ہوم << فین مومنٹ -سعدیہ مسعود

فین مومنٹ -سعدیہ مسعود

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے ناں کہ کہانی، فلم، ڈرامے یا لطیفے کے کسی کردار سے حقیقت میں ملاقات ہو جاتی ہے۔آپ بندہ دیکھتے ہی کسی کہانی کے کردار سے اسے ریلیٹ کر لیتے ہیں۔
بچپن میں ایک پٹھان چوکی دارکو میں حاتم طائی سمجھتی تھی۔ کیوں کہ وہ لمبا چوڑا بندہ زیادہ بولتا نہیں تھا ،بس رات بھر موٹا سا ڈنڈا ہاتھ میں لیے مین سڑک پر پہرہ دیتا۔،کبھی کبھی ڈنڈا زور سے زمین پر مارتا اور کبھی سیٹی بجاتا۔ دن کے وقت کبھی ابو کے ساتھ باہر جا رہی ہوتی ، وہ چوکی دار راستے میں ملتاتو ابوخوش دلی سے اسے ملتے۔ میرے سلام کرنے پر وہ جیب سے کوئی ٹافی یا مونگ پھلی، کبھی ریوڑی یا چلغوزے نکال کر دیتا۔جی اس زمانے میں چلغوزے سستے تھے، عام مل جاتے ۔ ویسے ہم سرائیکی میں چلغوزوں کو نیوزے کہتے ہیں۔ میں اس چوکیدار کی رات بھر کی نیند کی قربانی اور ہر بار ملنے پر کھانے کی کوئی نا کوئی چیز دینے پر سمجھتی تھی، ایسا تو صرف حاتم طائی ہی کر سکتا ہے۔
کچھ بڑی ہوئی تو کہانیاں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ سرگزشت ڈائجسٹ میں معروف فکشن رائٹر طاہر جاوید مغل کی سلسلہ وار کہانی تاوان چھپا کرتی۔ وہ کہانی مجھے بہت پسند تھی ، میرے ابو بھی دلچسپی سے اسے پڑھا کرتے۔ کہانی کے ہیرو کا نام شاہ جہاں عرف استاد جہانی تھا۔جہانی استاد کاکردار بڑا شاندار تھا،بلا کا فائٹر، چالاک، شاطر کسی کے ہاتھ نہ آنے والا۔ وہ کبھی پاکستان، کبھی بھارت، سری لنکا اور یوں ملک ملک گھومتا پھرتا۔ مجھے تب لگتا تھا کہ یہ حقیقی کردار ہے۔ ایک آدھ بار کہانی میں ہمارے شہر کا نام بھی آیا کہ جہانی استاد یہاں سے گزرا ۔ تب سے مجھے تاوان کے ہیرو جہانی استاد کی تلاش رہتی کہ وہ شائد یہیں کہیں بھٹک رہا ہوگایا بھیس بدل کر بھارتی دہشت گردوں اور سمگلروں کے پیچھے پڑا ہوگا۔
سکول کے لیے رکشہ لگوایا ہوا تھا،مجھے اسی رکشہ والے پر شک تھا کہ کہیں وہی جہانی استاد تو نہیں۔دراصل اس کی شکل رسالے میں چھپنے والے سکیچ سے بہت ملتی تھی۔ سکول آتے جاتے کرید کرید کر اس سے اس کے بارے میں سوال پوچھا کرتی۔ جیسے منظور بھائی آپ کبھی انڈیا یا سری لنکاگئے ہیں ؟ کبھی کسی عرب شیخ سے ملے ہیں ؟ اچھا کبھی آپ کا کوئی دوست سائیں عالی(تاوان ہی کے ایک اور مشہور کردارکا نام) تھا ؟ پھرمیں ابوکو رپورٹ دیتی اور رات کو دیر تک ہم باپ بیٹی پورا تجزیہ کرتے کہ اس نے سچ بتایا یا جھوٹ۔
مجھے ایک دلچسپ تضاد یہ بھی لگا کہ رکشے والا منظور بھائی لمبا چوڑا، بڑی مونچھوں والا تھا، مگر اس کاسگا بھائی جو سامنے والی کوٹھی میں ملازم تھا اور وہیں کوارٹر میں رہتا تھا، وہ بالکل مختلف اور مریل سا تھا۔ابو کو میں نے اپنی ریسرچ سے آگاہ کیا کہ یہ دونوں سگے بھائی نہیں ہوسکتے ۔پھر ایک دن ان کی ماں ہمارے گھر آئی تو پتہ چلا کہ دونوں بھائی ہی ہیں اور دوسرا زرا بیمارا شمار رہا تھا۔تاوان ناول میں جہانی استاد کی بیوی غزالہ ڈاکٹر اور دلکش خاتون تھی۔ ہمارے رکشے والے مشکوک منظور بھائی کی بیوی سے مل کر مایوسی ہوئی ۔ روز روز کی جاسوسی کے بعد ایک دن ابو نے نکتہ اٹھایا جس نے قائل کر دیاکہ کہانی کے حساب سے جہانی استاد کی عمر اس وقت زیادہ ہونی چاہیے، جب کہ منظور بھائی کی عمر کم ہے۔
یہ سب باتیں مجھے کل لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کی ادبی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے یاد آگئیں۔سوشل میڈیا پر آج کل ایک کہانی وائرل ہے جس کے مطابق ایک خاتون اپنے بچوں اور فیملی سمیت انجان لوگوں کی شادی میں شریک ہو کرمفت کے کھانے اڑاتی اور پانچ سات ہزار کا کھابا کھا کرسلامی کے پانچ سو بھی دے آتی۔آخر ایک روز کسی ہوشیارچالاک ویٹر کو شک ہوا کہ یہ بی بی ہر شادی میں ہوتی ہیں، آخر اتنی مقبول کیسے ہوگئیں کہ ہر کوئی بلا لیتا ہے؟چیک کرنے پر پتہ چل گیا کہ بن بلائی مہمان ہیں اور ٹبر سمیت کھابا اڑانے آتی ہیں۔
یقین کریں کہ اس تقریب میں میرے ساتھ والے صوفے پر شائد وہی خاتون موجود تھیں۔سچ میں وہی تھیں، بتاتی ہوں کیسے۔۔۔۔
تقریب شروع ہونے سے پہلے وہ دو تین لوگوں کو جوگفتگوسے ان کے بچے لگ رہے تھے، انہیں فون کر کے کہتی رہیں کہ یہاں آ جاﺅ،لوکیشن بھیج رہی ہوں، ادبی بیٹھک ہے، اچھا ماحول ہے۔ پھر رازداری سے کہتیں " ریفریشمنٹ بھی ہے " آخری جملہ وہ اپنے رائیٹ سائیڈ پر جھک کر کہتی تاکہ بائیں جانب بیٹھی خاتون نا سن لیں۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ رائیٹ سائیڈ پرمیں بھی بیٹھی ہوں۔
ان کی کوئی اولادتو نہیں پہنچی جس پر وہ قدرے خفا اور برہم بھی نظر آئیں۔ مجھے یقین آ گیا کہ وہ شادیوں پر بن بلائے ٹبر سمیت پہنچنے والی مشہور خاتون ہی ہیں۔ بس آج ناہنجار اولاد بستر سے نہیں نکل رہی۔ ویسے کافی نیک لگ رہی تھیں، ہاتھ میں تسبیح تھی، دیر تک پڑھتی بھی رہیں، ممکن ہے ناہنجار ویٹروں کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کا کوئی وظیفہ ہویاحفاظت کا کوئی حصار۔
تقریب شروع ہونے کے بعد ان کی توجہ تقاریر کی طرف چندلمحوں کے لئے مبذول ہوئی۔پھر اکتا کر انہوں نے کچھ کام وہیں بیٹھے بیٹھے ہی نبیڑ دیئے، جیسے تسمے والے بوٹ اتار کر ایک پاوں میں پہنی جراب جس پر مروڑیاں آچکی تھیں انہیں نوچ نوچ کر صاف کر ڈالا۔ میرے ڈیلے باہر آنے ہی والے تھے کہ یہ کیا کر رہی ہیں لیکن انہوں نے تیزی سے دو ڈھائی منٹ میں ایک جراب صاف کر لی۔ ڈیلے میں نے واپس آنکھوں میں ڈال کر سیٹ کر لیے۔ دوسری جراب چھوڑ دی، شائد اس لیے کہ سٹیج پر کافی اچھی گفتگو ہو رہی تھی۔ کچھ دیر میں انہیں خیال آیا کہ ہینڈ بیگ کی سٹرپ کے دھاگے نکل رہے ہیں، کیوں نا انہیںبھی صاف کر لیں، شائد اگلے دن وہ مصروف ہوں گی۔ تو بیٹھے بیٹھے پوری سٹرپ بھی صاف کر دی۔
فرصت کے انہی لمحات میں اپنے فیس بک پر بھی نظر ڈال کے اپ ڈیٹ ہو جاتیں۔ ایسے ہی میری نظر پڑ گئی تھی تو کسی مولوی صاحب والی وڈیو پلے تھی۔ مجھے پورا یقین ہے انہوں نے ہرگز نہیں سنی لیکن شائد ان کے فیورٹ ہوں گے تو انہیں واچ ٹائم دینے کے لیے ہی پلے کر رہیں تھیں۔ کچھ دیر کے لیے میڈم نور جہاں بھی ان کی فون سکرین پر نظر آئیں لیکن سمجھ نہیں پائی میڈم سے اس محبت کی کیا وجہ تھی؟ ممکن ہے میڈم کی ساڑھی یا میک اپ وغیرہ پسند آگیا ہو۔
ارے آپ سب سمجھ رہے ہیں کہ ادبی بیٹھک میں بیٹھ کر بجائے میں بڑے بڑے لوگوں کی گفتگو سنتی ،سارا وقت میں ایک خاتون کے پیچھے ہی پڑی رہی تو جناب ایسا بالکل نہیں ہے ۔میں سن رہی تھی، سب سن رہی تھی ۔ لیکن ذرا سوچیئے ایک کہانی کے کردار،ایک سلیبرٹی کے قریب ہونا کتنا خوش گوار ہوتا ہے نا۔ آپ اس کی ایک ایک حرکت اپنے ذہن میں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایک بات غور سے سنتے ہیں۔ اس کی مسکراہٹ ،اس کے پلک جھپکنے تک کو اشتیاق سے دیکھتے ہیں۔ تو میں بس اسی فین مومنٹ (Fan Moment)میں تھی۔
انجان شادیوں میں بن بلائے گھس کر کھانا کھانا میری لائف ٹائم خواہش میں سے ایک ہے۔ بدقسمتی سے جو کبھی پوری نہ ہوئی۔ پہلے ابو کی ڈانٹ کا خوف اور اب صاحب کی تیکھی نظروں کے لحاظ سے ہمت ہی نہیں کر سکی۔ کل مجھے اپنی ہیرو نظر آئی تو کیوں نہ یہ قیمتی پل ان کے ساتھ گزارتی۔

Comments

Click here to post a comment