آج سات ستمبر ہے اور آج کے دن پاک فضائیہ کے اسکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم (ایم ایم عالم ) نے سرگودھا کی فضا میں 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ایسے ہی ایک ایف-86 سیبر طیارے کے ذریعے بھارت کے 5 ہنٹر طیاروں کو ایک منٹ کے اندر اندر مار گرایا ، ان میں سے چار طیارے محض 30 سیکنڈ کے وقفے سے گرائے گئے جو ایک عالمی ریکارڈ تھا۔
امریکی ساختہ ایف-86 سیبر طیارہ 1954ء میں پاک فضائیہ میں شامل ہونا شروع ہوا اور مجموعی طور پر 120 طیارے فضائیہ کی 9 اسکواڈرنز میں شامل کیے گئے۔ 1106 کلومیٹر فی گھنٹے کی زیادہ سے زیادہ رفتار رکھنے والے ایف-86 طیارے اپنے زمانے میں دنیا بھر میں مانے جاتے تھے لیکن جب ستمبر 1965ء میں جنگ کا آغاز ہوا تب تک سیبرز کے عروج کا زمانہ گزر چکا تھا اور وہ 'پرانے زمانے کی مشین' کہلاتے تھے۔ لیکن پاک فضائیہ کے انجینئروں کی صلاحیتوں نے اس طیارے کو 65ء کی جنگ کے دوران اتنی بہتر حالت میں رکھا کہ گیارہ دن کی جنگ کے دوران 15 بھارتی طیارے صرف ایف-86 کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اور ان میں سے گیارہ طیارے ایم ایم عالم نے گرائے ۔
انہیں ایس پائلٹ (اڑتا اِکا ۔ Flying Ace ) کابھی اعزاز حاصل ہے ۔ اڑتا اِکا Flying Ace یا ایس پائیلٹ ایسے فوجی پائلٹ کوکہا جاتا ہے ۔ جس کو متعدد دشمن لڑاکا طیاروں کو فضائی دنگل کے دوران میں گرانے کا اعزاز حاصل ہو- یہ اصطلاح پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونا شروع ہوئی۔
عام طور پر 5 طیارے مار گرانے والے پائلٹ کو Ace Pilot یا ایس پائلٹ کہا جاتا ہے۔
لیکن 1971ء کی جنگ میں شکست کے ساتھ اس طیارے کے دن بھی گن لیے گئے۔ پاکستانی دعوؤں کے مطابق 1971ء کی جنگ میں 24 سیبر طیارے کام آئے جن میں سے 13 بھارت کے ہاتھوں تباہ ہوئے جبکہ 11 طیاروں کو خود پاک فضائیہ نے ضایع کردیا تاکہ وہ دشمن کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ پھر بھی 5 طیارے مرمت کے بعد بنگلہ دیش فضائیہ کے کام آئے۔
ایف-86 سیبر 1980ء تک کسی نہ کسی صورت میں پاک فضائیہ کا حصہ رہے اور پھر ریٹائر کردیے گئے۔ لیکن سیبرز کی دیومالائی حیثیت آج بھی برقرار ہے اور کراچی میں پاک فضائیہ کے عجائب گھر کے علاوہ جن شہروں میں پاک فضائیہ کے ایف-86 اڑانے والے مشہور پائلٹ رہتے تھے، وہاں یہ جہاز یادگار کے طور پر نصب کیے گئے۔
ایم ایم عالم سقوط ڈھاکہ کے بعد بقیہ پاکستان ہی میں مقیم رہے اور یہیں پر 18 مارچ 2013ء کو انتقال فرمایا۔ انہیں شاندار کارناموں پر اپنی زندگی ہی میں ستارۂ جرات سے نوازا گیا تھا۔
ایم ایم عالم تین بار پی ایم سی تشریف لائے
اور تینوں بار مجھے ان کی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوا
وہ راولپنڈی چکلالہ آفیسرز میس رہائش پزیر تھے ان کو وہاں سے ان کو لےکر آنا آور پھر واپس چھوڑنے جانا ایک اعزاز تھا اور اسی بہانے ان کے ساتھ کئی گھنٹے گزارنے کا موقعہ بھی ملا۔ ان سے بہت سیکھا ۔ تاریخ پر ان سے زیادہ عبور میں نے کسی اور میں نہیں دیکھا۔ خاص طور پر تاریخ اسلامی انہیں ازبر تھی ۔ ان کے کمرے میں سامان ان کم اور کتابیں زیادہ تھیں ۔ اور یہی کتابیں زندگی کے آخری لمحات تک ان کی ساتھی رہیں ۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی ۔ اور اس موضوع پر کم ہی بات کرتے تھے ۔ ایک دفعہ اچھے موڈ میں تھے موقعہ غنیمت جان کر میں نے یہ قصہ چھیڑ دیا ۔ انہوں نے غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور مسکرائے اور کہنے لگے کہ “زندگی نے کبھی فرصت ہی نہیں دی “ ۔ ماحول ساز گار دیکھ کر میں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا کہ “آپ نے کبھی شادی کا نہیں سوچا “ ۔ تو ایکدم سنجیدہ ہو گئے ۔ پھر اک توقف کے بعد بولے “ میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھاان کی ذمہ دایاں پوری کرتے کرتے شادی کی عمر گزر گئی اور زندگی کی اسی دوڑ میں شادی پیچھے رہ گئی لیکن شادی تو سنت رسول بہرحال کرنی تو تھی پھر جب میں ائیر فورس سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد افغانستان گیا تو وہاں ایک افغان خاتون سے منگنی کی لیکن پھر وہ ایک روسی طیارے کی بمباری میں شہید ہوگئی ۔
انہیں دکھی دیکھ کر میں نے موضوع بدل دیا ۔
ان کی ریٹائرمنٹ مسئلہ بڑا متنازع ہے جس کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں لیکن یہ وہ ایک ایسا موضوع تھا جس پر وہ کبھی بات نہیں کرتے تھے
ان کے ساتھ گزارے یہ لمحے آج بھی سرمایہ حیات ہیں
میں نے پی ایم سی میگزین “پرواز “ کے لئے ان کا انٹرویو بھی کیا
آپ کے علاوہ ایف 86 اڑانے والے ایک اور پاکستانی پائلٹ بہت مشہور ہوئے، نوجوان فلائنگ آفیسر ولید احسان الکریم! انہوں نے صرف 18 سال کی عمر میں یہ طیارہ اڑا کر دنیا کے کم عمر ترین سیبر پائلٹ کا خطاب حاصل کیا۔ لیکن یہ ہونہار پائلٹ صرف 20 سال کی عمر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، جب ان کا طیارہ کراچی سے 15 میل کے فاصلے پر فنی خرابی کی وجہ سے بحیرۂ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا۔ آج تک ولید کی لاش ملی
اور نہ ہی جہاز کا ملبہ۔
تبصرہ لکھیے