وہ شخص اپنے چہرے مہرے سے کسی دوسرے علاقے کا لگتا تھا۔ اس کے چہرے پر عیاں تھکن بتا رہی تھی کہ وہ دور پار کا سفر کرکے یہاں پہنچا ہے۔ اسے مسافر جان کر بارعب چہرے والے دراز قامت شخص نے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی،جسے کاندھوں پر تھکن رکھے مسافر نے بلا حجت قبول کرلی۔ اب وہ اپنے میزبان کے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ سامنے کھانے میں ایک برتن میں گھی بھی موجود تھا۔ وہ شخص بے صبرے پن سے لقموں کے ساتھ گھی کھانے لگا۔ اسے اس طرح ندیدے پن سے گھی کھاتا دیکھ کر میزبان کے لبوں پر مسکراہٹ سی آگئی جس پر مسافر شرمندہ سا ہوکر کہنے لگا
’’معافی چاہتا ہوں میرے علاقے میں قحط پڑا ہوا ہے، پیٹ بھر کر کھانا کھائے بھی عرصہ ہوگیا۔ گھی کی تو بات ہی کیا،آج پیالے میں گھی سامنے آیا تو صبر نہ ہوسکا۔‘‘
یہ سننا تھا کہ میزبان کے لبوں کی مسکراہٹ غائب ہوگئی ،گھی کے پیالے کی طرف بڑھنے والا ہاتھ رک گیا اور پھر عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس وقت تک گھی نہیں کھایا جب تک اس علاقے کے قحط زدہ مکینوں نے سیر ہوکر کھانا نہیں کھالیا۔ ان کی انگلیاں گھی سے چکنی نہ ہوگئیں اور اس علاقے کے بچے گھی میں لتھڑی ہوئی انگلیاں چاٹتے بھاگتے نہیں پھرے۔
مجھے یہ سب سندھ اسمبلی میں بوڑھے شاہ کی رخصتی پر میزیں بجا بجا کر خراج تحسین دینے پر یاد آگیا اور ساتھ ہی مٹھی کے سرکاری اسپتال کی وہ one pounder baby بھی یاد آگئی جو شیشے کے بکس میں آنکھیں موندے ’’جمہوریت کے خلاف سازش‘‘ کررہی تھی۔ وہ اتنی کمزور اور منحنی سی تھی کہ اسے دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔اس کے گوشت سے خالی وجود کی پسلیوں پر بس چمڑی منڈھی ہوئی تھی۔ ایک ڈیڑھ کلو کے وزن کی اس بچی کے سرہانے گہری سانولی رنگت والی ایک کمزور سے عورت بے بسی سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اس کی اداس آنکھوں سے چھلکتی ممتا بتا رہی تھی کہ اس ہی نے اسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جنم دیا ہے۔ وہ اسی کے وجود کا حصہ ہے اور اب شاید وہ اس حصے کو خود سے جدا ہوتا دیکھ رہی تھی۔ اس میں یہ ہمت یہ حوصلہ تھا مجھ میں نہیں تھا، میں اس کمرے سے باہر نکل آیا ۔
میڈیا کا کہنا تھا کہ تھرپارکر میں قحط معصوم زندگیاں نگل رہا ہے جبکہ حکمران چیخ رہے تھے کہ تھرپارکر میں کسی قسم کی قحط سالی نہیں، سندھ اسمبلی کے ٹھنڈے ٹھار پرشکوہ ہال میں سندھ واسیوں کے منتخب لوگوں نے اس پر خوب بحث کی تھی۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہیں قحط کے معنی بھی نہیں معلوم تھے لیکن یہ پھر بھی بولے کہ سامنے پریس گیلری میں نیوز چینلز کے بائیس کیمرے نصب تھے۔۔۔ حکومت کا اصرار تھا کہ تھر میں کسی قسم کا قحط نہیں اور اپوزیشن کا موقف تھا کہ قحط ہے ہی تھر میں، کون سچا اور کون جھوٹا تھا؟ اس کا جواب تھر واسی ہی دے سکتے تھے، اس لیے جب مجھے مٹھی جانے کا موقع ملا تو میںنے ضائع نہیں کیا۔ یہاں پہنچ کر مجھ پر کھلاکہ قائم علی شاہ کا کہنا درست ہے یہاں قحط نہیں غذاکی کمی ہے۔ چالیس پینتالیس برس کی چھوئی موئی سی لاغر عورت کسی صحت مند وجود کو کیا جنم دے گی، غذائی قلت کی وجہ سے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوںکو فوراً ہی اسپتال اور ڈاکٹر کی ضرورت پڑ جاتی تھی اور یہ سہولت مائی بھاگی کے تھر میں کل بھی عیاشی تھی اور آج بھی عیاشی ہے سو غریب تھری ماؤں کی آنکھوں کے سامنے معصوم فرشتے آنکھیں موند لیتے کبھی نہ کھولنے کے لیے۔
2014میں تھرپارکر کی 326ماؤں کی کوکھ اسی غذائی قلت کے ہاتھوں اجڑی تب سندھ پر حضرت قائم علی شاہ کی حکومت قائم تھی، 2015میں یہ تعداد 398تھی تب بھی وزیر اعلیٰ سندھ حضرت والا ہی تھے اور نئے شاہ خزانے کی کنجیاں سنبھالے ہوئے تھے۔ این جی اوز کے ڈیٹا اورآزاد ذرائع کے مطابق تین برسوں میں سولہ سو بچے جان سے گئے اور حکومت کچھ نہ جان سکی کہ تھرپارکر جہاں مور ررقص کرتے ہیںموت کا رقص کیوں جاری ہے۔
قائم علی شاہ کے ایک قریبی ساتھی رشید چنہ صاحب سے کراچی کے علاقے یونس آباد میں ملاقات ہوئی۔ وہ کبھی اپنی برادری سے تھے، پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس کو پیارے ہوگئے اور ان کے شب و روز کا بڑا حصہ سائیں کے ساتھ گذرنے لگا۔ یونس آباد میں سائیں نے ایک پل کا افتتاح کرنے آنا تھا، سائیں کے لیے پاک بحریہ نے ہیلی کاپٹر کی سواری کا انتظام کیا تھا سو وہ اڑکر آنے والے تھے، ان کا اسٹاف سرکاری گاڑیوں میں ذرا پہلے پہنچ گیا، رشید چنہ کو دیکھ کر میں ان کے پاس چلا آیا وہ وقت گذاری کے لیے گپ شپ کرنے لگا، بات سے بات نکلی تو پوچھ ہی لیاکہ سائیں !کچھ پیتے پلاتے بھی ہیں کیا؟
فوراً کہنے لگے پنج وقتہ نمازی ہیں، سگریٹ تک نہیں پیتے ،میں نے تو کبھی انہیں کچھ پیتے نہیں دیکھا۔
چنہ صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی شاہ صاحب کو بھنگ کا پیالہ پکڑے بھی نہیں دیکھا، پینا پلانا تو دور کی بات ہے۔۔۔ مجھے رشید چنہ کی یہ گواہی یاد آتی ہے توسوچتا ہوں کاش چنہ صاحب سچ نہ کہتے ہم کم از کم یہ تو کہتے سائیں کیفیت میں رہتے تھے، انہیں دور پار کے تھرپارکر کی کیا خبر۔۔۔سائیں خبر رکھتے تھے لیکن انہوں نے کبھی خبر نہ لی، انہیں فکر تھی تو بس ان ہاتھوں کی جن کی گرفت میں سندھ حکومت کا ریموٹ کنٹرول تھا، ویسے وہ ہاتھ چاہتے تو بوڑھے وفادار ملازم کوبیمار کرکے طبی بنیادوں پر استعفیٰ دے کر باعزت رخصت کردیتے، عزت سادات تو رہ جاتی!
تبصرہ لکھیے