ہوم << رواں ہے قافلہ ارتقائے انسانی (پہلا حصہ) - زاہدہ حنا

رواں ہے قافلہ ارتقائے انسانی (پہلا حصہ) - زاہدہ حنا

فطرت عطر بیز ہوائوں کی تقسیم میں فقیر اور امیر کی تشخیص نہیں کرتی۔ بھوک راجا کو بھی لگتی ہے اور پرجا کو بھی۔ ملکہ ہو یا کنیز، بچے جنم دیتے ہوئے دونوں جس درد سے دوچار ہوتی ہیں، فطرت اس میں کوئی تفریق روا نہیں رکھتی اور میدان جنگ میں زخم آقا کو آئے یا غلام کو، اس سے جنم لینے والی اذیت دونوں کے لیے یکساں ہوتی ہے۔

یوں تو فطرت اپنی نوازشوں میں دپایوں اور چوپایوں کا فرق بھی نہیں رکھتی لیکن انسان حیوانوں پر فوقیت اس لیے حاصل کرسکا ہے کہ ارتقائی مراحل سے گزر کر اور فطرت کی سختیوں کو سہہ کر اس نے شعور حاصل کیا اور شعور ہی وہ ستون ہے جس پر انسانی وجود کی بنیاد ہے اور جس سے تہذیب و تاریخ کے فکر و فن کے سائنس اور فلسفے کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ انسان لاکھوں برس کے ارتقائی مراحل سے گزر کر اب اس منزل پر آیا ہے جہاں اس کا شعور، اس کی حیوانی جبلت سے پنجہ آزما ہے اور یہ شعور ہے جو انسان کو حیوان ناطق کی سطح سے اٹھا کر ایک خوش خیال اور خوش جمال وجود کی حیثیت دلانا چاہتا ہے۔ اس کی ہستی کو ارتقا کی بلندیوں پر لے جانے کا خواہاں ہے۔

گزشتہ تین سو برس میں ریاستیں، ریاستوں کی انجمنیں، مفکر اور دانشور حقوق انسانی کے بارے میں اپنے اپنے طور پر غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ آج حقوق انسانی کے لیے کام کرنیوالے افراد اور انجمنیں، اقوام متحدہ کے جس عالمی منشور برائے حقوق انسانی پر ناز کرتی ہیں اور جس کی روشنی میں اپنی جدوجہد کی سمت متعین کرتی ہیں، اس عالمی منشور کا دھندلا سا خیال ہمیں سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے مفکرین لاک اور روسو کے یہاں نظر آتا ہے۔ 1688 کا برطانوی بل آف رائٹس، 1789 کا فرانسیسی Declaration of the rights of man and of the citizen۔ 1791 کا امریکی بل آف رائٹس، حقوق انسانی کے مکمل حصول کی طرف انسانی شعور کے سفر کے مختلف مراحل ہیں۔

حقوق انسانی کی تحریک پر گفتگو کرتے ہوئے جب بار بار اقوام متحدہ کے عالمی منشور برائے حقوق انسانی کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس وقت ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس منشور کے پیش کیے جانے سے چوبیس برس پہلے سے متعدد دانشور ایک ایسی دستاویز تیار کرنے کی سنجیدہ کوششیں کر رہے تھے۔ یہ کوششیں پہلی جنگ عظیم کے چند برس بعد ہی شروع ہوگئی تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران فوراً بعد یہ کوششیں بہت تیز ہو گئیں۔

ان دونوں عالمی جنگوں کے دوران اور اس کے بعد انسان کے ہاتھ انسانیت کی شدید تذلیل نے اس وقت کے دانشوروں، مفکروں اور سیاستدانوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اس بارے میں گہرے غور و فکر سے کام لیں۔ 1924ء میں ماہر قانون جی ڈیل ولیشیو نے ایک کتابچہ تحریر کیا جس کا عنوان تھا Justice, and historical and philosophical essay ۔ اس کے علاوہ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل لاء کے 1929 کے، 1936 International declaration of rights of man میں جرمن وکیل ہنرخ رومین کی، 1942 The natural law میں نازی ازم کی انسان دشمن لہر کے دوران سفید گلاب تحریک کے نام سے میونخ میں کام کرنے والے جرمن طلبہ کے کتابچے، 1941 میں روز ویلٹ کا پیغام، چار آزادیاں، 1944 میں جیکوئس ماریشنز کے مضمون، انسانی حقوق ایک منصوبہ اور 1945 میں پروفیسر ایرش لاٹر پاخت کا International bill of the rights of man خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔

اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دنیا جب دوسری جنگ عظیم کے زخموں سے نڈھال تھی، اس وقت 6 جنوری 1941 کو امریکی صدر روز ویلٹ نے جب یہ کہاکہ انسان کو تحریر و تقریر کی، عقیدے کے اختیار کی آزادی ہونی چاہیے اور اسے احتیاجات سے اور خوف و خطر سے آزادی ملنی چاہیے تو دراصل یہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کا مرکزی خیال تھا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حقوق انسانی کا جو عالمی منشور 10 دسمبر 1948 کو پیش کیا گیا اس کے مسودے پر 1944 سے 1948 یعنی چار سال کی مدت تک غور و فکر ہوا اور بحث و تمحیص کی کی گئی۔ یہ منشور کسی ایک شخص کا لکھا ہوا نہیں، متعدد مغربی مفکرین اور سیاسی مدبرین اس کی تیاری کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے۔

انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی مسودے تیار کیے جس کے بعد مجوزہ مسودہ جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا اور وہاں بھی اس پر تین ماہ کی مدت تک بحث و تمحیص ہوتی رہی اور اس کے بعد اسے منظور کرلیا گیا۔10؍ دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسے پیش کرتے ہوئے دستاویز کے مسودے کی کمیٹی کی صدر مسز ایلیز روز ویلٹ نے کہا تھا ’’یہ ممکن ہے کہ یہ دستاویز تمام انسانیت کے لیے بین الاقوامی میگنا کارٹا کی حیثیت اختیار کر لے اور آج اگر جنرل اسمبلی اسے منظور کرلیتی ہے تو اس کی اہمیت کا تقابل 1789میں ڈیکلریشن آف دی رائٹس آف مین کی منظوری سے کیا جائے گا۔‘‘ ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں بہت سے سیاسی مبصرین، ماہرین قانون اور دانشوروں کو مسز روز ویلٹ کا بیان ضرورت سے زیادہ خوش امیدی کا مظہر نظر آیا ہو .

لیکن آج محسوس ہوتا ہے کہ اس منشور نے دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو جینے کا حوصلہ دیا ہے۔ اس کی موجودگی کے سبب استبدادی حکومتوں پر مسلسل ایک دبائو قائم رہتا ہے جس کی وجہ سے انقلابی سوچ رکھنے والے بعض دانشوروں، سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کی قید و بند کی زندگی نسبتاً سہل گزرتی ہے۔ ایک ایسے تباہ حال زمانے میں شرف انسانی کا اور انسانیت کی عظمت کا خواب دیکھنا یقینا بہت سے لوگوں کو دیوانے کا خواب محسوس ہوا ہوگا۔ یہ خواب جو انسانی حقوق کے عالمی منشور کی صورت میں کاغذ پر تحریر ہوا، اس نے ہر انسان کو یاد دلایا کہ وہ نسل، صنف، مذہب، رنگ، زبان، عقیدے اور سیاسی نظریے کی تفریق اور تمیز کے بغیر ’’عظیم انسانی خاندان‘‘ کا ایک فرد ہے۔

اس کا وقار کسی دوسرے انسان کے وقار سے کم نہیں اور اس کا رتبہ کسی دوسرے انسان کے رتبے سے زیادہ نہیں۔ وہ آزاد پیدا ہوا ہے، شعور رکھتا ہے اور اس شعور کی زندگی میں وہ اس کائنات کا سب سے ذمے دار اور خوبصورت وجود ہے۔ روزگار، علم و انصاف کا حصول، زندگی کی ضمانت، ترقی کے مساوی مواقع اور تحریر و تقریر کی آزادی اس کے پیدائشی حقوق ہیں۔

سیاسی، مذہبی، نسلی، لسانی یا صنفی بنیادوں پر اسے اس کے کسی بھی بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور دنیا کی ہر مملکت اور اس کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اس دستاویز کا احترام اور اس کے نکات کی پاسداری کریں۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور وہ بنیادی دستاویز ہے جس سے انسانوں نے دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں کے لیے، بوڑھوں اور بچوں کے لیے، کالوں اور گوروں کے لیے، امیروں اور غریبوں کے لیے ایک آزاد، پرسکون، خوشحال اور مساوی مواقع مہیا کرنے والے سماج کی طرف سفر کے پہلے قدم کا آغاز ہوا۔

جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو 1948 میں جاری ہونے والے اس عالمی منشور نے انھیں وہ تمام حقوق دلائے جو مردوں کو دیے گئے تھے لیکن ہزاروں برس سے کچلی ہوئی اور گوناگوں مسائل سے دوچار عورت کو محض اس عالمی منشور کے ذریعے وہ تحفظات حاصل نہیں ہو سکتے تھے جس کی اسے ضرورت تھی۔ چنانچہ 1953میں Convention on the political rights of women تیار ہوا اور 7 جولائی 1954سے اس پر عملدرآمد کا آغاز ہوا، اس کے بعد 1967میں Declaration on elimination of discrimination against women پیش ہوا، جسے جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔

پاکستان بنیادی حقوق کے عالمی منشور پر دستخط کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ اقوام متحدہ کی اہم دستاویزات کا دستخط کنندہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بنیاد پر پاکستان میں تمام انسانوں کو مساوی حقوق حاصل ہوتے اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ مناسب برتائو کیا جاتا لیکن پاکستان کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ آمریت کے سائے میں بسرہوا، اسی لیے یہاں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثالیں قائم ہوئیں۔ جہاں پاکستانی مردوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا، وہیں پاکستانی عورت کو ایسے امتیازی قانون کا نشانہ بنایا گیا کہ جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ (جاری ہے)

Comments

Click here to post a comment