ہمارے ہاں پائی جانے والی بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ مغربی میڈیا بہت پروفیشنل ، بہت ذمہ دار اور بہت قابل بھروسہ ہے۔ لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ اس پروفیشنل ، ذمہ دار اور قابل بھروسہ میڈیا نے فلسطین کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہوئے کن اصطلاحات کا سہارا لیا اور کیوں لیا؟
یہ جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں اہل صحافت کی ایک بڑی تعداد ان ہی اصطلاحات کو استعمال کرنا ، فکری وجاہت کا ثبوت سمجھتی ہے جو اصطلاحات مغربی میڈیا میں استعمال ہوئی ہوں۔
مغربی میڈیا میں حالیہ جنگ کو ’ اسرائیل حماس تنازعہ‘ یعنی’ اسرائیل حماس کانفلکٹ ‘ کا عنوان دیا گیا ہے اور بالعموم یہی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ چنانچہ یہی اصطلاح پاکستان کے انگریزی پریس میں بھی آپ کو کثرت سے ملے گی۔ اب اس پر غورکیجیے کہ اسے اسرائیل فلسطین تنازعہ کیوں نہیں کہا جاتا؟
اس کی دو جوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جیسے یہ فلسطین کے ساتھ جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ایک دہشت گرد جتھہ ہے جس سے لڑائی کی جا رہی ہے۔
دوسرا ان کی کوشش ہے کہ فلسطین کا نام جس حد تک ممکن ہو استعمال کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ دھیرے دھیرے یہ اجتماعی یادداشت سے ہی محو ہو جائے۔
حقیقت مگر یہ ہے کہ حماس فلسطین کی ووٹوں سے منتخب حکومت ہے۔ اسماعیل ہانیہ فلسطین کے وزیر اعظم رہ چکے ۔ تاریخی اعتبار سے یہ مسئلہ حماس کے قیام سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لیے اسے محض حماس کے ساتھ تنازعہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ فلسطین پر مسلط جنگ ہے۔ ایک طرف کی غاصب اور ناجائز آباد کار قوت کے تو ملک کا نام لیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب ایک جائز ملک کا نام نہیں لیا جاتا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کو کبھی’ لیکوڈ حماس تنازعہ‘ نہیں قرار دیا گیا۔
اسرائیل کے شہری مر جائیں تو باقاعدہ بتایا جاتا ہے کہ حماس کے لوگوں نے اسرائیل کے شہریوں کو قتل کر دیا لیکن فلسطینیوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا جائے تو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کا قاتل کون ہے۔ معصوم بچی کے جس قتل نے انسانی ضمیر کو دہلا دیا تھا اس قتل کے لیے اکثر مغربی اخبارات نے Found dead کی اصطلاح استعمال کی۔ بس مرے ہوئے پائے گئے۔ ان کا گویا کوئی قاتل نہیں تھا۔ بس اپنی آئی سے مر گئے اور Found dead۔
فلسطیننی جب بھی اپنے دفاع میں کچھ کریں تو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے لیکن اسرائیل جو بھی ظلم کر لے اسے ہمیشہ اسرائیل کا حق دفاع سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ بین الااقوامی قوانین کے تحت اسرائیل قابض اور غاصب ہے جب کہ فلسطینی اپنے دفاع کی جائز جنگ لڑ رہے ہیں۔
فلسطینیوں کے لیے دہشت گرد کا لفظ استعمال ہو تا ہے لیکن اسرائیل کے جرائم پیشہ آباد کار اگر فلسطینی بستیوں میں جا گھسیں اور وہاں قتل عام کر آئیں تو ان کے لیے ’ ویجیلانٹے‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یعنی یہ وہ اچھے اچھے رضاکار ہیں جو اپنے طور پر قانون نافذ کرنے چلے جاتے ہیں۔
مغربی میڈیا میں بالعموم یہ نہیں ملے گا کہ اسرائیل نے جارحیت کی۔ یہی کہا جائے گا کہ اس نے جوابی کارروائی کی۔ اسرائیل اگر چالیس ہزار نہتے مسلمانوں کو قتل کر دے تب بھی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے جارحیت کی یا دہشت گردی کی ۔ اسرائیل اگر سکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کر دے تب بھی اسے دہشت گردی نہیں کہا جائے گا۔ اسرائیل کے ہاتھوں اقوام متحدہ کا سٹاف قتل ہو جائے پھر بھی یہ دہشت گردی نہیں ہے۔ دوسری جانب فلسطینی اگر نہتے شہریوں کی بجائے اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کریں جو ان کے علاقوں میں گھسے ہوئے ہیں تب بھی اسے دہشت گردی کہا جائے گا۔
نیویارک ٹائمز نے تو اپنے سٹاف کے لیے باقاعدہ ہدایت نامہ جاری کیا کہ اس جنگ کی کوریج کیسے کرنی ہے۔چنانچہ اس میں ہدایت کی گئی کہ قتل عام اور نسل کشی جیسی اصطلاحات استعمال نہیں کرنی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کے حملے کے بعد جو صرف ایک حملہ تھا نیویارک ٹائمز نے 55 بار قتل عام کا لفظ استعمال کیا لیکن اسرائیل کے ہاتھوں پورا غزہ تباہ ہو گیا اور چالیس ہزار لوگ شہید ہو گئے لیکن اس کے لیے قتل عام کا لفظ استعمال نہ کیا جا سکا۔
یہ بھی ہدایت کی گئی مقبوضہ علاقہ جات یا مقبوضہ فلسطین جیسے الفاظ بھی استعمال نہیں کرنے۔ حتی کہ پناہ گزین کیمپ کا لفظ استعمال کرنے سے بھی منع کیا گیا۔یہ ہدایت بھی باقاعدہ طور پرا س میمو کا حصہ تھی کہ فلسطین کا لفظ استعمال نہ کیا جائے اور اس لفظ کو صرف اس وقت لکھا جائے جب یہ انتہائی ضروری ہو۔ ( یہی وہ سوچ ہے جو اس لڑائی کو اسرائیل حماس تنازعہ قرار دیتی ہے اور ایک ملک کے وجود ہی کی نفی کی جاتی ہے)۔
اسرائیل کی جانب سے دیے گئے جھوٹے اعدادو شمار کو بھی دنیا کا پہلا اور آخری سچ بنا کر پیش کیا جاتا رہا لیکن فلسطینی وزارت صحت جب فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد بیان کرتی یا کوئی اور موقف دیتی تو اس کی کریڈیبلٹی کم کرنے کے لیے خبر میں ساتھ یہ بھی لکھا جاتا کہ یہ حماس کی زیر انتظام وزارت صحت کے اعدادو شمار ہیں۔ اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہوتا کہ یہ تو ایک فریق کا بیانیہ ہے۔ یہ اعدادوشمار تو غلط ہو سکتے ہیں۔ البتہ اسرائیل کے جاری کردہ اعدادو شمار کو کبھی چیلنج نہیں کہا گیا۔
ایک اور دل چسپ اصطلاح سیز فائر کی ہے ۔ ایسے تاثر دیا جاتا ہے جیسے دو افواج جنگ لڑ رہی ہیں اور ان میں سیز فائر ہونے جا رہا ہے۔ کہاں کا سیز فائر؟ یہاں تو ایک فوج ہے جو نہتی آبادی پر آتش و آہن برسا رہی ہے اور چالیس ہزار سے زائد لوگوں کو قتل کر چکی ہے۔ یہاں سیز فائر کہاں سے آ گیا۔ یہاں تو نسل کشی میں تعطل کی اصطلاح حسب حال ہے۔ لیکن مسلسل ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سیز فائر کی کوششیں جاری ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی قیدیوں پر تو اکثر مضامین باندھے جائیں گے لیکن اسرائیل کی قید میں پڑے سات ہزار قیدیوں کے بارے میں کبھی کچھ شائع نہیں ہو گا۔گویا حقوق انسانی صرف اسرائیل کے ہیں اور فلسطینی تو ابھی انسانی درجے کم تر کئی مخلوق ہیں۔
مغربی میڈیا کے اس رویے پر خود امریکہ کے ایک یا دو نہیں 1500 صحافی کھلا خط لکھ چکے ہیں اور احتجاج کر چکے ہیں کہ کس طرح امریکہ میں فلسطینن کے خلاف اسرائیلی مظالم پر بات کرنے سے روکا جا رہا ہے اور یک طرفہ رپورٹنگ ہو رہی ہے۔
بی بی سی کے آٹھ صحافی الجزیرہ کو لکھے گئے خط میں بتا چکے ہیں کہ کیسے فلسطین کے حقائق پر لکھنے پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔
آسٹریلیا کے درجنوں صحافی بھی خود پر عائد پابندیوں پر کھلا خط لکھ چکے ہیں۔
یہ ایک لمبی کہانی ہے جو ایک کالم میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ ہاں مگر اس ہنر کاری کو سمجھا جا سکتا ہے جو مغربی میڈیا نے روا رکھی ہوئی ہے۔
تبصرہ لکھیے