کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن غور کریں تو نہ ہم مسلمان ہیں اور نہ ہی کسی اور مذہب کے پیروکار۔ نام بے شک مسلمانوں جیسے ہیں لیکن کام وہ ہیں جس کو دیکھ کر یہود و نصٰریٰ بھی شرما جاتے ہیں۔
اس وقت جو بات کی جا رہی ہے وہ پاکستان اور پاکستانیوں کی جا رہی ہے کیونکہ اس موجودہ دنیا کا یہ واحد ملک ہے جس کو آج سے 75 برس پہلے مذہبِ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ جس خطہ زمین کو حاصل ہی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کیا گیا ہو اور جس کی 99 فیصد سے زایادہ آبادی کا یہ دعویٰ ہو کہ وہ "مسلمان" ہیں لیکن وہاں اسلام نام کی اس کے علاوہ اور کوئی اور چیز نہ پائی جاتی ہو کہ پانچ وقت اذانوں کی آوازیں بلند ہوتی ہوں، جس کو "اسلام" کا نام دیا جا سکے تو ایسے ملک کو "اسلامی جمہوریہ" کا خطاب دینا ایسا ہی ہے جیسے نعوذ اباللہ شراب کی بوتل پر آبِ زم زم لکھ دیا جائے۔
اگر کوئی زمین مسجد کے نام پر حاصل کی جائے لیکن عمارت کے مکمل ہوجانے پر، ہوبہو مسجد ہی کی شکل کی کیوں نہ ہو، وہاں بازارِ حسن کھول لیا جائے اور شرابیں لنڈھائی جاتی ہوں تو اس کے خلاف صرف اس لئے آواز اٹھا جرم سمجھا جائے کہ اس زمین کا حصول مسجد کے نام سے منسوب ہے، جائز ہوگا؟۔ مسجد تو وہ بھی ڈھادی گئی تھی جو مسجد ہی تھی، عمارت کی شکل بھی ہو بہو مسجد کی مانند تھی، پانچ وقت اذان کی آواز بھی بلند ہوتی تھی اور پانچ وقت باجماعت نماز بھی ادا کی جاتی تھی۔ بات صرف یہ تھی کہ وہ مسجد ہوتے ہوئے بھی دعوتِ حق دینے کی بجائے شیطانی راستوں کی جانب لے جانے والی تھی اسی لیے وہ مسجد ہوتے ہوئے بھی مسجدِ ضرار کہلائی اور اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔
جس خطہ زمین کو مسجد کے نام پر حاصل کرنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اس کی شکل و صورت کو ہی مندر، کلیسا یا کنشت بنا کر رکھ دیا ہو اور جہاں اللہ کے قانون کی بجائے روزِ اول سے ہی اُس برطانیہ کا آئین و قانون چلتا ہو جس سے آزادی حاصل کرنے میں 20 لاکھ سے زیادہ جانی قربانیاں دی ہوں، عزتیں لٹی ہوں، مال و دولت کو برباد کیا ہو اور گھربار کو خیر آباد کہہ کر ہجرت کے عذاب کو چھیلا ہو، اس کے خلاف اگر کہیں آواز بلند ہو رہی ہو تو محض یہ کہہ کر کہ یہ اٹھنے والی آواز اسلام اور پاکستان کے خلاف ہے لہٰذا ایسے تمام افراد مرتد، غدار اور واجبِ قتل ہیں، تو کیا یہ بات خلافِ عدل و انصاف نہیں۔ اصل واجب القتل تو ملک کے وہ حکمران ہیں جن کی ذاتی زندگی سے لیکر عنانِ حکومت کی ذمے داریوں تک، ہر عمل اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت پر قائم ہے اور جو اس بات کیلئے کسی صورت تیار و آمادہ نہیں کہ اس ملک میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو نہ صرف نافذ کیا جائے بلکہ ہر وہ فرد جو اس سے انکار کا رویہ اختیار کرے اسے ملک کی سرحدوں سے باہر دھکیل دیا جائے۔
در اصل ہم نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں، نہ ہی تیتر ہیں اور نہ ہی بٹیر۔ نہ تو ہمیں مسلمانوں کی طرح رہنا آتا ہے اور نہ ہی ہم مغرب کے پیروکار ہیں۔ گویا ہم اپنے ہی آپ سے دست و گریبان ہیں اسی لئے کبھی ہم پر ہمارا مسلمان ہونا غالب آجاتا ہے اور کبھی ہم پر مغرب کا جن چڑھ کر ہمیں اپنے قابو میں کر لیتا ہے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بھی کہتے ہیں لیکن اس قلعہ کی دیواروں کے اندر خلافت کی بجائے "جمہوریت" کو رائج دیکھنا چاہتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خلافت میں حاکم اعلیٰ اللہ ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے۔ خلافت میں خلیفہ اللہ کی مرضی اور احکام کا پابند ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں حاکم عوام کی منشا کا غلام ہوتا ہے۔ خلافت اللہ کیلئے ہوتی ہے جبکہ جمہویت عوام کیلئے۔ یہ بات لادین، دنیا پرست یا ملحدانہ نظریہ رکھنے والے کہیں اور کریں تو بات کسی حد تک سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن ہمارا دین دار طبقہ، علمائے کرام اور مذہبی جماعتیں بھی ایسا ہی کریں تو پھر دعائے خیر کے علاوہ اور رہ ہی کیا جاتا ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ ہم اسلام کے ساتھ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ جمہوریت کی پیوندکاری کو جائز کئے ہوئے ہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ جس طرح ہم اسلام سے مخلص نہیں بالکل اسی طرح ہم جمہویت کے ساتھ بھی مذاق پر مذاق کرتے چلے آئے ہیں۔ بات جب جمہور کی ہوتی ہے تو پھر جس جس کو جمہور اپنا نمائندہ بنا کر ایوان میں پہنچاتا ہے، ہم اسے ماننے کی بجائے مقتدر قوتوں کے ساتھ الحاق کرکے اسے زمین بوس کرنے کی جد و جہد میں لگ جاتے ہیں۔ مجیب کو زمین بوس کرنے کیلئے ہم اس وقت کی مقتدرہ سے گٹھ جوڑ کر بیٹھے۔ بھٹو کو ہٹانے کیلئے غیر جمہوری قوتوں کی کمر پر سوار ہوئے۔ پہلے احتساب پھر انتخاب کی مہم میں اس دور کے تمام جمہوریت کی چمپینوں نے ضیا الحق کا ساتھ دیا۔ اور اس کے بعد جتنی بھی حکومتیں بنیں ان کا انجامِ کار بھی سو فیصد غیر جمہوری تحریکوں کی شکل میں سامنے آیا۔
جس طرح نماز سے پہلے نماز کی بہت ساری شرائط کے بعد ہی نماز کی قبولیت ممکن ہے اسی طرح ہر انتخاب سے قبل انتخابات کی جتنی بھی شرائط ہیں اگر ان کو کماحقہ پورا نہیں کیا جائے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ "نمازِ جمہوریت" ادا ہو جائے گی۔ مردم شماری کا درست ہونا، حلقہ بندیوں کا دیانت دارانہ ہونا، ووٹر لسٹوں کا ختمی ہونا، ہر حلقے میں ووٹروں کا متوازن ہونا اور الیکشن کمیشن کا صاف اور شفاف الیکشن کرانے کا اہل ہونا جیسے معاملات اگر درست نہ ہونگے تو ہر الیکشن کا نتیجہ اسی طرح فتنہ و فساد کی صورت میں سامنے آئے گا جیسا ماضی میں آتا رہا ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہر جماعت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا حریف اول تو میدان ہی میں نہ رہے اور اگر رہے بھی تو اتنا ناتواں بنا دیا جائے کہ اس کی ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں۔ جماعتوں کے سربراہوں کو نااہل کر دیا جائے، پارٹیوں کو بنا ثبوت و عدالتی کارروائی یا تو کالعدم کر دیا جائے یا کالعدم کرنے جیسا معاملہ کر دیا جائے، جس پارٹی کو الیکشن سے دور رکھنا مقصود ہو اس کے دم میں نمدہ کس دیا جائے۔
ووٹر ٹرن اور خواہ 3 یا 13 ہی کیوں نہ ہو، اسے درست سمجھ لیا جائے جیسا عمل اگر جمہوریت ہے تو پھر ایسی جمہوریت پر فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔ میں تو صرف اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ ہم مسلمان تو مسلمان، کچھ بھی نہیں صرف چوں چوں کا مربہ ہیں، نہ تیتر ہیں نہ بٹیر اور نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں بلکہ موقع پرست ہیں اور جہاں مفاد دیکھتے ہیں اسی صف میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے