ہوم << پاکستانی ادب اور کلچر کے مباحث-ڈاکٹر سیف ولہ رائے

پاکستانی ادب اور کلچر کے مباحث-ڈاکٹر سیف ولہ رائے

ادب ہماری تہذیبی، علمی، روحانی، معاشرتی، جمالیاتی اور انسانی قدروں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ معاشرے کا ضمیر کہلاتا ہے اور ہماری تہذیبی و ثقافتی اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے اکسیجن کا کام کرتا ہے۔ ادب کی فعالیت اس بات میں مضمر رہی ہے کہ دُنیا کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ادب کی ماہیت میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ یہ تبدیلی موضوعات ہی میں نہیں تکنیک اور اسلوب کی سطح پر بھی ہوتی ہے اور اس بنیادی رویے میں بھی جس سے کوئی عنصر شناخت ہوتا ہے۔ اگر مجموعی حوالے سے دیکھا جائے تو ادب ایک ہمہ گیر شناخت ہے جو ایک تہذیب کا ناگزیر حصہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاشروں کا ادب وہی پائیدار ہوتا ہے۔ جو مادری زبانوں کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ مادری زبانیں زمین کے بغیر اپنی خوشبو برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ جس معاشرے کی جڑیں اپنی زمین میں اور جس ادب کی آبپاری معاشرے کے خون سے کی گئی ہو وہ اپنے تخلیق کرنے والے معاشرے کی مہک لیے ہوتا ہے۔ ایسا ادب اپنے تخلیق کرنے والے معاشرے کے احساسات تخیل، تصور، اعتقادات، عبادات، جذبات، کیفیات اور غم و خوشی کا حاصل اظہار موثر و مناسب الفاظ میں ڈھال پاتا ہے۔ ادبی صنف کوئی بھی ہو اور ادب خواہ غیر تحریری ہو لیکن اس میں مہک اپنی زمین اور ثقافت کی رچی بسی ہوتی ہے۔ پاکستانی ادب کی تخلیق میں بھی اس تہذیبی تسلسل کی پیداوار زبانیں ہیں۔ جس میں اس کے تخلیق کاروں کا دکھ درد، مسائل، حل، جرات، غم و خوشی، احساس و جذبہ، عقیدہ اور بھروسہ معاشرے کے وجود کی طرح نمایاں نظر آتا ہے۔

ادب اور پاکستانی ادب:
کوئی بھی کلچر ہو ادب کے بنیادی موضوعات ایک ہی ہوتے ہیں مثلاً پیدائش، موت، محبت، نفرت، خوشی و غم، بادی النظر میں یہ خیال صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن بغور جائزہ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ہر معاشرے کا ادب اپنے اندر چند خصائص پیدا کر لیتا ہے۔ کچھ روایات ایسی ضرور پیدا ہو جاتی ہیں جو دوسری جگہ اور دوسرے کلچر میں نہیں پائی جاتیں۔ ماحول کی انفرادیت، روایات کی خصوصیات اعتقادات کی یک رنگی مل کر ایک خاص قسم کا طرز فکر پیدا کر دیتی ہیں۔
ادب کسی بھی معاشرے اور کلچر کی عکاسی کرتا ہے۔ قوموں کی بقا اور حیات میں ادبی سرمائے کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ادب کسی قوم کی ذہنی، فکری، تہذیبی اور نظریاتی رویوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ادیب ادب کی تخلیق کرتے وقت الفاظ کا ایسا چناؤ کرتا ہے جس سے اپنے خیالات احساسات و جذبات کا اظہار اس پیرائے میں کرتا ہے کہ پڑھنے والے کو اس سے دلچسپی پیدا ہو جائے۔
’’ادب اپنی ذات کا ہی مکاشفہ نہیں، ایک تہذیبی وظیفہ بھی ہے جس سے افراد کے باطنی چہروں اور رویوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی چہرے اور رویے قومی شناخت اور قومی کلچر کی اندرونی پرتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں۔ ادب اپنی جغرافیائی و ثقافتی خوشبو اور حال کے تضادات سے ہم آہنگ ہو کر ایسے امکانات پیدا کرتا ہے جس سے نہ صرف مستقبل کی طرف پیشرفت ہوتی ہے بلکہ اجتماعی ہیت کو ابھارنے اور سنوارنے کا جذبہ بھی سر ُاٹھاتا ہے۔‘‘ ۱؎
ادب ایک تخلیقی عمل ہے جس کا ہماری زندگی سے گہرا اور براہِ راست تعلق ہے مختصر یہ کہ ادب زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ اسے کسی طور پر زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

’’ادب ایک سماجی عمل ہے۔ اس کے وسیلے سے مختلف سماجوں اور معاشروں نے اپنے مجموعی انداز فکر، مختلف رویوں، اپنی ثقافت اور اپنے شعور کا اظہار کیا ہے۔۔۔۔ ادب معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں حصہ لیتا ہے اور سماجی، معاشی، فکری، تہذیبی، تمدنی میلانات اور رجحانات پر اثر ڈالتا ہے اور نوع انسانی کے جذبات مقدرات کی تہذیب و تطہیر انفرادی کاوش ہوتے ہوئے بھی اپنے حلقہ اثر کے اعتبار سے ایک اجتماعی ادارہ ہے۔‘‘ ۲؎
ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی ادب اور مسلم کلچر کی تاریخ ایک لحاظ سے پاکستان کی ہی سیاسی، مذہبی، سماجی و ثقافتی تاریخ ہے۔ پاکستانی ادب ایک مخصوص لب و لہجہ اور ماحول کا حامل ہے اور اس کے دانشوروں کی تحریروں میں قومی تشخص روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستانی ادیب کا لکھا ہوا وہ ادب جس میں پاکستانی قوم کے مسائل و مشکلات کا ذکر ہو یا جس میں پاکستانی قوم کا تشخص اُجاگر ہو اسے پاکستانی ادب قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا پاکستانی ادب میں مسلم کلچر، لسانی ، تہذیبی و معاشی مسائل، مٹی سے محبت اور مذہب سے گہری وابستگی کے جذبات نظر آتے ہیں۔
اس ضمن میں پروفیسر غفور شاہ قاسم لکھتے ہیں:
’’پاکستانی ادب سے مراد وہ ادب ہے جو پاکستان کے وجود، پاکستان کے وقار اور پاکستان کے نظریے کا اثبات کرتا ہو اور جو پاکستان کے تہذیبی اور تاریخی مظاہر کا ترجمان ہو اور جو یہاں کے کروڑوں باشندوں کی امنگوں اور آرزوں نیز شکستوں اور محرومیوں کا غیر جانب دار عکاس ہو۔ ظاہر ہے اس صورت میں پاکستانی ادب ہندوستانی ادب یا ایرانی ادب یا چینی ادب یا انگریزی ادب وغیرہ سے مختلف ہو گا۔‘‘ ۳؎
پاکستانی ادب کے مباحث کے حوالے سے حفیظ الرحمن خان لکھتے ہیں:
’’پاکستانی ادب کی ابتدا میں بہت سے ادیبوں نے اپنے مخصوص فکری میلانات کے سبب اس ترکیب کی تردید کی اور وہ اس کو بے معنی قرار دینے میں زورِ قلم صرف کرتے رہے۔ لیکن جب انہیں یہ خدشہ لاحق ہوا کہ پاکستانی ادب کہیں ایک خاص تحریک کا درجہ نہ حاصل کر لے تو اسے مغلطہ انگیز معنی اور مفہوم کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔ پاکستانی ادب کی فکری اور نظریاتی حدود سے قطع نظر کرتے ہوئے بڑے شرومد سے باور کرایا جانے لگا کہ پاکستانی ادب صرف وہی ہے جو پاکستان کی جغرافیائی حدود میں لکھا جا رہا ہے۔‘‘ ۴؎
قیام پاکستان کے بعد بیشتر دانشوروں نے پاکستان کے وجود کا تحفظ اس بات میں دیکھا کہ جن اسباب سے پاکستان وجود میں آیا ہے ان کی حفاظت کی جائے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ادب میں کلچر سب سے زیادہ موضوع بحث بنا۔

کلچر تعریف و توضیح:
پاکستانی ادب میں کلچر کا سوال کئی اسباب سے اٹھتا ہے۔ ایک سبب تو اپنی تاریخ اور روایتوں کو اپنے حال سے جوڑنا ہے۔ دوسرا سبب اس اخلاقی نظام کو تلاش کرنا ہے جو اسلام نے فراہم کیا تھا۔ تیسرا سبب اقتصادی، سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے اور جاننا کہ کلچر جب فروغ پاتا ہے تو اس کا سبب محض فلسفیانہ افکار یا اخلاقی اصول ہی نہیں ہوتے بلکہ اقتصادی اور سیاسی سرگرمی بھی ہوتی ہے۔
مختلف تہذیبوں میں کلچر کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے اس لیے کلچر کی توضیح نا مناسب نہیں۔
سید سبط حسن کلچر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’انگریزی زبان میں تہذیب کے لیے کلچر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر لاطینی لفظ ہے اس کے لغوی معنی ہیں ’’زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کیڑوں، سیپوں اور بیکٹیریا کی پرورش یا افزائش کرنا۔ جسمانی یا ذہنی اصلاح و ترقی، کھیتی باڑی کرنا‘‘، اُردو، فارسی اور عربی میں کلچر کے لیے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تہذیب عربی زبان کالفظ ہے اس کے لغوی معنی ہیں کسی درخت یا پودے کو کاٹنا چھانٹنا، تراشنا تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں۔ فارسی میں تہذیب کے معنی ’’آراستن پیراستن، پاک و درست کردن اور اصلاح نمودن‘‘ ہیں۔ اُردو میں تہذیب کا لفظ عام طور پر شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔‘‘ ۵؎
سید سبط حسن تہذیب کو انسان کی ہم سفر قرار دیتے ہیں البتہ ان کے خیال میں تمدن اس وقت وجود میں آیا جب شہر آباد ہوا۔ ان کے خیال میں تہذیب اور انسان کا ساتھ اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود انسان۔ اپنے مضمون ’’تہذیب سے تمدن تک‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے:
’’تہذیب کے آثار ہر معاشرے میں ملتے ہیں خواہ وہ غاروں میں رہنے والے نیم وحشی قبیلوں کا معاشرہ ہو یا صحراؤں میں مارے مارے پھرنے والے خانہ بدوشوں کا معاشرہ ہو۔ چنانچہ تہذیب اس زمانے میں بھی موجود تھی جب انسان پتھر کے آلات و اوزار استعمال کرتا تھا اور جنگلی پھلوں اور جنگلی جانوروں کے شکار پر زندگی بسر کرتا تھا۔ سپین اور فرانس کے غاروں کی رنگین تصویریں اور مجسمے اب سے چالیس پچاس ہزار برس بیشتر کے انسان کے حسن عمل اور عملِ حسن کا نادر نمونہ ہیں۔‘‘ ۶؎
کلچر کے مباحث میں تہذیب و تمدن کے الفاظ بھی مستعمل ہیں جو انگریزی الفاظ کلچر Culture اور سوئلزیشن (Civilization) کے مترادف ہیں۔ جو صورتِ حال ثقافت، تہذیب و تمدن کے مباحث میں ہے یہی الجھاؤ کلچر اور سویلزیشن کی بحث میں پایا جاتا ہے۔ صاحبان علم و دانش کے نزدیک کلچر (ثقافت) کو وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہوئے Civilization کے مفہوم میں کلچر (ثقافت) کواستعمال کیا گیا ہے یا کہا جاتا رہا ہے اور مذکورہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب ’’پاکستانی کلچر‘‘ میں تہذیب و ثقافت کے الگ الگ مفاہیم و مطالب کو یک جا کرکے ایک ہی لفط کلچر استعمال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’میں نے لفظ ثقافت اور تہذیب کو یک جا کرکے ان کے لیے ایک لفظ کلچر کا استعمال کیا ہے جس میں تہذیب اور ثقافت دونوں کے مفاہیم شامل ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کلچر ایک ایسا لفظ ہے جو زندگی کی ساری سرگرمیوں کو خواہ وہ ذہنی ہوں یا مادی، خارجی ہوں یا داخلی احاطہ کر لیتا ہے۔‘‘ ۷؎
کلچر سے نشوونما، ترقی اور تربیت کے مفاہیم بھی لیے جا سکتے ہیں یہ تربیت اور ترقی صرف انسان تک محدود نہیں بلکہ اشیاء مثلاً نباتات اور حیوانات تک پھیلی ہوتی ہے۔ Oxford English Dictionary میں لکھا ہے:
’’کلچر کسی بھی شے کی کیفیت میں ترقی کی کوئی بھی سوچی سمجھی کوشش ہے۔‘‘ ۸؎
ایک اور مقام پر ڈاکٹر جمیل جالبی کلچر کے مفہوم کا تعین یوں کرتے ہیں:
’’کلچر اس کُل کا نام ہے جس میں مذہب و عقائد، علوم اور اخلاقیات، معاملات اور معاشرت، فنون و ہنر، رسم و رواج، افعال ارادی اور قانون، صرفِ اوقات اور وہ ساری عادتیں شامل ہیں جن کا انسان معاشرے کے ایک رُکن کی حیثیت سے اکستاب کرتا ہے اور جن کے برتنے سے معاشرے کے متضاد و مختلف افراد اور طبقوں میں اشتراک و مماثلت، وحدت اور یک جہتی پیدا ہو جاتی ہے جن کے ذریعے انسان کے وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز پیدا ہو جاتی ہے۔ کلچر میں زندگی کے مختلف مشاغل، ہنر اور علوم و فنون کو اعلیٰ درجے پر پہنچانا، بُری چیزوں کی اصلاح کرنا، تنگ نظری اور تعصب کو دُور کرنا، غیرت و خود داری، ایثار و وفاداری پیدا کرنا، معاشرت میں حسن و لطافت، اخلاق میں تہذیب، عادات میں شائستگی، لب و لہجہ میں نرمی، اپنی چیزوں، روایات اور تاریخ کو عزت اور قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کو بلندی پر لے جانا بھی شامل ہیں۔ جس طرح گھنے جنگل، وسیع و عریض مرغزار، اُونچے درخت اور ننھی منی جھاڑیاں مُردہ اور بے جان ہیں۔ اگر حرکت پیدا کرنے والی ہوا موجود نہ ہو، اسی طرح ہر معاشرہ بھی اس وقت تک گونگا، بے جان اور حیوانی سطح پر زندہ ہے، اگر اُسے حرکت میں لانے والی چیز موجود نہ ہو، معاشرے میں روح پھونکنے والی چیز جو پیغام حیات کا درجہ رکھتی ہے، ہوا کی مانند کلچر ہے جس طرح دوران خون ہماری زندگی کی علامت ہے، اسی طرح کلچر معاشرے کے لیے دوران خون کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘ ۹؎
پروفیسر احتشام حسین کلچر اور سویلائزیشن کو باہم آمیز کرکے تہذیب کی تعریف متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جب ہم لفظ تہذیب استعمال کرتے ہیں تو اس سے کسی قوم یا ملک کی داخلی یا خارجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد ہوتی ہیں جنہیں اس ملک کے لوگ عزیز رکھتے ہیں اور جن کے حوالے سے وہ دُنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ انسانی قدروں کے بنانے اور محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں اپنی قومی تہذیب پیدا کرتا ہے۔ وہ تہذیب اس کے ماضی سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور دُنیا کی عام رفتار ِ ترقی سے نسبت رکھتی ہے۔ تہذیب قومی زندگی کی ساری جذباتی، روحانی اور مادی اُمنگوں اور خواہشوں کا احاطہ کر لیتی ہے، اس کو بناتی اور سنوارتی ہے، اسے ایک ایسا نصب العین بخشتی ہے جو زمانے کی ضروریات کا ساتھ دے سکے۔ وہ ان ساری طاقتوں کو سمیٹے ہوئے آگے بڑھتی ہے جو ماضی نے اُسے عطا کی ہیں۔ اس طرح تہذیب ایک قوم کے شعور کی مظہر بن جاتی ہے، لیکن اس کی سطح کبھی یکساں نہیں ہوتی کیونکہ تہذیبی اقدار یکساں طور پر ہر طبقے کی ملکیت نہیں ہوتیں۔‘‘ ۱۰؎
Carroll Quigley سویلزیشن کے بارے میں لکھتے ہیں:
"A civilization is complicated in the first place because it is dynamic that is it is constantly changing in the passage of time until. Furthermore a civilization is a part of social science that is it contains subjective elementand these are usually the more important eiemnet is the culture Accordingly ina civilization unlike a crystal what people think or feel can inflence what exist changing the object completely in the process .Inthe third place many aspects of a civilization are continua exist in such subtie gradation and in such varied degrees of abstratness that the division we make in it in the course of our analysis and the word we use a symbol to refer to our analytical division refect only very roughly the situation that exist in the reality itselt." ۱۱؎
تاریخ انسانی میں پہلے ہر جگہ ابتدائی کلچروں نے جنم لیا جنہوں نے چھوٹے انسانی گروہوں (قبائلی برادریوں) کے رویے اور سرگرمی کے نمونے تیار کیے ہیں۔کلچر کو تشکیل دینے والے ابتدائی انسان جو قبائلی زندگی کے حامل تھے کلچر کے تانے بانے میں شاذ ہی مداخلت کرتے تھے اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ انسان ابھی عقل کے اعتبار سے بہت پر اعتماد نہیں ہوا تھا اس لیے وہ اسے مداخلت بے جا تصور کرتا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ قبائلی نظام کی گرفت ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے جس میں روگردانی یا سر موانحراف کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔ اس کا مشاہدہ ہم ان علاقوں میں انسانی کلچر کے مطالعے سے کر سکتے ہیں جہاں آج بھی قبائلی نظام موجود ہے اور اب تو اس کی گرفت کافی کمزور پڑ چکی ہے تو جب کمزور گرفت کے باوجود اتنی اہلیت کا حامل ہے تو سوچیے جب اس کی گرفت بہت مضبوط تھی تب تو قبیلے کا کلچر قبائلی کو اپنی سرشت محسوس ہوتا ہو گا۔ اس لیے ابتدائی کلچر کے نقوش نہ صرف دیر تک روبہ عمل رہے بلکہ وہ جاری و ساری تہذیبوں میں ابھی تک اپنی جھلک قائم رکھے ہوئے ہیں اسی کو کلچرکاتسلسل کہتے ہیں۔


حوالہ جات

۱۔ رشید امجد، ڈاکٹر، ابتدائیہ پاکستانی ادب (جلد اوّل)، مرتبین: رشید امجد، فاروق علی، راولپنڈی: فیڈرل گورنمنٹ سر سید کالج، ۱۹۸۶ء، ص: ۹
۲۔ ابو الخیر کشفی، سید، ادب اور قومی شعور پاکستانی ادب (جلد اوّل)، مرتبین: رشید امجد، فاروق علی، راولپنڈی: فیڈرل گورنمنٹ سر سید کالج، ۱۹۸۶ء، ص: ۴۹۳۔ ۵۱۴
۳۔ غفور شاہ قاسم، پروفیسر، پاکستانی ادب ۱۹۴۷ء سے تا حال، لاہور: معراج دین پرنٹرز، ۱۹۹۵ء، ص: ۱۸
۴۔ حفیظ الرحمن خان، پاکستانی ادب کا منظر نامہ، ۲۰۱۸ء، ص: ۲۰
۵۔ سجاد باقر رضوی، پاکستانی تہذیب کا مسئلہ، مشمولہ کلچر، مرتبہ: اشتیاق بیگ، لاہور: بیت الحکمت، ۲۰۰۷ء، ص: ۷۷
۶۔ حمید احمد خان، پاکستان کی تہذیبی روایت، مشمولہ تعلیم و تہذیب، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۵ء، ص: ۱۰۹
۷۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، پاکستانی کلچر، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۲ء، ص: ۴۲
۔۸ Oxford English Dictionary (5th Edition), Claranden Press, 1961, p. 1482
۹۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، پاکستانی کلچر، ص: ۴۲
۱۰۔ احتشام حسین، ادب اور تہذیب، مرتبہ: اشتیاق احمد، مشمولہ کلچر: منتخب تنقیدی مضامین، لاہور: بیت الحکمت، ۲۰۰۷ء، ص: ۱۵۹
۔۱۱ Carrell Quigley, The Evolution of Civilizations, New York: Macmillan Company, 1961, p. 85

Comments

Click here to post a comment