شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔تخلیق آدم کے وقت ہی شیطان نے اللہ تعالی کی حکم عدولی کی، اورانسان سے دشمنی کی واضح بنیاد رکھی۔’’اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا‘‘۔(البقرۃ،۳۴)
قرآن کریم میں اسے’’ ابلیس‘‘بھی کہا گیا ہے اور ’’شیطان‘‘ بھی۔ ابلیس عبرانی زبان کا کلمہ ہے اور عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اہلِ عرب اسے ’’بلس‘‘ سے ماخوذ کہتے ہیں۔ جس کے معنی مایوس اور نا امید ہونے کے ہیں۔ ابلیس چونکہ اللہ کی رحمت سے مایوس اور نا امید ہو گیا تھا اسی لیے اسے ابلیس کہا گیا۔ (جوہری، اسماعیل بن حماد، ج۲، ص۹۰۹)۔
ابلیس میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ یاس اور نامرادی (فرسٹریشن) کی بنا پر اس کا زخمی تکبّر اس قدر برانگیختہ ہو گیا ہے کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھو کر ہر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزرنے پر تلا ہوا ہے۔ (تفہیم القرآن،ج۳،ص۲۹۴)
جنّ مجرّد روح نہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے اجسامِ مادی ہی ہیں، مگر چونکہ خالص آتشیں اجزاء سے مرکب ہیںاس لیے وہ خاکی اجزاء سے بنے ہوئے انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ ’’شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اس کو نہیں دیکھتے‘‘۔ (الاعراف،۲۷) اسی طرح جنوں کا سریع الحرکت ہونا، ان کا آسانی سے مختلف شکلیں اختیار کر لینا، اور ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جانا جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کر سکتیں، یا نفوذ کرتی ہیں تو ان کا نفوذ محسوس ہو جاتا ہے۔(تفہیم القرآن، تفسیر سورۃ الرحمن)
ابلیس شیاطین کے اس سردار کا نام ہے جو خلق کے اعتبار سے ’’جن ‘‘ ہے، جسے آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا، اور یہ ایک با اختیار مخلوق ہے۔ ابلیس اللہ کی تسبیح و تہلیل کی بنا پر ملائکہ کی صف میں شامل تھا۔ آدم ؑ کو سجدہ سے انکار کرنے کے بعد وہ ذرا بھی شرمسار نہ ہوا، بلکہ دم ٹھونک کر مقابلے میں آگیا اور قیامت تک آدمؑ و اولادِ آدم سے دشمنی کا اعلان کیا، اس نے خود اپنے اختیار سے اپنے لیے فسق کی راہ اختیار کی۔شیطان کی دشمنی آغاز سے انجام تک ہے اور وہ کبھی بھی انسان دشمنی سے کنارہ کشی نہیں کرتا ۔وہ انسان کی عقل اور دل دونوں پر حملہ کرتا ہے۔
فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے نہیں دیا گیا تھا، بلکہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ نوعِ انسانی کا نمائیندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص۱۰)
قصّہ ء آدم و ابلیس ترتیبِ مصحف میں پہلا قصّہ ہے جسے اللہ تعالی نے تکرار کے ساتھ کئی سورتوں میں بیان فرمایا، یہ قرآن کریم کی سات سورتوں میں وارد ہوا ہے، جن میں سورۃ البقرۃ، الاعراف، الحجر، الاسرائ، طہ ، الکہف، اور ص شامل ہیں۔کہیں یہ قصہ تفصلاً بیان ہوا ہے اور کہیں موجز انداز میں۔
قصّہء آدم وابلیس
آدمؑ کی تخلیق، اور فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم، اور تمام فرشتوں کی اطاعتِ حکم ِ الہی اور ابلیس کا انکار، اور اس انکار پر ابلیس کا متکبرانہ موقف اختیار کرنا۔ اللہ تعالی کا آدم کو زمین کا خلیفہ مقرر کرنا اور جنت میں ان کی زوجہ کے ہمراہ ٹھہرانا اور ایک معین درخت کے سوا جنت کے پھلوں کو کھانے کی اجازت دینا، جنت میں ابلیس کا آدم و حوا کے ساتھ رہنا اور انہیں پیہم کوششوں سے اس درخت کا پھل کھانے پر اکسانا اور ان سے نافرمانی کروا لینا۔اللہ تعالی کے اس حکم کی نافرمانی پران سے لباسِ فاخرہ کا اتر جانا، اور اللہ کی جانب سے دنیا میں اتارا جانا اور یہ ہدایت دینا کہ دنیا کے عارضی قیام میں پے در پے آنے والی اللہ کی رہنمائی اور ہدایت کو اختیار کر لینا کامیابی کی ضامن ہے۔
اس دنیا میں آدم و حوا کی ذریت کو پھیلنے کا موقع دیا گیا۔ اس دنیا میں ابلیس کو بھی اتار دیا گیا، اور جنت سے نکالے جانے پر ابلیس کا ردِّ عمل یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ سے قسم کھائی کہ جس انسان کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا ہے وہ اس کا ’’اغوا‘‘ کرے گا اور اسے سیدھی راہ پر چلنے نہ دے گا۔اس طرح انسان کا دشمن شیطان اور شیطان کا دشمن انسان! انسان کا دشمن شیطان ہونا تو ظاہر ہے کہہ وہ اسے فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ رہا انسان کا دشمنِ شیطان ہونا، تو فی الواقع انسانیت تو اس سے دشمنی ہی کی مقتضی ہے، مگر خواہشاتِ نفس کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے، ان سے دھوکا کھا کر انسان اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اب شیطان اس کا حقیقی دوست تو نہیں بنتا مگر انسان اپنے دشمن شیطان سے شکست کھا کر اس کے فریب کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
ابلیس کا قرآنی تعارف
ابلیس کے لیے اللہ تعالی نے قرآن میں شیطان کا لفظ بھی استعمال کیا۔ اور اس کی صفات خوب وضاحت سے بیان کر دیں تاکہ انسان اپنے حقیقی دشمن کو پہچانے اور اس کی چالوں، اور مکاریوں کے جال میں نہ آئے۔
انسان شیطان کو دیکھ نہیں سکتا، کہ اسے دیکھ کر اس سے دور رہے، مگر اللہ تعالی نے انسان کو اس کی آگہی اور پہچان عطا کی ہے۔
ابلیس کی مکاریوں سے بچنے کی تاکید
اللہ تعالی نے ہر انسان میں نیکی اور بدی دونوں کی صلاحیت رکھی ہے اور خیر وشر میں تمیز کا ملکہ بھی عطا کر دیا ہے، اور ان دونوں کو اختیار کرنے کی طاقت، صلاحیت اوراختیارخود اس کے اندر موجود ہے۔شیطان اس کی شر کی جانب رہنمائی کرتا ہے اور اسے بدی کی تلقین کرتا ہے۔
ملاء الاعلی میں ابلیس کا اعلانِ بغاوت
سورۃ ص میں ابلیس نے نہایت متکبّرانہ انداز میں اللہ سے مکالمہ کیا، اور سجدہ نہ کرنے کے کا جواز تراشا، اور بولا:
’’میں اس (آدم) سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے۔‘‘
فرمایا: ’’اچھا تو یہاں سے نکل جا، تو مردود ہے اور تیرے اوپر یوم الجزا تک میری لعنت ہے۔‘‘
وہ بولا: ’’اچھا، تجھے اس روز تک کی مہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے۔‘‘
اس نے (اللہ کی عزّت کی قسم کھا کر) کہا:
’’تیری عزّت کی قسم! میں ان سب لو
تبصرہ لکھیے