ہوم << جموں و کشمیر کا ماضی حال مستقبل - میاں عتیق الرحمن

جموں و کشمیر کا ماضی حال مستقبل - میاں عتیق الرحمن

میاں عتیق الرحمن کشمیر‎ ‎برصغیر‎ ‎پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے، جو تاریخی اعتبار سے‎ ‎ہمالیہ اور‎ ‎پیر پنجال‎ ‎کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ‏‎ ‎تھا، مگر جب وادی کشمیر اپنے منڈیروں ‏سے باہر آنے لگی تو اس نے کشمیر بن کر جموں، لداخ، موجودہ گلگت بلتستان، آزادکشمیر اور اسکائی چن تک کے علاقوں کا احاطہ کر لیا۔‎ ‎اس طرح کشمیر 15ہزار 9سو 48 ‏مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 2 لاکھ 24 ہزار 7سو 88 مربع کلومیٹر تک پھیل گیا۔گردش ہنگام نے اس خطہ کو پاکستان اور انڈیا میں اور پھر پاکستان، انڈیا اور چین میں ‏تقسیم کر دیا۔ اس وقت کشمیر کے 1 لاکھ 1ہزار 3سو 87مربع کلومیٹر یعنی 45 فیصد علاقے پر انڈین فوج قابض ہے جبکہ 85ہزار 8سو 46 مربع کلومیٹر ‏یعنی 38 فیصد رقبہ پاکستان اور 37 ہزار 5سو 55 مربع کلومیٹر یعنی17 فیصد چین کے زیر اثر ہے۔

کشمیر میں چوتھی عیسوی سے 14ویں صدی عیسوی کے آغاز تک تقریباً ساڑھے نو سو سال ہندو ؤں اور بدھسٹوں کی حکومت رہی۔ پھر 1339ء میں ایک ہندو ‏حکمران راجا رنجن مسلمان ہوگیا اور یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر اثر آگیا. اس کے بعد یہ علاقہ چار سو سال یعنی 1820 تک مغلوں اور افغانستان کے مسلم حکمرانوں کی ‏ماتحتی میں رہا۔ مغلوں اور افغانوں کے کمزور ہونے کے بعد کشمیر سکھوں کے زیر اثر آیا. چونکہ سکھ راج کا دارالحکومت لاہور تھا، یوں کشمیر کا لاہور سے رشتہ قائم ہو‏ا۔ 1845ء میں سکھوں اور انگریزوں کی جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں گلاب سنگھ ڈوگرہ نے سکھوں اور انگریزوں میں دلالی کرا کے کشمیر کو دو معاہدوں کے تحت دو ‏مختلف حصوں میں تقسیم کروایا، ایک حصہ انگریز سرکار کو 1 کروڑ روپے میں بکوا دیا اور دوسرے حصے کو خود 75 لاکھ روپے کے عوض ‏حاصل کر لیا۔ اس طرح کشمیر سکھوں سے انگریزوں اور سکھوں کی نوع ڈوگرہ میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کے بعد ڈوگرہ نے وہاں کی 89فیصد سے ‏زائد مسلم عوام کی رائے کے خلاف انڈیا کے ساتھ ساز باز کرکے معاہدہ کیا اور کشمیر کو انڈیا کے سپرد کر دیا. کشمیریوں نے ظلم وجبر کے اس معاہدے کے ‏خلاف آواز اٹھائی جو تحریک آزادی میں بدل گئی اور یہ تحریک آزادی 7 دہائیوں سے جاری وساری ہے۔

‏برصغیر میں 15 ہجری سے بھی پہلے مسلمانوں کے نقوش جلوہ گر ہو چکے تھے۔‏ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کےدور خلافت اور اس کے بعد مختلف اوقات میں ‏برصغیر کی ‏سرزمین پر 25 صحابہ کرام، 42 ‏تابعین نے قدم رکھا اور پھر ان کے بعد 18 تبع تابعین بھی یہاں تشریف لائے، مگر تاریخی روایات کے مطابق خاص کشمیر ‏کے علاقے میں بغرض تبلیغ اسلام کے وفد کی آمد 1339ء میں ہوئی۔ کچھ مسلمان مبلغین یہاں آکر تبلیغ کرنے لگے جن سے متاثر ہو کر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ‏ہونے لگے، 14ویں صدی کے درمیان تک یہ آواز وہاں کے حکمران طبقے تک بھی پہنچ گئی جس پر راجا رنجن مسلمان ہوگیا جو بعد میں سلطان صدرالدین کے نام سے ‏مشہور ہوا اور کشمیر کا پہلا مسلم حکمران بنا۔ اس کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام اس قدرتیزی سے پھیلا کہ 1901ء میں برطانیہ نے کشمیر میں مردم شماری کروائی تو معلوم ہوا کہ وادی کشمیر میں مسلمانوں کی ‏تعداد ‏‎95.6‎‏ فیصد ہے اور ہندو آبادی صرف جموں کے علاقے تک محدود ہے اور وہاں بھی ان کی تعداد 66 فیصد سے زائد نہیں۔ ساری کشمیری آبادی میں ‏‎74.16‎ فیصد ‏مسلمان،‎23.72‎‏ فیصد ہندو اور باقی بدھ مت اور سکھ آباد ہے۔ مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی کل آبادی 29 لاکھ5 ہزار 5 سو 29 افراد پر مشتمل تھی جن ‏میں سے 21 لاکھ 54 ہزار 6سو 45 مسلمان، 6 لاکھ 89ہزار 73 ہندو، 25ہزار 8سو 28 سکھ اور 35ہزار 47 افراد بدھ مت مذہب کے پیروکار تھے۔ 40 سال بعد ‏‏1941ء میں برطانیہ نے کشمیر میں دوبارہ مردم شماری کروائی تو مذہبی اعتبار سے آبادی کا تناسب پہلے سے مختلف نہ تھا۔ بی بی سی نے 2003ء میں کشمیر کے تمام علاقوں ‏کی آبادی پر رپورٹ شائع کی جس کے مطابق وادی کشمیر میں ‏95 فیصد، جموں میں 22 فیصد، لداخ میں 71 فیصد اور آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں ‏‎99.9‎‏ فیصد آبادی ‏مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سارے کشمیری خطے کی مجموعی آبادی میں 89 فیصد سے زائد آبادی مسلمان، 9فیصد ہندو ،‎0.01 ‎‏ فیصد‎ ‎بدھ مت اور ‏‎0.01‎‏ فیصد دیگر آباد ‏ہیں۔ پچھلے سو سالوں میں جموں کے علاوہ سارے کشمیری خطے میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود پورے کشمیر خطے کی 89فیصد سے زائد آبادی ‏پر صرف 9فیصد ہندوؤں کو مسلط رکھنے کےلیے 8 لاکھ بھارتی فوج کو کشمیر کے علاقے میں چھوڑا گیا ہے جو کشمیری مسلمانوں پر ظلم وجبر کی انتہائی بھیانک داستانیں رقم ‏کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ موومنٹ کی تحقیقاتی رپورٹ‎ ‎کے مطابق بھارتی فوج نے 1990ء سے 2014ء تک صرف 24 سالوں میں ایک لاکھ 6 ہزار ‏کشمیری حریت پسندوں کو شہید کیا۔ شہیدکیےگئے افراد میں زیادہ تعداد 11 سال سے60 سال تک کی عمر کے لوگوں کی ہے۔ 9 ہزار 9 سو 88 کشمیری خواتین کی عصمتوں ‏کو پامال کیاگیا اور 710خواتین کواس گھناؤنے جرم کے بعد قتل بھی کر دیاگیا۔ 1 لاکھ 10ہزارکشمیری شہریوں کو مختلف جیلوں میں ڈالا گیا اور 10 ہزار سے زائد شہریوں ‏کو لاپتہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 5 ہزار 9 سو کے لگ بھگ گمنام اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوچکی ہیں جہاں ایک ایک قبر میں کئی کئی شہید کشمیریوں کو دفن کیا گیا ‏ہے۔گذشتہ 67 سالوں میں کشمیریوں کی تیسری نسل ظلم سہتے سہتے جوان ہوگئی ہے۔ کشمیریوں پر ظلم کی حالیہ لہر برہان وانی کی شہادت کے بعد سے 50 سے زائد کشمیریوں ‏کو شہید اور 35 سو سے زائد کو اپاہچ یا زخمی بنا چکی ہے۔
کشمیر کی سر زمین لہو لہو، مساجد دھواں دھواں، آنکھیں اشکبار، مائیں نوحہ خواں، لاشیں کٹی پھٹی، اجسام چھلنی اور نگاہیں فریاد کناں ہیں اور آنسو بہاتی آبشاریں، فلک ‏بوس دشت و جبل، ماتم کناں ہوائیں، چہار سو آہ و فغاں، سوگوار فضائیں، مقتل گاہ انساں، جاہ دولخت، بہنوں کی انتظار کرتی نگاہیں، بیٹیوں کو یتیم کرتے لمحوں کی کثرت، ‏بھائیوں کے تڑپتے ہوئے لاشے، سبز وادیوں سے ٹپکتی سرخی کے ساتھ مل کر چیخ رہی ہیں کہ کیا کوئی حجاج بن یوسف ہے کہ جسے لاچارگی اور مظلومیت میں بنو یربوع کی ‏ایک عورت بیچ سمندر آواز دی تھی اور وہ آواز مختلف واسطوں سے اس تک پہنچی تھی، جسے سننے کے بعد اس نے اپنے قابل ترین جرنیل محمد بن قاسم کو 20 ہزار کا لشکر ‏دے کر روانہ کر دیا تھا، یا کوئی معتصم ہے جسے عموریہ موجودہ انقرہ سے ایک غلام مسلمان لونڈی نے عیسائی مالک کی طرف سے زناٹے دار تھپڑ رسید کیے جانے پر آواز دی ‏تھی اور اس آواز دینے پر عیسائی نے اس غلام لونڈی کو طعنہ بھی دیا تھا اور مزید تھپڑوں کا نشانہ بھی بنایا تھا کہ تیری وجہ سے کیا معتصم چتکبرے گھوڑوں پر سوار آئے گا، ‏تو جب معتصم تک یہ بات پہنچی تو وہ 12 ہزار چتکبرے گھوڑوں کے لشکر کو ساتھ لے کر خود روانہ ہو پڑا تھا۔

ظلم و ستم کے بیچ جانبداری ظالم کی طرفداری کے مترادف ہے اور خاموشی جابر کے ہی ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ جہاں بھی مرد و خواتین نسل، ‏مذہب یا سیاسی آرزوؤں کی ‏پاداش میں ستائے جائیں وہ کائنات کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے۔ 1948ءمیں کشمیریوں نے آزادی کے لیے تحریک چلائی تو انڈین حکومت خود درخواست لے کر اقوام متحدہ پہنچی، ‏جس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور ہوئیں جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک مل کر ایک ایسا فریم ورک ترتیب دیں جس کے تحت ‏کشمیریوں کو حق خودارادیت حاصل ہو اور وہ استصواب رائے سے اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں مگر انڈیا جانتا تھا کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا موقع دیا ‏گیا تو 89 فیصد آبادی یعنی 1 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان پاکستان کے ساتھ الحاق کرکے انڈیا سے آزادی کو ترجیح دیں گے۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی اور انڈین ‏فوج کی طرف سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے ظالم انڈین فوج کے لیے پیغام یہ ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے ‏گا. خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے، فرقِ انصاف پہ یا پائےسلاسل پہ جمے، تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے، خون پھر خون ہے ٹپکےگا تو جم جائے گا. لاکھ ‏بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں، خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ، سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب، لے کے ہر بوند نکلتی ہے ‏ہتھیلی پہ چراغ. ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسواسے کہو، جبر کی حکمتِ پرکار کے ایما سے کہو، محملِ مجلسِ اقوام کی لیلیٰ سے کہو، خون دیوانہ ہے، دامن پہ لپک سکتا ‏ہے، شعلہء تند ہےخرمن پہ لپک سکتا ہے‎. تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا، آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے، کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن ‏کر، خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں‌سے، سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے. ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا، ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام ‏تلک، خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے، ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے، ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے، ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے.
اللہ تعالیٰ کشمیریوں کو بھارتی فوج ظلم وستم سے جلد نجات نصیب فرمائے۔ آمین

Comments

Click here to post a comment