ہوم << انسانی حقوق کا عالمی دن‎‎ - زرافشاں فرحین

انسانی حقوق کا عالمی دن‎‎ - زرافشاں فرحین

ہر سطح پر طلب حق کی جنگ کبھی حقوق نسواں کے نعرے تو کہیں معاشرے کے مظلوم معذور نادار طبقہ کی بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ طلب جتنی شدید ہے ادائیگی کا اتنا ہی فقدان ۔

حقوق انسانی کا مفہوم: انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات ومصائب کے ازالہ کے سلسلہ میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس قضیہ کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے . ہر مذہب ہر نظام اس پر بحث کرتا ہے فلسفے بگھارتا ہے مگر معاشرے میں عدل، مساوات، باہمی اخوت، الفت کا درس جو حق ادائیگی کی لازمی بنیادی شرط ہے صرف اور صرف دین اسلام ہی پیش کرتا ہے .

انسانی حقو ق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام و قار اور مساوات پر مبنی ہے قرآن حکیم کی روسے اللہ رب العزت نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔قرآن کریم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیاگیاہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سیدنا آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضلیت عطاکی گئی ۔

مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی ﷺنے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے.

اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں کے آپسی ظلم وستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھسے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیا جائے گا۔

بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس پر نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی دوسرے کے ظلم کے لیے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔ جو شخص دنیا میں کسی مسلمان بھائی کی کوئی مشکل دور کرتا ہے اللہ آخرت میں اسکی مشکل دور فرمائیں گےاور جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان بھائی کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے، اللہ تعالٰی قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالیں گے۔

اس حدیث میں جناب نبی اکرمؐ نے اللہ تعالٰی کے قانون اور ضابطے کا ذکر کیا ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ جو طرزعمل اختیار کرتا ہے، قیامت کے روز اللہ تعالٰی اس کے ساتھ وہی رویہ اختیار فرمائیں گے۔ اور یہ بات ہمارے ہاں بھی اس طرح ہے کہ ہماری اولاد اور رشتہ داروں کے ساتھ کوئی شخص اچھا سلوک کرتا ہے تو ہمارے دل میں فطری طور پر اس کے لیے اچھے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص ہمارے کسی تعلق دار سے نامناسب سلوک کرتا ہے تو اس کے لیے ہمارے دلوں میں بھی اس طرح کے جذبات ابھرتے ہیں۔ مخلوق اللہ تعالٰی کا کنبہ ہے، اس لیے اللہ تعالٰی کی مخلوق کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا جائے گا فطری طور پر اللہ تعالٰی کی طرف سے بھی اسی قسم کے سلوک کی امید رکھنی چاہیے۔

جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو اس پر ظلم کرنے دیتا ہے۔ اس حوالہ سے آج کی صورتحال میں دیکھیں کہ افغانستان، فلسطین، کشمیر، چیچنیا اور دوسرے مقامات میں ہمارے مسلمان بھائیوں پر کیا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں؟ اور ہم ان مسلمان بھائیوں کو دوسرے کے مظالم سے بچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ یہ بہت سنجیدہ سوال ہے اور اس کا تعلق ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری دینی ذمہ داری سے ہے۔ اس لیے ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے ہم جو کچھ کر سکتے ہوں اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالٰی قیامت کے روز ایک شخص کی بھوک، پیاس اور بیماری کے بارے میں جو سوال کریں گے کہ فلاں شخص بھوکا تھا، پیاسا تھا، بیمار تھا، تم نے اس کی خبر نہیں لی، اس کو کھانا نہیں دیا، اسے پانی نہیں پلایا، اس کی بیمار پرسی نہیں کی، گویا تم نے اس کی حق تلفی کر کے میری حق تلفی کی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کی بھوک، پیاس اور بیماری کے حوالہ سے باز پرس ہو گی تو کیا کسی جگہ پوری کی پوری مسلمان یا انسانی آبادی کی بھوک و پیاس اور فاقہ و بیماری کے بارے میں ہم سے کوئی سوال نہیں ہو گا؟ عراق میں جو کچھ ہوا ہے اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب ہمارے سامنے ہے اور ہم ان کی بھوک، فاقہ، بیماری اور کسمپرسی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن عملاً ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس پر ہم سب کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے .

آج عدم ادائیگی حق کہ بناء پر خاندان بکھر رہے ہیں گھر ٹوٹ رہے ہیں شوہر بیوی کا بیوی شوہر کا حق ادا کرنے کے لئے تیار نہیں اولاد والدین کے حقوق سے بیزار والدین اولاد کے یہ معاشرتی رویوں کی بدصورتی آج انسان کا سکون ختم کرچکی ہے طلاق خلع کی شرح بڑھتی جارہی ہے ٹوٹے بکھرے خاندانوں کےبچے لاوارث بے یارومددگار معاشرے کا ناکارہ غیر فعال طبقہ حقوق سے محروم ہم سب کے لئے مجسم سوال ہے .

قیامت کے روز اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں پیشی کا تصور سامنے رکھتے ہوئے اس حوالہ سے اپنے کردار کا تعین کرنا چاہیے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

Comments

Click here to post a comment