گزارش ہے کہ یہ کتاب کئی اعتبار سے اہم ہے۔ ایک تو یہ اردو میں بیک وقت نئے راستے کی تعمیر اور اس پر پہلگامی ہے۔ اپنے علمی طریقۂ کار میں ثقہ ہے۔
جدید سرمایہ داری نظام کے گھڑیال صفت بطون سے اپنے مقسوم کا نوالہ نکال لانا خوش نصیبی، اور اپنے نوالے سمیت بہتوں کے نوالے سمیٹ لانا کامیابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کامیابی اس نظام کی کبریت احمر ہے۔ اس نظام کے مدار میں شامل ہر فرد بشر کی گردش حیات کا مقصود اسی کی تلاش ہے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ سارے ”رزق کا مالک“ تو اب سرمایہ داری نظام ہی ہے، جسے کبھی اقبالؒ نے ”ملک الموت“ کے طور پر دیکھا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آدمی کس چیز کا مالک ہے؟ اس نظام کے روبرو انسان بس اپنی قسمت کا مالک ہے۔ کامیابی کی دراز نفسی نے جو مابعدالطبیعیات پیدا کی ہے اس کا بنیادی نکتہ یہی ہے۔ سرمایہ داری نظام نے سارے ”رزق کا مالک“ بن کر انسان کو اپنی ”قسمت کا مالک“ کیوں بنایا، ذرا دیکھیے:
”انسان کو اپنی ناکامی اور بدحالی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے نظریے کا ایک نتیجہ تو یہ ہو گا کہ ناکام اور بدحال شخص خود اپنی نظروں میں گر جائے گا، جس کے نتائج فرد کے لیے مضر ہیں۔ لیکن اس کی ایک دوسری جہت بھی ہے جس میں اس کی اعلیٰ انسانی آئیڈیلز سے تہی دستی کھل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ وہ یہ کہ ہر کوئی کامیابی اور ناکامی، خوشحالی اور بدحالی کا خود ذمہ دار ہے تو پھر کسی غریب سے ہمدردی کی کوئی وجہ ہی باقی نہیں بچتی۔ کیونکہ اگر وہ غریب ہے تو اس کا اپنا قصور ہے۔ اس سے ہمدردی کاہے کی؟“ (ص ۳۸)
”قسمت کے مالک“ ہونے کا نظریہ انسان کو نفسی طور پر غیرمستحکم رکھتا ہے، اور دوسرے انسانوں سے اخلاقی اور سماجی یک جہتی کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ جدید آدمی کا دھیان کبھی اس طرف نہیں جاتا کہ وہ تو اپنے رزق کا مالک بھی نہیں، کجا یہ کہ قسمت اس کی ملک یمین ہو۔
دراصل انفرادیت پسندی، آزادی، یکساں مواقع، محنت کی عظمت اور کامیابی کی پرستش اور غریبی کو جرم بنا دینا سرمایہ داری نظام کی بہت ہی بڑی فتح ہے۔ نظام کے وسائل میں چالاکی، ہیرپھیر اور ساز باز سے آگے بڑھنے والوں کو ماڈل اور آئیڈیل کے طور پر پیش کرنا اور پچھڑنے والوں کو ہی مجرم اور قابل تعزیر قرار دینے سے سرمایہ داری نظام کا اہم مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اور وہ مقصد یہ ہے کہ نظام ہونے کی حد تک یہ بے عیب اور مکمل ہے، اور اگر کوئی ناکام ہوتا ہے تو وہ خود ذمہ دار ہے، نظام کا کوئی قصور نہیں۔ لوگوں کی اکثریت کی محرومی نظام کی خرابی نہیں ہے، ناکام رہ جانے والے انسانوں کی اپنی خرابی اور عیب ہے۔ کامیابی کے لٹریچر اور اس کے واعظین اس لیے ہیں کہ لوگ خود کو اس نظام کی ترجیحات کے مطابق بنانے کی کوشش کریں تاکہ انہیں کامیابی حاصل ہو سکے۔ اگر وہ نہیں بن سکتے تو ازسر نو کوشش کریں۔ جدید آدمی بچارہ اپنی قسمت کے پیچ کھولتا کستا رہتا ہے اور اس کا دھیان کبھی نظام کی طرف نہیں جاتا۔ اس طرح کامیابی کا لٹریچر، عوام کی سیاسی انتظام کاری کا ایک اہم جزو بھی ہے۔
کامیابی کے لٹریچر میں ”سوچ کی تبدیلی“ پر زور بلاوجہ نہیں۔ سرمایہ داری نظام کے لیے اپنے عمل اور واقعیت کو تبدیل کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ ایسی انسانی سوچ جو تبدیلی کی متمنی اور متقاضی ہو، تبدیلی کے امکانات پر غور کی طرف مائل ہو، اور بالآخر نظام کی طرف منعطف ہو جائے، وہ سوچ سیاسی مضمرات کی حامل بن جاتی ہے۔ اگر ایسی سوچ کو انسان کے داخل ہی میں delegitimize کر دیا جائے، اور خود اسی سے تبدیلی کا مطالبہ شدت سے سامنے لایا جائے تو سیاسی انتظام کاری کے اگلے مراحل آسان ہو جاتے ہیں۔ مصنف نے سوچ کی تبدیلی کے انسانی اور نفسی مضمرات اور نتائج کا بہت اچھا تجزیہ پیش کیا ہے جو ہمارے تناظر میں رہتے ہوئے اخلاقی اور مذہبی حوالوں سے نہایت وقیع ہے۔
لیکن جدید انسان پر سرمایہ داری نظام کا اصل شبخون امید کی manipulation میں سامنے آتا ہے۔ کامیابی کا لٹریچر اس کی بہت اچھی تصویر پیش کرتا ہے اور مصنف نے بھی اس پر پہلو پر خاص توجہ دی ہے۔ ہمارے لیے یہ پہلو ایمانی اور اخلاقی اعتبار سے اہم ہے۔ امید تاریخ کو ”نہیں“ اور ماورا کو ”ہاں“ کہنے سے ثمرآور ہوتی ہے۔ امید کا منبع تاریخ نہیں، ماورائے تاریخ ہے۔ امید انسان کی بقا کی قوت ہے اور تاریخ و تقدیر فنا کی قوت ہے۔ تاریخ کی سنگلاخ سرزمین میں امید کی جڑ نہیں لگ سکتی۔ امید کی جڑ کہیں اور ہے اور انسان کو تاریخ سے نبرد آزما کرنے کی واحد قوت ہے۔ امید کے بغیر ایمان اور عقیدے کی طرح نظریے کا بھی کوئی معنی نہیں ہے، اور امید کا خاتمہ دراصل انسان ہی کا خاتمہ ہے۔ آندرے مالرو نے کیا خوب کہا تھا کہ عصری تاریخ میں امید مر جاتی ہے، لیکن اسے خود سے بار بار پیدا کرو ورنہ سیاسی عمل ممکن نہ رہے گا۔ لیکن امید تو وجودی طلب ہے، اسے ذہنی مفروضہ نہیں بنایا جا سکتا۔ کامیابی کا لٹریچر جس طرح سوچ کی منیجمنٹ کرتے کرتے انسانی ذہن کو کچرے کا ڈھیر بنا دیتا ہے، اس طرح امید کی ہیرپھیر کرتے کرتے نفس انسانی کو بھی ملبہ بنا دیتا ہے۔ ان احوال میں انسان کا کسی اخلاقیات، ایمانیات یا کسی بھی نظریے سے جڑے رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ امید کی عدم فراہمی میں انسان کے پاس یا تو مشین بننے کی آپشن رہ جاتی ہے یا حیوان بننا اس کا ”فطری“ آدرش بن جاتا ہے۔ جدید سرمایہ داری نظام جس طرح فطرت کے وسائل کو اپنا ایندھن بناتا ہے، بعینہٖ وہ انسانی وجود کے تمام فطری وسائل کو بھی ہڑپ کر جاتا ہے۔ کامیابی کا لٹریچر اس کی ایک اچھی مثال ہے جسے مصنف نے بہت عمدگی سے واضح کیا ہے۔
جناب عاطف حسین کی کتاب ”کامیابی کا مغالطہ“ ایمل مطبوعات اسلام آباد نے شائع کی ہے۔ اپنے لے آؤٹ اور ڈیزائین میں بھی یہ ایک طرح نو کا آغاز ہے۔
کامیابی اور سرمایہ داری نظام - محمد دین جوہر

کتاب کے موضوع اور مشمولات کو ایک بڑے تناظر میں جَڑ نے کا جوہری والا یہ کام جوہر صاحب ہی کو زیبا تھا۔ واہ، کس خوش سلیقگی سے ان مباحث کو ایک بہت بڑا فکری افق فراہم کرتے ہوئے اس پورے کام کو کہیں آگے بڑھا دیا ۔ ویلیو ایڈیشن۔