ہوم << تین نکاتی سنجیدگی-عبداللہ طارق سہیل

تین نکاتی سنجیدگی-عبداللہ طارق سہیل

وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمارے پائوں میں زنجیریں پہنا دی ہیں‘وہ سکھر‘ حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

زنجیریں پہنا دی ہیں تو کیا غم‘ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے اور یہ فن آداب غلامی میں شامل ہے۔ یہاں رقص سے مراد رقص بسمل ہے‘ وقت رقص آخر شب کا ہے اور رقاص عوام ہیں اور تماشائی صرف حکومت نہیں‘ تمام حکمران اور بالادست طبقات ہیں اور وہ تماشا گر بھی جس نے زنجیر پہنائی کی رسم ادا کی اور اب پھر سے حکومت میں آنے کیلئے بے تاب ہے‘ اگرچہ یہ بے تابی فی الوقت یا تا اطلاع ثانی زمان پارک کے کنج ’’تنہائی‘‘تک محدود ہے کہ نجومیوں نے باہر نہ نکلنے کا روحانیاتی مشورہ دے رکھا ہے۔ حکومت اور حکمران طبقات کیلئے لمحہ فکریہ محض یہ ہے کہ آخر شب کا یہ بسمل باقی نہ رہا تو تماشے کا کیا ہوگا۔ ستم کس پر ستم فرمایئے گا جب ہم نہیں ہونگے ۔بظاہر اس کے علاوہ کوئی فکرمندی نہیں۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

موٹروے کے اس سیکشن کی تعمیر سے پشاور تا کراچی شاہراہ مکمل ہو جائے گی۔ اس نے تین سال پہلے ہی مکمل ہو جانا تھا‘ لیکن پھر وہ لوگ جو موٹرویز اور سی پیک کو مضر صحت اشیاء سمجھتے تھے‘ نوازشریف کو نکال باہر کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ایوان حکومت میں راجہ اندر نے اپنا اکھاڑہ سجا لیا۔ سال بھر پہلے تک لگتا تھا کہ سکھر حیدرآباد موٹروے کبھی نہیں بنے گی۔ اس کا باب بند ہو گیا‘ لیکن پائیداری نہ جمود کو ہے نہ حرکت کو‘ چنانچہ اسباب پیہم ہوئے‘ فضا بدلی تعمیر تو شروع ہو گئی۔ ٹھیک معنوں میں یہ تعمیر کا سنگ بنیاد نہیں‘ تعمیر کی بحالی کا ہے۔

حکمران طبقے ایسی تعمیرات کے اس لئے خلاف ہیں کہ ایسی ہر شئے جو عوام کیلئے سہولت لائے‘ عوام کے دماغ کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔ ان میں خوشحالی آتی ہے‘ جو تمام امراض کی ماں یعنی ام الخبائث ہے۔ عوام کے دماغ کو خرابی سے بچانے کیلئے ہی نوازشریف کو چلتا کیا گیا۔ موٹروے کی بحالی‘ تعمیر شروع ہوگئی‘ یہی سوال اب سی پیک کا ہے۔ اور تو اور سی پورٹ کا بھی ہے۔ چار سال ان منصوبوں کو سردخانے میں رکھا گیا۔ پتہ نہیں ڈیپ فریزر کا ڈھکن کب کھلتا ہے۔

وزیراعظم جب دورے پر تشریف لے جا رہے تھے تو ایک تصویر سامنے آئی۔ وہ دوران سفر بھی کام کر رہے ہیں۔ فوٹوگرافر ماہر معلوم ہوتا ہے۔ اچھے زاویئے سے تصویرلی۔ خود شہبازشریف نے بھی تو سہولت کاری کی ہوگی کہ ایسے کھڑے ہو‘ زوم اس طرح سیٹ کرو‘ اس اینگل پر زور دو۔ تصویر میڈیا تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی کسی ذمہ دار کو دی گئی ہوگی۔ اس نے بروقت میڈیا کو پہنچائی۔ ایک لیگی ہمدرد نے لکھا کہ شہبازشریف کتنا کام کرتے ہیں‘ سفر میں بھی کام پر لگے رہتے ہیں۔ اسے خوشامد نہیں‘ حق گوئی کا نام دیا جانا چاہئے۔ سیاسی ارباب طریقت کی سوچ البتہ ناقدانہ ہے۔ وہ شہبازشریف کو ’’پیر غائب‘‘ کا مقام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہبازشریف جب اپوزیشن لیڈر تھے تو اپوزیشن غائب‘ وزیراعظم بنے تو حکومت غائب۔

اپوزیشن کا دال دلیہ اگرچہ آصف زرداری اور فضل الرحمن کی مداخلت بے جا کی وجہ سے چلتا رہا ورنہ پیر غائب نے پیر کامل ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور راجہ اندر کی سبھا جو اجڑی تو اس میں بھی سارا ہاتھ مذکورہ بالا دونوں مداخلت کاروں کا ہے ورنہ شہبازشریف تو راضی بہ رضائے مولا رہنے پر بدستور کاربند تھے۔ وزیراعظم کے فرزند دلبند حمزہ شہباز پر بیٹا باپ سے بھی گورا والی کہاوت پوری نہ اترے تو بھی بیٹا باپ جیسا گورا توکہا بھی جا سکتا ہے۔ وہ پنجاب میں چار برسوں سے اپوزیشن لیڈر ہیں اور چار برسوں سے ہی پنجاب میں اپوزیشن غائب ہے۔

یعنی وہ صوبہ کی سطح کے پیر غائب ہیں . حکومت کہیں نظر نہیں آرہی۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے اور مہنگائی بڑھنے کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ گھی کے ایک کلو کی قیمت میں جتنا اضافہ ہوا‘ وہ اپنی جگہ‘ قابل داد بات یہ ہے کہ ایک لیٹر کے پیکٹ میں پون لٹر گھی ہوتا ہے۔ گویا اگر لٹر چھ سو روپے کا ہے تو دراصل آٹھ سو روپے کا ہے۔ حکومت لٹر کے پیک میں پورا لٹر ڈلوانے کی سکت سے بھی محروم ہے۔ عمران خان نے تاجروں اور کاشتکاروں سے اپیل کی ہے کہ وہ باہر نکلیں‘ حکومت کو رخصت کریں اور عوام کو حقیقی آزادی دلوائیں۔ ماشاء اللہ گویا ٹائیگر فورس کے فیل ہونے کا اعتراف کر لیا۔ اب کسانوں اور تاجروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’’ٹائیگرز‘‘ کو حقیقی آزادی دلوائیں۔ عوام کے جس سمندر نے امڈنا تھا‘ وہ موسمیاتی اور ماحولیاتی بدلائو کی وجہ سے شاید سوکھ گیا۔

ادھر پی ٹی آئی کے ترجمان سمجھے جانے والے اخبار نے خبر دی ہے کہ پنجاب حکومت میں شامل پی ٹی آئی کے 70 فیصد وزراء اور ارکان اسمبلی نے خان صاحب سے کہا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی توڑنے کا فیصلہ واپس لیں‘ لیکن خان صاحب نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی۔ کوئی بات نہیں‘ خان صاحب ان کی بات نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ پرویزالٰہی کی بات تو مانیں گے۔ سنا ہے‘ اسمبلی توڑنے کا اعلان لبرٹی چوک کے جلسے میں ہوگا۔ اس جلسے میں سنانے والے کے مطابق اسمبلی توڑنے کی تاریخ میں مناسب توسیع کر دی جائے گی۔ کوئی قابل اعتراض بات نہیں‘ لانگ مارچ کی تاریخ میں اتنی بار توسیع ہوئی‘ کون سا آسمان ٹوٹ پڑا۔ حقیقی آزادی کے مفاد میں اسمبلی توڑنے کی تاریخ آگے لے جانے سے بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی۔ تسلی رکھیئے پی ٹی ٰآئی کے رہنما پرویز خٹک نے کہا ہے کہ حکومت سنجیدگی دکھائے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

فی الوقت حکومت نے سنجبدگی دکھانے سے دو ٹوک انکار کر دیا ہے۔ سنجیدگی کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ صدر عارف علوی کی وساطت سے حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ عمران کے خلاف مقدمات روک دے یعنی ان پر مزید سماعت نہ کرے‘ انہیں نااہل کرنے سے باز رہے اور اس بات کی ضمانت دے کہ خان صاحب کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ حکومت نے اس تین نکاتی سنجیدگی کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی غیر سنجیدہ بات کرو‘ ایسی سنجیدگی ہمارے بس میں نہیں۔

لاہور بورڈ نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ خبر کی سرخی ہے کہ 32 فیصد امیدوار پاس ہو گئے۔ پرانے محاورے کی نئی شکل کا نمونہ ہے۔ یہ مت دیکھو کہ گلاس دوتہائی سے زیادہ خالی ہے‘ یہ دیکھو تقریباً ایک تہائی بھرا ہوا ہے۔ گلاس کی اس ’’شاندار‘‘ بھرائی پر عثمان بزدار اور پرویزالٰہی دونوں کی حکومت میں ہدیہ تبریک پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس شاندار ترقی معکوس کو نظربد سے بچانے کیلئے کسی مناسب نظربٹو کی تلاش بھی ضروری ہے۔

Comments

Click here to post a comment