اپریل 2019 میں بھارت میں عام انتخابات ہوئے۔ان عام انتخابات میں آر ایس ایس نواز بی جے پی جماعت کامیاب ہوئی اور نریندر مودی نے دوبارہ وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار کی کرسی سنبھالی۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس حکومت نے سنگ دلی و عصبیت کا سب سے بڑا قدم اٹھایا اور کشمیر کی حق خود ارادیت پر شب خون مارتے ہوئے اس کی خودمختاری کو چیلنج کیا۔
بی جے پی حکومت کے قیام کو ابھی چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے پارلیمان سے اندھے قوانین پاس کرنے کا گھناونا عمل شروع کیا۔5 اگست 2019 کو بھارتی پارلیمان نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا۔آرٹیکل 370 کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ کشمیر کو اپنا آئین اور اپنا جھنڈا دیتا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی اور اس کے آئین اور جھنڈے کو بھی ضبط کیا گیا۔
اسی پر بس نہیں ہوا۔ بی جے پی حکومت نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ 35 اے کو بھی ختم کردیا ۔ دفعہ 35-اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں و کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے، اگر وہ یہاں پیدا ہواہو۔دفعہ 35-اے کے خاتمے کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں سے لوگوں کی کشمیر میں آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا ۔
نتیجے کے طور پر گذشتہ تین برسوں میں جموں و کشمیر میں پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے۔تاجر برادری کا 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ۔ 200 سے زائد وہ مرکزی قوانین لاگو کر دیے گئے جن کی وجہ سے لوگ اپنی شہریت، ملازمت، جائیداد اور زرعی زمینوں سے محروم کیے جا رہے ہیں۔
ظلم پر ظلم سے جب بات نہیں بنی تو بھارت نے لاقانونیت کی ہر حد پار کردی ۔6 اگست 2019 کو ری آرگنائزیشن کے نام سے ایک ایکٹ بھی منظور کرایا گیا۔اس ایکٹ نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں (جموں و کشمیر اور لداخ)میں تقسیم کیا، اور دونوں حصوں کو بھارتی مرکزی حکومت کے زیر انتظام بھی کیا اور اس کے لیے ایک قانون ساز اسمبلی کے قیام کی منظوری دی، جو بظاہر ایک بے اختیار قانون ساز اسمبلی ہے۔
یوں ایک دن کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کی گئی اور ا گلے روزتمام امور پر ان سے فیصلوں کا حق بھی چھینا گیا۔ ظلم اور لاقانونیت کی یہ داستاں ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کالے قوانین کے اطلاق کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیر میں بلیک لسٹ بھی متعارف کرائی۔اس لسٹ میں صرف منتخب نیوز سائٹ شامل ہوتے ہیں، جس کا انتخاب وہی کرتے ہیں جہاں کشمیریوں کا اس کے علاوہ باقی نیوز سائٹ تک رسائی ناممکن بنا دی گئی۔
بھارت کے غیر انسانی کالے قوانین بنام اپنے عوام
بھارتی ظلم اور جبر کی داستاں محض کشمیر تک محدود نہیں۔ ہندوستان کے اپنے شہری اور اقلیت بھی ان کے شکنجے میں بری طرح پس رہے ہیں۔ آئے روز ان پر معمولات زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔ قومی رجسٹر برائے شہریت نے تو گویاں انہیں اپنا ماننے سے بھی انکارکردیا ہے۔
یہ رجسٹر شہریوں کو شہریت فراہم کرتی ہے۔ اس میں اپنا نام درج کرانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ شہری کے پاس لیگیسی دستاویز موجود ہو۔جو بھی اس دستاویز کو فراہم کرنے سے قاصر ہوتا ہے، اس کی شہریت ضبط کردی جاتی ہے۔
بھارت کے قومی رجسٹر برائے شہریت نے 31 اگست 2019 کو اپنی پہلی لسٹ شائع کی۔ اس لسٹ میں تقریبا آسام سے 19 لاکھ بنگالیوں کی شہریت ضبط کردی گئی اور انہیں شہری ماننے سے انکار کردیا گیا۔اس کے کچھ ہی ماہ بعد 11 دسمبر 2019 کو citizenship amendment act بھی پاس کرایا گیا۔ اس ایکٹ کے بعد قومی رجسٹر برائے شہریت کا اطلاق پورے ہندوستان پر کیا گیا۔ لوگوں کی شہریت ضبط کی گئی، انہیں ملک بدر کرنے پر مجبور کیا گیا۔
بے جی پی نے اپنے مذموم مقاصد کا بازار گرم رکھا اور نومبر 2019 میں Unlawful activities prevention actپاس کیا جس نے دہشت گردی کی تعریف میں توسیع کر کے چھوٹے سے چھوٹا جرم کرنے والے کو بھی دہشت گردی کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا، اور پھر مئی 2019 جب بابری مسجد کو ڈھایا گیا۔ ہندو انتہاپسندوں نے 2000 کے قریب مسلمانوں کا قتل عام کیا جہاں انہیں بدستور حکومتی سرپرستی حاصل رہی۔
یہ بی جے پی حکومت کی فقط چند ماہ کی روداد ہے۔ دونوں ادوار پر مشتمل ظلم و جبر کی ترتیب مرتب کی جائے تو شاید صفحات کم پڑجائے.
تبصرہ لکھیے