ہوم << مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں -حماد یونس

مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں -حماد یونس

ہر برس، یومِ اقبال آتے ہی ، مبینہ دانش وروں پر عجیب کیفیت طاری ہونے لگتی ہے ۔
ہمارے یہاں دانش ور، مروجہ لبرلز یا کالے انگریز ایسی صورت حال کو پہنچ چکے ہیں کہ ان سے نہیں ، بلکہ ان کے رہنماؤں اور خود ساختہ خداؤں سے تعزیت کو جی چاہتا ہے ۔
یعنی
" اقبال کے کسی جرمن خاتون سے معاشقے تھے ، اقبال کسی غیر محرم کو محبت بھرے خطوط لکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرا کرتے تھے ، اقبال شراب پیتے تھے، اقبال کے آں نساء عطیہ فیضی صاحبہ سے مراسم تھے ، اقبال برطانوی نظام کے حامی تھے ، اقبال کو سر کا خطاب ، اور ان کے استاد محترم مولوی میر حسن صاحب کو شمس العلماء کا خطاب برطانویوں کی حمایت کے انعام میں دیا گیا ، اقبال جہاد کے خلاف تھے ، انہوں نے دین ملا کو فی سبیل اللہ فساد کہا ، اقبال دین بیزار تھے ، اقبال داڑھی والوں کو پسند نہیں کرتے تھے، اقبال کا کوئی فکری ، علمی و ادبی مرتبہ نہیں ، اقبال کا نام صرف اس لیے زندہ ہے کہ انہیں ریاستِ پاکستان کی چھتر چھایا میسر ہے ، ان کے نام کو پاکستانی ریاست کے وینٹی لیٹر سے چوہتر برس سے مصنوعی سانس دلوائی جا رہی ہے ، اقبال نے کارل مارکس کی حمایت کی ، اقبال کمیونزم سے متاثر تھے ، وغیرہ وغیرہ۔۔"
اچھا بھائی دیسی لبرل ، کالے انگریز یا دانش ور (جو بھی آپ خود کو کہلوانا پسند فرمائیں ، آپ فرمائیں کیا خریدیں گے؟) پیر و مرشد !!
گزارش یہ ہے کہ آپ جیت گئے ،

چلیے دو لمحوں کو مان لیا کہ آپ کی عائد کردہ یہ تمام فردِ جرم بالکل درست اور مبنی بر حق ہے ۔ اب ؟؟

کیا ان تمام ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں اقبال ، عالمی و اتم درجے کی لبرل اور سیکیولر شخصیت ثابت نہیں ہوتے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ انہیں اپنے مروجہ خداؤں کی فہرست میں جگہ نہیں دیتے؟ آپ ان کے نام کی مالا کیوں نہیں جپتے؟ ان کے نام کی قومی و بین الاقوامی کانفرنسز کیوں منعقد نہیں کرواتے؟ ان پر ادبی ، علمی و تحقیقی کام کرنے والے آپ کی صفوں میں کیوں نہیں؟

برا نہ مانیے حضور ، مگر اس سب سے تو اقبال آپ ہی کے "اکابر" میں شمار ہوتے ہیں !!

تو الزام اور طعن و تشنیع دینی و مذہبی طبقے پر کیوں؟ اگر آپ کا ہی ایک فرد آپ کو سرِ بازار رسوا کر گیا ، آپ کا ہر بھید دنیا کو بتا گیا ، اور آپ کے مذہبِ لا دینیت کا بیعت کنندہ ہو کر ، اور آپ ہی کی صفوں کا سپاہی ہو کر ہم دقیانوسیت کے شکار و اسیر ، چودہ سو برس پیچھے کے خواب دیکھنے والے لوگوں کا کوئی کام کر گیا تو حضور ، آپ ہی کہیے اس میں ہمارا کیادوش ہے؟ اقبال ہی کے الفاظ میں،

تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار ، کیا تھی؟

حضورِ والا گزارش یہ ہے کہ اقبال اس سب سے اپنی زندگی میں بھی ماوراء تھا ، بالا تر تھا ، (یہ بھی سنو کہ نغمۂ طائرِ بام اور ہے ) ۔ اس کے کلام کا مطالعہ فرمائیے ، اقبال نے بڑائی کا دعویٰ کہاں کیا ہے؟ پارسائی کا دعویٰ کہاں کیا ؟ شاعر ہونے کا دعویٰ کہاں کیا؟
اقبال کہتا ہے:
بانگِ درا کی نظم "زہد اور رندی" میں
مجھ کو بھی تمَنّا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں ،واللہ نہیں ہے

بالِ جبریل کی غزل میں
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے؟

اقبال کی بانگِ درا کی نظم "نصیحت "کا بحیثیتِ مجموعی ملاحظہ فرمائیے ۔

اقبال نے کب بڑائی کا ، یا بڑا شاعر ہونے یا صرف شاعر بھی ہونے کا دعویٰ کیا ؟
اقبال تو خود کو شاعر سمجھتے ہی نہ تھے ۔
زبورِ عجم میں اقبال فرما گئے
نغمہ کجا و من کجا ، سازِ سخن بہانہ ایست
سُوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را

چھوڑیے حضور ، اقبال کی کیا بات کریں گے ، اس کی ایک مسجد قرطبہ اور ایک ساقی نامہ ہی بیشتر شعرا کے سارے کلا م پر بھاری ہیں مکمل فہرست کی کیا بات کیجیے!!! جبکہ اقبال کے یہاں اس کے کلامِ متروک میں ایسے ایسے گوہرِ تابدار ہیں، مثلاً نالۂ یتیم۔۔۔ یعنی یہ تو وہ ہیں جو بتائے ہم نے ، اب وہ سوچو جو چھپائے ہوں گے !!!
اقبال کے نفس کی تاب نہ ہم لا سکے نہ آپ ، سو کوئی برابری کا ، اپنے جوڑ کا فرد دیکھ لیتے ہیں ناں مشقِ ستم کے لیے ، کہ

دگر از یوسفِ گم گشتہ سخن نتواں گفت
تپَشِ خونِ زلیخا نہ تُو داری، و نہ من
منظوم ترجمہ
چھوڑیے ، یوسفِ گمگشتہ کی کیا بات کریں
شدّتِ شوقِ زلیخا نہ تجھے ہے ، نہ مجھے

خزفی بُود ، کہ از ساحلِ دریا چیدم
دانۂ گوہرِ یکتا نہ تُو داری ، و نہ من
منظوم ترجمہ
مَیں بھی ساحل سے خزف چنتا رہا ہُوں ، تُو بھی
حاصل اک گوہرِ یکتا نہ تجھے ہے ، نہ مجھے

بہ کہ با نورِ چراغِ تہہ داماں سازیم
طاقتِ جلوۂ سینا نہ تُو داری ، و نہ من
(یہ اقبال کی فارسی غزل کے اشعار ہیں ، جو پیامِ مشرق میں ہے ، جبکہ منظوم ترجمہ فیض احمد فیض نے کیا۔)
منظوم ترجمہ
یہ چراغِ تہہ داماں ہی بہت ہے ہم کو
طاقتِ جلوۂ سینا نہ تجھے ہے ، نہ مجھے

تو کلام یہی ہے حضور ، کہ آپ اور ہم تو تہی داماں ٹھہرے ، ادب نہ زندگی ، کچھ بھی تو نہیں ۔نہ زندگی ، نہ محَبّت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ!!!

چاند پر تھوکا جائے تو وہ کیا کبھی چاند تک پہنچتا ہے؟
من جواں ساقی و تُو پیرِ کہن میکدہ ئی
بزمِ ما تشنہ و صہبا نہ تُو داری و نہ من

Comments

HammadYounas

حماد یونس

حماد یونس کالم نگار اور تحقیق کار ہیں جو مختلف نثری جہتوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو اور انگریزی زبان میں غزل ، نظم اور آزاد نظم بھی کہتے ہیں۔ نمل لاہور سے انگریزی لسان و ادب میں ایم اے کر چکے ہیں ۔

Click here to post a comment