ملک بھر پر معاشی، سیاسی اور سماجی ابتری کے گہرے اور گھنے بادل چھائے ہُوئے ہیں۔ عوام کے دل افسردہ اور پژمردہ ہیں۔ غیر یقینی اور مایوسی کی غالب فضا نے تقریباً ہر پاکستانی کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔
امریکا کی ممتاز جامعہ، اسٹین فورڈ یونیورسٹی، نے تیسری دُنیا بارے اپنی حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں بڑھتے معاشی اور سیاسی مسائل کی وجہ سے پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں نفسیاتی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔ اِس مایوس کن فضا میں ، رواں ہفتے، پاکستان کی تین اہم اور علمی شخصیات کی رخصتی نے دل کو مزید رنجور اور اُداس کر دیا ہے ۔پہلے خبر آئی کہ فلسفے کے نامور اُستاد اور محقق پروفیسر محمد طفیل سالک صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں ۔ ابھی اس خبر کا ماتم مدہم نہ ہُوا تھا کہ دوسری جان لیوا خبر آ گئی کہ ڈاکٹر ایوب صابر صاحب کا وصال ہو گیا ہے.
اور ابھی اسلام آباد میں ڈاکٹر ایوب صابر کی رخصتی کا غم ہلکا بھی نہ ہُوا تھا کہ ملک بھر کے میڈیا میں یہ چنگھاڑتی خبر گونجنے لگی کہ وطنِ عزیز کے نامور عالمِ دین حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب اللہ کی رحمت میں چلے گئے ہیں ۔اِن ماتمی خبروں اور یاس انگیزمناظر نے دل کو بوجھل بنا رکھا ہے ۔ لندن سے آئے برادرم عبدالرزاق ساجد صاحب کا اچانک فون آیا ۔ انھوں نے بتایا کہ پروفیسر محمد طفیل سالک صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور آج تین بجے کے قریب اُن کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی ۔ گھر سے باہر موسمِ سرما کی پہلی بارش کے گھنے اور سیاہ بادل چھائے تھے۔ خبر سُن کر استادِ محترم طفیل سالک صاحب سے وابستہ یادوں کے کئی بادل آنکھوں سے برس پڑے۔
ممتاز اسکالر ، فلسفی اور محقق سالک صاحب مرحوم باقاعدہ میرے اُستادِ محترم تو نہیں تھے ۔ وہ فلسفہ کے استاد تھے اور ہم سائنس کے طالبعلم۔ مگر اُن کی مجالس میں باقاعدہ شرکت نے ہمیں بھی اُن کے شاگردوں کی فہرست میں شامل کررکھا تھا۔ صوفی مزاج اور دیندار شخصیت کے حامل پروفیسر طفیل سالک نے ہماری تربیت بھی کی اور ہمیں دین ِ اسلام سے محبت کرنے کا سلیقہ بھی سکھایا ۔ انھی کی پیشوائی اور رہنمائی میں ہمیں طلبا سیاست کا چسکا اور لپکا بھی لگا۔ بزرگانِ دین اور شیوخ کی مجالس میں بیٹھنے کا سلیقہ اور طریقہ بھی ہم نے سالک صاحب ہی سے سیکھا۔ریٹائر منٹ سے چند سال قبل وہ لاہور کے عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارے، گورنمنٹ کالج، کے شعبہ فلسفہ سے وابستہ ہو گئے تھے۔ وہاں اُن کی خدمت میں ہر ہفتے حاضر ہونا قلب و نظر کی دُنیا کو پھر سے روشن اورآباد کرنے کے مترادف ہوتا تھا۔
خبر سُن کراپنے سابق ہم جماعت اور قائدِ طلبا محترم رشید تابانی کو فون کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور سالک صاحب سے وابستہ یادوں کو پھر سے یاد کرنے کی ایک سبیل نکالی تو سہی لیکن دل کا بوجھ بھلا یوں کیسے ہلکا ہوتا ہے ؟ راہِ سلوک کے پُر خلوص اور شائستہ مسافر پروفیسر طفیل سالک صاحب رخصت ہُوئے تو ساتھ ہی خبر آ گئی کہ ڈاکٹر ایوب صابر صاحب بھی عدم آباد کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔ وہ 17 نومبر کو ہم سے جدا ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ خبر سُن کر دل سے ایک ہوک سی اُٹھی۔ ملک کے ممتاز ترین ماہر اقبالیات ڈاکٹر ایوب صابر صاحب کی مدام رخصتی سے ہماری ادبی دُنیا کو بھی بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے۔
وہ وطنِ عزیز کے اُن محترم اور معروف ماہرینِ اقبالیات کی صف میں پورے قد کے ساتھ کھڑے تھے جس صف میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اور پروفیسر مرزا منور ہمیں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر ایوب صابر صاحب نے یوں تو کئی معرکہ آرا کتابیں تصنیف کیں لیکن اقبال کی شخصیت اور فن پر اُن کی لکھی تحقیقی کتاب ’’ اقبال کی شخصیت اور فکرو فن پر اعتراض‘‘ شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ذہن کشا تصنیف تین جلدوں کو محیط ہے ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر ایوب صابر نے جس تندہی ، کمٹمنٹ اور خلوص کے ساتھ دشمنان و نقادانِ علامہ اقبالؒ کو دندان شکن جواب دیا ہے ، یہ صرف ڈاکٹر ایوب صابر ہی کا خاصہ تھا ۔ یوں انھیں بجا طور پر ’’محافظِ اقبال‘‘ کا لقب بھی دیا گیا۔
یہ میرے لیے خوش بختی اور اعزاز کی بات ہے کہ مجھے کئی بار ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے اور اقبال فہمی کا موقع ملا۔ افسوس تو یہ ہے کہ اقبالیات پر اُن کی معرکہ آرا کتاب کے پبلشر نے اُن سے مناسب سلوک نہیں کیا تھا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اعلیٰ علمی و ادبی اور تحقیقی خدمات انجام دینے والوں سے یہ مسلسل بد سلوکی کیوں؟ بروز جمعتہ المبارک ، 18نومبر2022کو معروف دینی و علمی اور تبلیغی شخصیت قبلہ حضرت مولانا مفتی عثمانی صاحب بھی اللہ کی بارگاہِ عظیم و جلیل میں حاضر ہو گئے۔ہم سب اُن کی رخصتی اور رحلت پر بجا طور پر افسردہ اور غمزدہ ہیں۔
مجھے بھی اُن کی خدمتِ عالیہ میں کئی بار حاضر ہونے کے مواقعے میسر آئے ۔ الحمد للہ۔ رفیع عثمانی صاحب مرحوم کراچی میں بروئے کار ایک ممتاز ترین دینی ادارے کے سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ کئی وقیع اور دلکشا کتابوں کے مصنف بھی تھے ۔ انھوں نے اپنے عظیم والدِ گرامی، مفتی شفیع عثمانی مرحوم،کی روشن کردہ علمی شمع کو عمر بھر مضبوطی اور دلی وابستگی کے ساتھ نہ صرف تھامے رکھا بلکہ اس شمع کی لَو اور ضو فشانی میں مزید اضافے بھی کیے۔
ہزاروں شاگردوں کے استادِ گرامی قبلہ رفیع عثمانی صاحب مرحوم کے جدا ہونے سے لاکھوں کروڑوں دل غمزدہ ہے لیکن ہم اپنے دلوں کو تسلی دیتے ہیں کہ وہ جنت آشیانی ہو کر مستقل رحمتوں اور راحتوں میں چلے گئے ہیں۔ ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد طفیل سالک اور ڈاکٹر ایوب صابر کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی کی مغفرت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین مقامات و درجات سے نوازے ۔ (آمین ۔)
اِن ممتاز علما اور اسکالرز کی رخصتی کی خبریں ایسے ایام اور ماحول میں سامنے آئی ہے جب ملک بھر میں ایک گھڑی کی پُر اسرار اور افسوسناک فروخت کا غلغلہ مچا ہے ۔ ایسے میںہمیں اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر محمد اقبال خان، ایک دلکشا واقعہ سناتے ہیں۔
’’سید منور حسن ( سابق امیر جماعتِ اسلامی) گلاسگو ( برطانیہ) تشریف لائے اور تین دن میرے گھر رہنے کے لیے اس شرط پر تیار ہو گئے کہ ہر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے لیے مَیں انھیں مسجد لے کر جاؤں گا۔ مَیں نے دیکھا کہ سید منور حسن کے پاس پرانی گھڑی تھی ۔مَیں نے سٹی سینٹر سے اُن کے لیے ایک مہنگی کلائی گھڑ ی خریدی ۔ واپسی پر انھیں یہ گھڑی بطورِ تحفہ پیش کی ۔ تین ماہ بعد منصورہ (لاہور) میں ہماری پھر ملاقات ہُوئی ۔ دیکھا کہ سید منور حسن نے وہی پرانی گھڑی پہنی ہُوئی تھی ۔
مَیں نے پوچھاکہ آپ وہ نئی گھڑی استعمال نہیں کررہے ؟ تو جواب دیا:’’آپ نے وہ گھڑی کس کو تحفے میں دی تھی؟ منور حسن کو یا جماعتِ اسلامی کے سیکریٹری جنرل کو ؟‘‘۔ میں نے ساتھ موجود محمد ابرار الحق سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ برطانیہ سے واپسی پر منور حسن نے مہنگی گھڑی سمیت بیگ میں موجود تمام تحائف جماعتِ اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دیے تھے جو اُن کا معمول تھا۔‘‘ اب ڈھونڈ انھیں چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔
تبصرہ لکھیے