ہوم << شام و فلسطین اور مشرق وسطی - احمد الیاس

شام و فلسطین اور مشرق وسطی - احمد الیاس

پاکستان میں جو لوگ شام یا فلسطین کے پانچ پانچ شہروں کے نام نہیں بتا سکتے، ان ملکوں کے ہمسایوں کی نشاندہی نہیں کرسکتے، ان ملکوں کی جدید تاریخ کے پانچ پانچ اہم واقعات نہیں گنوا سکتے، ان ملکوں کا نقشہ بھی کبھی غور سے نہیں دیکھا اور ان کی آبادی کے اعداد و شمار سے بھی یکسر ناواقف ہیں، جنہیں ان ملکوں کے عربی نام اور تلفظ کا بھی درست علم نہیں ہے وہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ اُس خطے کی سیاست کو اور وہاں بسنے والے سنّی مسلمانوں کے مفاد کو شہید اسماعیل اور ان کی مزاحمتی جماعت سے بہتر سمجھتے ہیں۔

1. شہید اسماعیل کی جماعت دراصل عرب دنیا کی سنّی اسلام پسند تحریک اخوان المسلمین کی شاخ ہے۔ اخوان سوریا کے تنازعے میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف کھڑے تھے، بلکہ سب سے بڑا اپوزیشن گروپ ہی سوریا میں اخوان رہے ہیں۔ بشار الاسد اور اس کے باپ حافظ الاسد نے اخوان پر بڑے ظلم کیے ہیں۔ جب سوریا میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس مسئلے پر ایران اور اس کی لُبنانی پراکسی ایک طرف تھے تو اخوان اور شہید اسماعیل کی جماعت دوسری طرف ۔۔۔ ان کا اس معاملے پر اصولی اختلاف تھا اور آج تک ہے۔

اس اختلاف کے باوجود جب مصر میں اخوان المسلمین کے شہید محمد مرسی کی منتخب حکومت بنی تو اس حکومت نے ایران کے ساتھ تعلقات بڑھائے، تعاون کیا اور ایران کو نہر سویز کے استعمال کے سلسلے میں خصوصی رعایات دیں۔ اس سے قبل مصر کا ایران کے خلاف سعودی عرب سے جو اتحاد تھا، وہ ختم کردیا گیا۔

سوریا کا مسئلہ حل کروانے کے لیے بھی شہید مرسی نے ایران سے اور لُبنان میں ایرانی حمایت یافتہ گروپ سے بات چیت شروع کی اور خانہ جنگی کے فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی۔

مرسی کے ان اقدامات سے سے سعودی عرب، اسرائیل، امریکہ کو ظاہر ہے خاصی تکلیف ہوئی۔ شہید مرسی کی حکومت ختم کیے جانے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔

لُبنانی اسلامی مزاحمت، فلسطینی مزاحمت، اخوان المسلمین اور ایران کا تعاون فلسطین کی آزادی کے حوالے سے ہمیشہ جاری رہا۔ سوریا کے مسئلے کو اس حوالے سے مستقل دوری یا لڑائی کی بنیاد نہیں بننے دیا گیا۔

ترکیہ اور قطر جیسے سنّی ممالک جو شہید اسماعیل کی جماعت سمیت سنّی اسلام پسندوں کو پورے عالمِ عرب میں سپورٹ کرتے ہیں، سوریا کے مسئلے پر ایران اور حزب سے بالکل الٹ موقف رکھتے تھے لیکن وہ اس اختلاف کے سبب منہ پھلا کر، رُس کر بیٹھ نہیں گئے۔ ایرانی یا لُبنانی شیعہ لیڈروں کا "سُنیوں کا دشمن" قرار دے کر تعلق نہیں توڑ دیا۔

امارتِ قطر جیسی ٹھیٹھ سنّی بلکہ سلفی ریاست جس کا الجزیرہ نیٹ ورک عرب و اسلامی مزاحمت کی سب سے توانا آواز ہے، وہ قطر جو شہید اسماعیل اور ان کی جماعت کے سیاسی بیورو کا میزبان ہے، شام میں بشار حکومت اور ایرانی پالیسی کے خلاف ہونے کے باوجود ایران سے مثالی تعلقات رکھتا ہے، یہاں تک کہ قطر کے خلیجی ہمسایوں نے محمد بن سلمان کی قیادت میں جب قطر کا بائیکاٹ اور محاصرہ کیا تو ان کے مطالبوں میں سے ایک مطالبہ یہ تھا کہ ایران سے تعلقات محدود کرو۔ قطر نے یہ مطالبہ ماننے کی بجائے ایران سے تعلقات مزید بڑھا لیے۔ شہید حسن کی جماعت اور شہید اسماعیل کی جماعت میں جو سٹریٹجک کوآرڈینیشن اور مشاورت ہوتی ہے، وہ بھی عموماً قطر میں ہی ہوتی ہے۔

پاکستان میں سنّیوں کے خود ساختہ ٹھیکیدار جن سے آج تک سنّیوں کے لیے کچھ نہیں ہوا، جنہیں عالمِ تسنن اور اس کے تنوع کے بارے میں علم بھی نہیں ہے، جو بریلویت، دیو بندیت اور وہابیت کے مقامی نالوں کو ہی تسنن کا سمندر سمجھتے ہیں، جب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے سنّیوں کے مفاد کو قطر، ترکیہ، اخوان المسلمین اور فلسطینی اسلامی مزاحمت سے بہتر سمجھتے ہیں یا انہیں سوریا کے مسلمانوں کا غم ان مسلمانوں کے ہم وطن، ہم نسل، ہم زبان اور ہم مذہب فلسطینی سنّیوں سے زیادہ ہے تو اس پر صرف ہنسا ہی جاسکتا ہے۔

2. سمجھا جاتا ہے کہ سوریا میں بشار الاسد کے ساتھ ایران کا اتحاد مسلکی یا نظریاتی بنیاد پر ہے۔ یہ بھی محض مغالطہ ہے۔

آج کی دنیا میں ریاستوں کے نظریے تو ہوتے ہیں لیکن سیاست کی حرکیات ایسی ہیں کہ اتحاد ان بنیادوں پر بننا ضروری نہیں ہوتا۔ اکثر بین الاقوامی اتحاد سیاسی مفاد اور سٹریٹجی کی بنیاد پر بنتے ہیں۔

ایران کا سوریا کے ساتھ اتحاد بھی نظریاتی یا مسلکی نہیں ہے بلکہ سٹریٹجک بنیادوں پر ہے۔ بشار الاسد اور اس کی جماعت نظریاتی طور پر کٹر سیکولر اور عرب قوم پرست ہے جبکہ مذہبی اعتبار سے بشار الاسد کا خاندان اور سوریا کی حکمران اشرافیہ نصیری عقائد کی حامل ہے۔ دوسری طرف ایران کی مقتدرہ سیکولرازم، عرب قوم پرستی اور نصیریت، تینوں کی سخت مخالف ہے اور ان نظریات و عقائد کو دائرہِ اسلام سے ہی خارج قرار دیتی ہیں۔

اس میں بھی شک نہیں کہ بشار الاسد ایک ڈکٹیٹر ہے ۔۔۔۔ لیکن اس سب کے باوجود ایران اور حزب نے اس کی حمایت کیوں کی ۔۔۔۔ یہ بات سمجھنا آج کے مصر، لیبیا، فلسطین اور لبنان کے حالات کو دیکھ کر مشکل نہیں۔ سوریا دراصل لُبنان اور فلسطین تک پہنچنے اور اسلحہ پہنچانے کے لیے ایران کو زمینی راستہ فراہم کرتا ہے۔ اگر سوریا میں بشار کی حکومت گر جاتی تو امریکہ باآسانی سوریائی انقلاب کو ہائی جیک کرکے، مسمار کرکے ایسی حکومت مسلط کرسکتا تھا جیسی اس نے مصر میں کی یا لیبیا کی طرح سوریا بھی مستقل طور پر کسی مرکزی حکومت سے ہی محروم ہوجاتا۔ ایسے میں ایران کی لبنانی و فلسطینی مزاحمت تک زمینی سپلائی لائن کٹ جاتی۔

دوسرا مسئلہ دایش کا بھی تھا جو امریکی حملہ آوروں کی ناقص پالیسی کے سبب سوریا کے پڑوس میں عراق کے سنّی علاقوں سے اٹھ رہی تھی۔ سوریا کی خانہ جنگی میں اگر کوئی مستحکم مرکزی اتھارٹی ہی نہ رہتی تو طاقت کے اس خلاء میں دایش کو جو قوت ملتی اسے کچلنا بہت مشکل ہوتا۔

اس معاملے کو ہمارے اپنے مغربی پڑوس میں طالبوں کی حکومت کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کابل میں قائم طالبوں کی حکومت کا نظریہ ہمارے نظریے اور مسلک سے یکسر مختلف ہے، ان کی حکومت نمائندہ حکومت بھی نہیں ہے اور بڑی حد تک جابرانہ ہے لیکن پھر بھی افغانستان کے استحکام، امن اور قومی خودمختاری کے لیے اور افغانستان کی بدولت اس خطے کے استحکام، امن اور طاقت کے توازن کے لیے طالب ہی فی الوقت بہترین دستیاب اوپشن ہیں اور پاکستان میں افغان معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو طالبوں سے مسلکی و نظریاتی اختلاف کے باوجود، انہیں غاصب و جابر جانتے ہوئے بھی انہیں سپورٹ کرنا پڑتا ہے۔

3. بشار نے یا بشار کی حامی قوتوں نے سوریا میں لوگوں کو اس لیے نہیں مارا کہ وہ مسلمان یا سنیّ یا عرب تھے یا ان کو وہاں سے نکال کر غیر ملکیوں کو آباد کرنا مقصود تھا اور نہ ہی یہ کوئی ایک طرفہ یلغار تھی۔ سوریا کے اندر سوریا کے لوگوں کی ہی خانہ جنگی تھی جس میں تمام فریقوں کو مختلف بڑی قوتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اسے لُبنان یا فلسطین کی صورت حال سے کمپئیر کرنا صریح ظلم ہے اور مسلکی یا فرقہ وارانہ لڑائی سمجھنا حماقت کی انتہاء ہے۔