ہوم << شہید حسن نصر اللہ کون تھے؟ - مہتاب عزیز

شہید حسن نصر اللہ کون تھے؟ - مہتاب عزیز

حزب اللہ کی 32 سال تک قیادت کرنے والے رہنما حسن نصراللہ کی اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہونے کی سو فیصد تصدیق ہو چکی۔
حسن نصر اللہ لبنان کے واحد مقبول رہنما تھے جن تعلق ملک کی "ایلیٹ کلاس" سے نہیں تھا۔ وہ 31 اگست 1960 کو بیروت کے مفلسی کے شکار شمالی مضافاتی علاقے 'برج حمود' میں پیدا ہوئے ۔ آپ جنوبی لبنان کے ایک چھوٹے سے گاؤں بازوریہ سے تعلق رکھنے والے ایک غریب کریانہ فروش کے 9 بچوں میں سب سے بڑے تھے۔ ابتدائی تعلیم خیراتی تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔ بعد میں عراق میں شیعہ فرقے کے مقدس شہر نجف کے ایک مدرسے میں پولیٹیکل سائنس اور قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ انکی تعلیم ابھی جاری تھی کہ عراق میں بعث پارٹی کے برسرِ اقتدار آ گئی۔ جس کے بعد 1978 میں انہیں بھی دیگر غیر ملکی شیعہ طالب علموں کے ہمراہ ملک بدر کر دیا گیا۔
لبنان واپسی پر آپ نے سیکولر نظریات کے حامل شعیہ گوریلا گروپ "امل موومنٹ" میں شمولیت اختیار کر لی۔ حسن نصر اللہ کی لبنان واپسی کے ایک سال بعد ایران میں انقلاب آیا اور روح اللہ خمینی کا اقتدار قائم ہوا۔ دوسری جانب اسی سال اسرائیل نے "فلسطینی مزاحمت" کو ہمیشہ کے لیے کچلنے کا اعلان کرتے ہوئے لبنان پر حملہ کر دیا۔
اسرائیلی فوج ایک ہفتے میں پورے جنوب کو روندتی ہوئی دارلحکومت بیروت پر قابض ہو گئی۔ ستمبر 1982 میں صیہونی وزیر جنگ "آریل شیرون" کی سرگردگی میں اسرائیل فوج اور اس کی حامی عیسائی ملیشیا "الکتائب" نے بیروت کے قلب میں واقعہ فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں صبرا و شتیلا کا محاصرہ کیا۔ وہاں رہائش پذیر 20 ہزار فلسطینیوں اور نزدیکی آبادیوں کے رہائشی 3 ہزار 2سو ستانوے لبنانیوں کو بڑے دلخراش انداز میں قتل کر دیا۔ جن میں، شیر خوار بچے، کمسن بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔
عام خیال تھا کہ لبنان میں امریکی سرکردگی میں موجو د "کثیر القومی امن فوج" بھی درپردہ اسرائیلیوں اور عیسائی ملیشیاء کی حمایت کر رہی تھی۔
اس صہیونی ظلم کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں میں شدید جذبات ابھرے۔ لبنان میں لوگ مرنے مارنے پر آمادہ لیکن بے بس تھے۔ عرب حکومتوں کا رد عمل عین ایسا ہی تھا ، جو آج غزہ کے معاملے میں دکھائی دے رہا ہے۔ لبنانی "ایلیٹ کلاس لیڈر شپ" (بلا امتیاز مذہب) اسرائیل کا دم چھلا بنی ہوئی تھی۔
یہی موقعہ تھا جب ایران نے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ پاسداران انقلاب اسلامی کے فوجی کمانڈروں نے لبنان میں ایک شعیہ عسکری گروپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے "حزب اللہ" کا نام دیا گیا۔ اس کے مقاصد ،لبنان پر سے مغربی اثرات کا خاتمہ، اسرائیل کی تباہی اور ایران کے ساتھ وفاداری قرار دیے گئے۔
1983 میں امریکی سفارت خانے پر حملے میں 300 سے زیادہ امریکی میرینز مارے گئے۔ اسی سال بیروت میں امریکی اور فرانسیسی بیرکوں پر حملوں میں کئی سو غیر ملکی فوجی مارے گئے۔ کثیر القومی اور اسرائیلی فوج پر تباہ کُن حملوں کا ذمہ دار حزب اللہ کو قرار دیا گیا۔ جس کے بعد بلآخر اسرائیلی فوج بیروت سے نکلنے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن اُس نے جنوبی لبنان کی ایک مختصر پٹی کو اسکیورٹی زون قرار دے کر اپنے زیر قبضہ رکھا۔
اسرائیلی فوج کے لبنان سے انخلاء نے " حزب اللہ" کو بلاد عرب میں زبردست مقبولیت عطا کی۔
دوسری طرف جنوبی لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان مسلسل محاذ آرائی کی کیفیت جاری رہی۔
16 فروری 1992 کو جنوبی لبنان میں، اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کے ایک میزائل حملے میں حزب اللہ کے سربراہ عباس الموسوی، ان کی بیوی، بیٹا، اور چار دیگر افراد مارے گئے۔ جس کے بعد حسن نصراللہ نے 1992 میں 32 سال کی عمر میں حزب اللہ کی قیادت سنبھالی۔ انہوں نے تنظیم کو تین دہائیوں کے تنازعات کے دوران مسلسل مضبوط کیا۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ فوجی اور سیاسی دونوں لحاظ سے اتنی مضبوط ہوگئی کہ حسن نصراللہ کو لبنان کی سب سے طاقتور شخصیت مانا گیا۔ حالانکہ وہ کبھی کسی عوامی عہدے پر نہیں رہے۔
اسرائیل کے خلاف مسلسل مزاحمت کی بنیاد پر پورے عرب میں حزب اللہ کو زبردست پزیرائی حاصل تھی۔ لبنان میں اس کی مقبولیت کا گراف مسلسل بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔ شعیہ و علوی کمیونٹی کے علاوہ سُنی مسلمانوں سمیت دروز مذہب کے پیروکاروں، اور عیسائیوں میں بھی وہ ایک مقبول شخصیت بن گئے تھے۔
حزب اللہ کی مقبولیت کو پہلا جھٹکا 2005 میں سابق لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کی صورت میں لگا۔ قتل کی تحقیقات کرنے والے بین الاقوامی ٹربیونل نے حزب اللہ کے چار ارکان پر فرد جرم عائد کی اور ان میں سے ایک کو سزا سنائی گئی۔
یہ جزب اللہ کی مقبولیت کے لیے کسی سانحے سے کم نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے اُسے سُنی آبادی میں میسر عوامی تائید سے خاصی حد تک ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ تاہم اسے لبنان کی شیعہ آبادی کی بدستور مضبوط حمایت حاصل رہی۔
حزب اللہ اور حسن نصراللہ 2006 کی اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد ایک بار پھر بے حد مقبول ہوئے۔ اس جنگ میں اسرائیلی فوج اپنے تمام اہداف حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ بھاری نقصان کے بعد نہ صرف پسپا ہو گئی۔ بالکل وہ اپنے زیر قبضہ نام نہاد اسکیورٹی زون کو خالی کر کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد "بلیو لائن" کے پار جانے پر مجبور ہو گئی۔
اس غیر معمولی کامیابی کے بعد حسن نصر اللہ کو لبنان اور دیگر ممالک میں ایک ہیرو کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ وہ تاریخ کے واحد عرب رہنما کہلائے جس نے نہ صرف اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اُسے شکست سے دو چار کر دیا تھا۔
حزب اللہ اور حسن نصر اللہ کی مقبولیت کو دوسرا اور زیادہ شدید جھٹکا اُس وقت پہنچا۔ جب 2011 میں حزب اللہ نے شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں اپنے کارکن بھجوانے کا فیصلہ کیا۔ اس واقعے کے بعد عرب عوام کے ذہنوں میں ان کی شبیہ یکسر بدل گئی۔ حسن نصراللہ کو اسرائیل سے برسر پیکار مزاحمت کے استعارے کے بجائے، خطے میں شیعہ مفادات کے محافظ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
2006 کے معاہدے کے بعد بظاہر اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کوئی بڑا اختلاف باقی نہیں رہا تھا۔ "بلیو لائن سرحد" پر "شیبا فارمز" کے ایک چھوٹے سے متنازعہ علاقے کے علاوہ کوئی وجہ نزاع نہیں تھی۔
تاہم 7اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے غزہ میں شروع کیے گئے "طوفان الاقصیٰ" میں حزب اللہ نے شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے حماس کی مدد کے لیے اسرائیل کے خلاف محاذ کھول دیا۔ جس کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ سرحد پر لڑائی اور اندون ملک اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم نقصانات کے باوجود حسن نصراللہ ڈٹے رہے۔ یہاں تک کہ 27 اکتوبر 2024 کو بیروت پر اسرائیلی حملے میں کئی دیگر مرکزی قائدین اور اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ وہ اسرائیلی حملے کا شکار بن گئے۔
حزب اللہ کی پہچان مانے والے حسن نصراللہ کی قیادت اور کرشمہ ساز شخصیت کا دائرہ کار لبنان سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ ان کی موت تنظیم کے لیے بڑا نقصان ضرور ہے، لیکن حزب اللہ کا منظم اندرونی ڈھانچے ایسے حوادث برداشت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے حزب اللہ کی پالیسی اور حکمت عملی پر کوئی بڑا فرق پڑنے کا امکان کم ہے۔
موجودہ وقت میں بیالیس سالہ ہاشم صفی الدین کو حسن نصراللہ کا جانشین سمجھا جاتا ہے۔ جو تنظیم کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ ہیں۔ وہ حزب اللہ کے بیرون ممالک سیاسی امور کے ذمہ دار بھی ہیں۔ انہیں حسن نصر اللہ کی نسبتاً زیادہ سخت مزاج اور فلسطین سے جذباتی وابستگی رکھنے والا فرد سمجھا جاتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment