدیم میں مدین کہلاتا تھا اور یہاں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم آباد تھی ‎ اور یہاں حضرت شعیب علیہ السلام کی بستی کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک قبطی کو قتل کرنے کے بعد بازپرس کے ڈر سے مصر سے نکلے تو اللّٰہ کے حکم سے اس طرف آ نکلے جہاں ان کی ملاقات حضرت شعیب علیہ السلام کی دو لڑکیوں سے ہوئی آپ نے ان کی مدد کی اور ان کے جانوروں کو پانی پلایا انہی دونوں لڑکیوں میں سے بڑی لڑکی صفورا سے ان کی شادی ہوئی اور دس سال تک وہ اس علاقے میں مقیم رہے
‎اکثر تاریخ دان اس پر متفق ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے ساتھ مصر سے فلسطین کے لئے ہجرت کی اور فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو انہوں نے یہودی قوم کے ساتھ اسی علاقے سے بحیرہ احمر کو پار کیا تھا اور مدین کے علاقے میں قیام کیا پھر فلسطین کی طرف سفر جاری رکھا اور یہیں اسی علاقے میں اردن کے اندر جبل نیبو
Mount Nebo
بھی واقع ہے جو جہاں یہودی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ دفن ہیں اور اسی پہاڑ کی چوٹی سے اللّٰہ نے حضرت موسیٰ کو فلسطین کی جھلک دکھائی تھی۔
‎میں انہی خیالات میں مگن تھا کہ کیپٹن
نے لینڈنگ کا اعلان کر دیا اس وقت طیارہ تبوک کے اوپر پرواز کر رہا تھا اور جہاز کی اونچائی کم ہونے لگی اسی اثناء میں جہاز اردن میں داخل ہو گیا
اردن میں داخل ہونے بعد جب طیارہ عمان پر سے گذرا تو اس کی اونچائی تین چار ہزار فٹ پر آ چکی تھی نیچے دور دور تک عمان کا شہر پھیلا نظر آ رہا تھااور دائیں جانب گولان کی پہاڑیاں نظر آرہی تھیں اور بائیں جانب دریائے اردن اور بحیرہ مردار کا پانی چمک رہا تھا
پھر طیارہ یروشلم پر سے گذرا نیچے ایک طرف قبة الصخرہ کا سنہری گنبد چمکتا نظر آیا۔ اور دوسری طرف کالے رنگ کے گنبد والی مسجد اقصٰی تھی
اردن اور اسرائیل کے ممالک اتنے چھوٹے ہیں کہ طیارہ لینڈ کرتے کرتے بھی ان پر سے گذر کر بحیرہ روم پر پہنچ گیا
بحیرہ روم پر پہنچ کر طیارہ واپس مڑا اور تل ابیب کے اوپر سے گذرتا ہوا لد کے بن گوریان ائیر پورٹ پر اترنے لگا
میں کھڑکی سے جڑا بیٹھا اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ ناقابل فراموش لمحے اپنے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ کرتا رہا کہ
کہ مجھے کھڑکی والی نشست ملی تھی ورنہ گوشت کے اس لحیم وشحیم پہاڑ کے اوپر سے ان خوبصورت نظاروں کو دیکھنا ناممکن ہوجاتا
طیارہ تل ابیب ائیر پورٹ پر اترا اور رینگتا ہوا ٹرمینل کی طرف جانے لگا
دائیں طرف ال ایل El Al کے بہت سے طیارے لائن میں کھڑے تھے
ال ایل El Al اسرائیل کی سرکاری فضائی کمپنی ہے اس سے پہلے میں نے یہ طیارے صرف تصویروں میں دیکھے تھے مجھے لیلیٰ خالد کی وہ تصویر یاد آگئی جس میں وہ ایک ایسے ہی طیارے کی سٹرھیوں پر فتح کا نشان بنائے کھڑی تھی
‎جسے اس نے ۱۹۷۰ء میں ہائی جیک کیا تھا
‎میری نسل کے وہ لوگ جو ستر اور اسی کی دہائی میں جوان ہوئے ان کے لئے لیلیٰ خالد ایک ہیروکی حثیت رکھتی تھی اور دنیا بھر کے مسلم نوجوانوں کے لئے آزادی ، جرآت اور ہمت کی علامت تھی اور اس نسل میں سے شائد ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جسے لیلیٰ خالد کی یہ تصویر یاد نہ ہو
طیارہ ٹرمینل سے لگا اور لوگ اترنے کی تیاری کرنے لگے تو میں نے اپنے ساتھی مسافر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے جگایا اس کے خراٹے اک دم رک گئے اور وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا اور جب اسے احساس ہوا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں تو اس نے شگفتہ لہجے میں ایک بار پھر معذرت کی وہ نشستوں کے درمیان بری طرح پھنسا بیٹھا تھا
بڑی مشکل سے نشستوں سے اٹھ کھڑا ہوا اور گھسٹتا ہوا باہر نکل آیا
اب کاریڈور ایک دم اس کے وجود سے بھر گیا تھا
سیڑھیاں دروازے سے لگیں اور مسافر اترنا شروع ہوئے
موٹے مائیک نے اپنا سامان اوپری ریک سے نکالا اور کندھے پر اٹھا کر چلنا شروع کیا ‎تو اس کے پیچھے مسافروں کی ایک لائین سی لگ گئی جو جہاز سے اترنے کے لئے بیتاب تھے لیکن جیسے موت کا ایک وقت معین ہے اسی طرح مائیک کے جہاز سے اترنے کا وقت بھی طے تھا
‎ آگے جانے کا کوئی رستہ نہ پا کر چند لا ابالی نوجوانوں نے اس پر آوازے کسنے شروع کر دئیے لیکن وہ ہر چیز سے بے نیاز ڈگمگاتا ،جھومتا ، رینگتا ، ہانپتا اور معذرت کرتا جہاز سے باہر نکل گیا
میں بلال کے انتظار میں رک گیا تھا جو جہاز کے عقبی حصے میں بیٹھا تھا
اور جب ہم جہاز سے اتر کر ہال میں داخل ہوئے تو وہ ہمیں پھر کہیں نظر نہ
آیا
بن گوریان ائیرپورٹ جسے تل ابیب ائیرپورٹ بھی کہتے ہیں لد Lod شہر میں واقع ہے
لد وہی شہر ہے جہاں احادیث کے مطابق دجال بھاگ کرپناہ لے گا اور حضرت عیسیٰ جو دجال کے تعاقب میں ہوں گے وہ اسے یہاں آ لیں گے اور اسے قتل کر کے اس کی لاش باب لد کے کنوئیں میں لٹکا دیں گے۔
(یہ مضمون میری کتاب “اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے )

Comments

Click here to post a comment