ہم انسان اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے لئے کتنی جدوجہد کرتے ہیں نا!بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں ہے درپے نا کامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ذمہ داریوں کی ادائیگی ہمیں تھکا دیتی ہے اور احساس ذمہ داری ہمیں ہمارا فرض بھی یاد دلائے رکھتا ہے،کبھی مسلسل آزمائشیں ہمیں دل شکستہ کر دیتی ہیں۔
ہم بھاگتے رہتے ہیں خواہشات کی تکمیل کے لئے،ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے،آزمائشوں سے لڑتے ہیں،مقابلہ کرتے ہیں،نت نئے طریقے اپناتے ہیں اپنی زندگی کو پر سکون بنانے کے لئے۔بعض اوقات تو احساس ذمہ داری کے ساتھ بے بسی کی کیفیت سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ایک چھت تلے رہتے ہوئے ہمیں دماغ کو ٹیسیں پہنچانے والے رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔مگر،ہم اپنی ترکیبیں آزماتے رہتے ہیں،پلان بناتے رہتے ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے رہتے پیں۔
ہم ایمان رکھتے ہوئے بھی ٹیڑھے میڑھے راستوں کی کشش سے سواء السبیل گم کر بیٹھتے ہیں۔حقیقت یہی ہے اور عمومی رویہ یہی ہے کہ ہم اللہ کی اس کائنات میں اپنی کوششوں پر بھروسہ کرتے رہتے ہی اور اپنے جیسے انسانوں پر توکل بھروسہ اور پھر بھروسہ ٹوٹنے پر کرب کی کیفیت سے گزرتے ہیں مگر وائے افسوس کہ ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم اپنی سرگرمیوں،معاملات، کامیابیوں، پناکامیوں میں اللہ کو بھلائے رکھتے ہیں،یا غمی اور مصیبت میں تو اللہ کو پکارتے ہیں مگر خوشی اور اطمینان کی حالت میں اپنی عقل ودانش اور تدبیروں کے گن گاتے پیں۔
قابل فکر پہلو بھی ہے اور قابل اصلاح بھی۔آخر ہمیں اللہ کی قدرتوں پر بھروسہ کیوں نہیں؟اس کی حکمتوں اور مصلحتوں پر سر تسلیم خم کیوں نہیں؟مشکلات سے نبٹنے کے لئے ساری تدبیریں کر چکنے کے بعد ہی کیوں اللہ کو پکارا جاتا ہے؟اللہ کو ہم اپنی شہ رگ سے قریب محسوس کیوں نہیں کرتے؟ہم اسے اپنی کیفیت سے آگاہ کیوں نہیں کرتے؟اللہ جو دلوں کے حال سے واقف ہے،ہماری پکار کے انتظار ہی میں تو ہوتا ہے۔
ہم دس قدم چل کر آ کر مدد کرنے والے سے رجوع کرنے کی بجائے اپنے جیسے انسانوں یا اپنی صلاحیتوں ہی پر کیوں بھروسہ کر بیٹھتے ہیں؟ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ بے بہا سرسبز و شاداب باغ کے مالک کو باغ کی پیداوار کو اپنی صلاحیتوں کا صلہ سمجھنا اور خود پر زعم شرک کے زمرے میں بیان کیا گیا ہے اور جو بھی اس روش پر چلے گا شرک سے اپنا دامن آلودہ کرے گا۔ہمیں جوتی کا تسمہ بھی چاہیئے تو اس سے رجوع کرنے کو کہا گیا تاکہ اللہ کی عظمت کا احساس ہمارے دلوں میں جاگزیں رہے اور اپنی کمزوری کا احساس ہمیں اللہ عزوجل سے جوڑے رکھے۔
آپ پریشان ہیں،من کی جائز مراد نہیں پا رہے،کاروبار میں ہے درپے نقصان ہو رہا ہے،آمدنی بنیادی ضروریات کے لئے بھی کافی نہیں لگتی،سفید پوشی کے بھرم کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں،غربت سے بچنا اور خوشحالی کے طلبگار ہیں،رشتوں کی بابت پریشان ہیں،بے سکون ہیں اور سکون کی تلاش میں ہیں۔غرض آپ جس بھی مصیبت میں مبتلا ہیں اور خلاصی چاہتے ہیں،کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تدبیر کے ساتھ تقدیر کے آگے جھکنے ہو گا،رب کو الہ،رازق،معز اور المزل،حاکم،عادل،لطیف اور خبیر ماننا ہو گا۔
انسانوں کے آگے جھکنے اور آخری چارہ کار کے طور پر اللہ سے رجوع کی روش کو ترک کرنا ہو گا۔یاد رکھئے،اللہ کا قانون یہ ہے ہی نہیں کہ آپ کو کسی مشکل،غم،دکھ سے نہ گزرنا پڑے۔یہ دنیا اس نے بنائی ہی اس لئے ہے کہ دیکھے،کون کیسے عمل کرتا ہے،کونسی روش اختیار کرتا ہے۔
لہٰذا،اس سے جڑ کر دیکھئے،اس سے رازونیاز کر کے دیکھئے،اسے اپنا وکیل بنا کر تو دیکھئے،دیکھنا،کیسے وہ آپ کا کیس لڑتا ہے اور آپ کے لئے بہترین اسباب پیدا کرتا ہے۔رجوع شرط ہے۔۔۔اللہ ہمیں اپنی نگرانی اور حصار میں رکھے۔اٰمین
تبصرہ لکھیے