ہوم << انجام خدا جانے-محمد اکرم چوہدری

انجام خدا جانے-محمد اکرم چوہدری

عمران خان عوامی سطح پر مقبول تو ہیں پاکستان میں عوامی مقبولیت رکھنے والے سیاسی رہنماؤں یا حکمرانوں کی تاریخ بہت اچھی نہیں ہے۔ یہاں کوئی بھی طویل عرصے کے لیے عوام کا پسندیدہ نہیں رہا۔

نہ ہی کسی سیاستدان یا حکمران کو پاکستان کے عوام نے ناگزیر سمجھا ہو۔ مختلف وقتوں میں مختلف سیاستدان عوام میں مقبول ہوئے اور اپنے اپنے وقتوں میں بہت مقبول بھی رہے، ایک وقت میں فوجی حکمران بھی عوام میں خاصے مقبول تھے۔ صدر ایوب خان اور صدر ضیاء الحق بھی اپنے اپنے وقتوں میں عوامی مقبولیت رکھتے تھے۔ صدر ایوب خان جب تک حکومت میں تھے لوگ انہیں پسند کرتے تھے اور بہت پسند کرتے تھے ان کے دور حکومت کے اخبارات دیکھیں تو آپکو اندازہ ہو گا کہ ملک میں کس حد تک معاشی سرگرمیاں تھیں، ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کس حد تک کام ہوتا تھا.

انڈسٹری لگ رہی تھی، پاکستان دنیا کے ساتھ جڑ رہا تھا، پاکستان میں لوگوں کے لیے زندگی آسان تھی، جرائم کم تھے، مسائل کم تھے، وسائل میں اضافے کے لیے کام ہو رہا تھا لیکن تمام تر اچھے کاموں اور عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے، معیشت کو مضبوط کرنے اور عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے باوجود ایک وقت ایسا آیا کہ لوگ ایوب خان سے بھی بدظن ہوئے اور جب وہ کوئی بہت اچھے انداز میں حکومت سے الگ نہیں ہوئے اور نہ ہی بعد میں انہیں عوامی حمایت حاصل ہو سکی۔ حالانکہ انہوں نے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے بہت کام کیے لیکن جب لوگوں کے دل سے اترے تو بس پھر اتر گئے۔اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی عوامی مقبولیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

ان کی ایک آواز پر لوگ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوتے تھے، عوامی اجتماعات سے خطاب کے دوران شرکاء کے لہو کو گرمانا اور انہیں جذباتی انداز میں اپنی طرف کھینچنے میں ذوالفقار علی بھٹو کو ملکہ حاصل تھا۔ وہ عوام میں مقبول ہوئے لیکن اختتام اچھا نہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر آج بھی لوگ ووٹ ڈالتے ہیں۔ بالخصوص اندرون سندھ میں ان کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ لوگ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عام آدمی کو آواز بلند کرنے، سوال کرنے اور اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونے کا درس دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو حقیقی معنوں میں ایک عوامی لیڈر تھے، انہوں نے کئی بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کا مقدمہ بھی نہایت بہترین انداز میں لڑا، اپنی جارحانہ سیاست اور بات چیت کی بہترین صلاحیتوں کی بدولت لوگوں کے دلوں میں گھر کیا لیکن ان کے اقتدار کا اختتام بھی بہت اچھے انداز میں نہیں ہوا ناصرف اقتدار نامناسب انداز میں ختم ہوا بلکہ ان کی زندگی بھی جیسے ختم ہوئی ان کا سفر آخرت اس سے بہتر ہونا چاہیے تھا وہ کوئی معمولی انسان تو نہیں تھے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں بستے تھے لیکن ایک وقت میں لوگوں نے ان سے بھی منہ موڑا ضرور تھا۔ سو ان کی سیاست تو ختم نہیں ہو سکی کیونکہ اقتدار اور زندگی خاتمہ نامناسب انداز میں ہوا۔پھر صدر ضیاء الحق کا وقت آتا ہے۔ ایک وقت میں وہ بھی بہت مقبول ہوئے بالخصوص مذہبی حلقوں میں انہیں خاص مقام حاصل تھا۔ ان کے دور اقتدار میں بھی عام آدمی کی زندگی مشکل نہ تھی۔

لوگ انہیں پسند کرتے تھے۔ طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد صدر ضیاء الحق کے اقدامات سے مطمئن تھی۔ ان کے دور میں پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے بہت کام کیا پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں ضدر ضیاء الحق کا کردار بہت اہم ہے۔ ایک حادثے میں ان کی شہادت ہوئی اس کے بعد سیاسی جماعتوں نے ان کے کردار کو نشانہ بنانا شروع کیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ یعنی سابق صدر کی صرف خامیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے جب کہ ان کے اچھے کاموں پر کوئی بات نہیں کرتا، سیاست دانوں کی اکثریت ان سے مستفید ہوئی لیکن آج سب انہیں "ڈکٹیٹر" کہتے ہیں۔

صدر ضیاء الحق کے بعد محترمہ شہید بینظیر بھٹو کا دور آتا ہے بینظیر بھٹو بھی اپنے والد کی طرح عوامی سطح پر بہت مقبول تھیں، انہوں نے بہت مشکل حالات میں سیاست کی اور اپنے آپ کو ایک کامیاب سیاستدان ثابت کیا۔ وہ ملک کی وزیر اعظم بنیں، پیپلز پارٹی کے جیالے ان کے نام پر طویل سفر طے کر کے جلسوں میں پہنچتے تھے، ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے لیکن کوئی چیز انہیں اپنے لوگوں سے دور نہ کر سکی، ان کے دورِ اقتدار میں کیا ہوا، کیا نہیں ہوا یا کیا ہونا چاہیے تھا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن وہ بلاشبہ پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی رہنما تھیں، بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ عوامی مقبولیت میں اپنے والد سے بھی آگے نکلیں۔ بدقسمتی سے وہ دہشت گردوں کے حملے کا شکار ہوئیں۔

محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے خواتین کو پاکستان کی سیاست میں کردار ادا کرنے، میدان سیاست میں قسمت آزمائی کی طرف ابھارا، آج اسمبلیوں میں موجود پاکستان کی ہر دوسری خاتون کسی نہ کسی طرح شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے متاثر نظر آتی ہے۔ یو کیوں اس میں کوئی شک نہیں ہے ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک بھرپور اور سیاسی زندگی گزاریں انہوں نے پاکستان کی سیاست میں میں کئی نئے انداز متعارف کروائے آئے اور بالخصوص خواتین کو ان کی اہمیت کا احساس دلایا۔ انہیں نامناسب الفاظ میں یا نامناسب انداز میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تمام تنازعات اور اختلافات کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاید بینظیر بھٹو پاکستان کی واحد سیاسیتدان ہیں انتقال کے بعد ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔

اس کے بعد نواز شریف کا دور آتا ہے۔ ملک میں تعمیراتی کاموں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کے کریڈٹ پر بڑے منصوبے ضرور ہیں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب پاکستان کے سب سے مقبول سیاسی رہنما سمجھے جاتے تھے لیکن انہیں بھی مشکل سیاسی حالات کا سامنا کرنا پڑا ایک مرتبہ پہلے وہ جلا وطن ہوئے بے اور ایک طریقے سے اب بھی جلاوطنی ہی ہیں۔ تین مرتبہ وزیر اعظم بنے، ایک زمانے میں لوگ ان سے بے پناہ محبت کرتے اور ان کے خلاف کوئی بھی بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ جو شہر ان کی جماعت کا گڑھ سمجھے جاتے تھے وہاں بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا .

اور ساتھ ساتھ کرپشن کے حوالے سے لگنے والے الزامات کی وجہ سے میاں نواز شریف کے سیاسی کیریئر کو بہت نقصان پہنچا ان کے اہل خانہ کے لئے گھر سے نکلنا محال ہوا، بیرون تو ملک تو دور کی بات ہے اندرون ملک بھی کسی عوامی جگہ پر بیٹھ کر چند لمحات گذارنا مشکل ہو چکا ہے۔ اپنے سیاسی سفر میں انہوں نے جیلیں کاٹی ہیں، عدالتوں کے چکر لگائے آئے اور نہ جانے کن کن الزامات کا سامنا کیا۔ گذشتہ چند برسوں میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے میاں نواز شریف کی عوامی سطح پر مقبولیت میں کمی آئی وہ لوگ جو انہیں پاکستان کا سب سے ایماندار اور سب سے اچھا سیاستدان سمجھتے تھے وہی ان کے مخالف بھی ہوئے ان کے خلاف تقریریں کیں اور ان پر الزامات بھی عائد کرتے رہے۔

ان دنوں وہ بیرون ملک ہیں ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ وہ کب واپس آتے ہیں ہیں لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آج ان کی مقبولیت وہ نہیں ہے جو چند سال پہلے تھی ان کے سیاسی کیریئر کو صاف شفاف نہیں کہا جا سکتا لوگ ان کے حوالے سے اب ذرا مختلف انداز میں سوچتے ہیںاس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا دور آتا ہے ہے قومی اسمبلی میں ایک سیٹ سے شروع ہونے والا عمران خان کا سیاسی سفر انہیں وزارت عظمیٰ تک تو لے گیا یا یا اور یہ بات بھی بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے بے پناہ عوامی مقبولیت بھی حاصل کی گزشتہ چند برسوں میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب لوگ ان کے حوالے سے یہ کہا کرتے تھے کہ وہ اس ملک کے سب سے بہتر اور ایماندار سیاستدان ہیں ہیں لوگ ان کے بارے میں میں کوئی بھی منفی بات سننا پسند نہیں کرتے تھے، یہ والے حالات اب بھی ہیں.

لیکن مقبولیت کا گراف نیچے ضرور آیا ہے۔ عمران خان جنہیں ماضی قریب سب سے بہتر اور ایماندار سیاستدان سمجھا جاتا تھا آج انہیں بھی مختلف الزامات اور تنازعات کا سامنا ہے۔ وہ وہ ناصرف وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے گئے اور اس کے بعد سڑکوں پر ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں میں عمران خان اور نواز شریف کا سیاسی سفر کیسے اختتام پذیر ہوتا ہے۔ پاکستان میں مقبول حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اچھے اختتام کے حوالے سے تاریخ بہت اچھی نہیں، عمران خان نے نواز شریف ابھی سیاسی منظر نامے پر ہیں، ان کا اختتام کیا ہوتا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment