ابھی کل کی ہی بات ہے، اخوان کے قائم مقام مرشد عام ڈاکٹر ابراہیم منیر کا جنازہ تیار تھا، لوگ جنازہ مسجد لے جانے کے لیے بالکل تیار کھڑے تھے، اچانک ان کے صاحبزادے کی آواز آئی:
“کچھ دیر ہم یہیں انتظار کریں گے، والد محترم کے ایک بہت خاص دوست شیخ یوسف ندا، والد محترم کو الوداع کہنے کے لیے تشریف لا رہے ہیں!!!”
ڈاکٹر ہانی دیب وہاں موجود تھے، وہ یہ بات سن کر حیران رہ گئے۔ بآواز بلند کہنے لگے:
“ابھی کل کی بات ہے، ہاں کل کی ہی بات، شیخ یوسف کی حالت کافی زیادہ خطرناک ہورہی تھی، اور میں نے ان سے بہت تاکید کے ساتھ کہا تھا کہ یہ یہ دوائیں تبدیل ہوں گی، اور اب آپ کو مکمل بیڈ ریسٹ کرنا ہے، بالکل بھی چلنا پھرنا نہیں ہے، وہ کیسے یہاں آسکتے ہیں!”
ڈاکٹر ابراہیم کے بیٹے نے جواب دیا:
“انہوں نے بہت صاف صاف کہا ہے کہ وہ جنازے میں شرکت کے لیے پہنچ رہے ہیں”
ڈاکٹر ہانی کہنے لگے:
“میری کل ان سے بات ہوئی تھی، میں نے دیرینہ رفیق کی وفات پر ان سے تعزیت بھی کی تھی، لیکن انہوں نے ایک بار بھی جنازے میں شرکت کی بات نہیں کہی۔ نوے (90) سال کی عمر میں اور اس کمزوری اور بیماری کی حالت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سویزرلینڈ سے اٹلی آئیں، وہاں سے دوسری فلائٹ پکڑ کر لندن پہنچیں، پھر لندن ایئرپورٹ سے دو گھنٹے کی مسافت طے کرکے ڈاکٹر ابراہیم کے جنازے میں شریک ہوں! یہ سفر ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے! وہ کیسے ایسا کرسکتے ہیں!”
ڈاکٹر ابراہیم کے بیٹے نے کہا:
“خدا کی قسم، وہ بس چند منٹوں میں یہاں ہوں گے۔ ہم شیخ یوسف کے آنے سے پہلے تابوت کو بند نہیں کرسکتے”
ڈاکٹر ہانی کہتے ہیں:
چند ہی منٹ گزرے تھے کہ شیخ یوسف وہاں موجود تھے۔ وہ دس قدم بھی مشکل سے چل سکتے تھے، ان کے قدم بالکل بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، ہم نے لپک کر ان کے سامنے کرسی رکھی اور ان کو سہارا دے کر بیٹھا دیا۔ ان کی حالت دگرگوں تھی۔ زاروقطار رو رہے تھے۔ میں ان سے گلے لگ کر ان کو سہارا اور تسلی دینے کی کوشش کررہا تھا۔
یہ پانچ منٹ ہم پر قیامت تھے، میں اپنی سانسیں شمار کررہا تھا اور اپنے آنسووں کو ضبط کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
وہ اپنے دوست کو تابوت میں پڑا نہیں دیکھ پارہے تھے، ان کی دگرگوں حالت دیکھتے ہوئے ہم نے تابوت کو بند کردیا۔
میں نے شیخ یوسف سے پورے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ یہیں نماز جنازہ پڑھ لیں اور پھر یہاں سے واپس چلے چلیں، بہت اصرار کرنے پر وہ مشکل سے اس بات پر آمادہ ہوئے۔
شیخ یوسف کھڑے ہوئے اور وہیں نماز جنازہ ادا کی۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی میں نے ان سے کہا کہ آپ ساتھ میں ہوٹل چل چلیں کچھ دیر آرام کرکے واپسی کا پروگرام بنائیں گے۔ لیکن انہوں نے منع کردیا۔ کہنے لگے سب کے ساتھ مسجد چل کر نماز جنازہ ادا کروں گا۔
ڈاکٹر ہانی کہتے ہیں، میں نے ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہاں لوگوں کا ہجوم ہوگا، ہر طرح کے لوگ ہوں گے، آپ کا بیماری کی اس حالت میں مسجد جانا بالکل مناسب نہ ہوگا، اور یہاں سے مسجد کا فاصلہ بھی کم سے کم ایک گھنٹے کا ہے۔ بہت اصرار کرنے پر شیخ یوسف کہنے لگے:
ایسا ہے مجھے مسجد تک جانے دو، میں قبرستان نہیں جاؤں گا، لیکن مسجد تک مجھے ضرور جانا چاہیے۔
ڈاکٹر ہانی کہتے ہیں کہ پھر ہم لوگ مسجد کے لیے نکل پڑے۔ وہاں جنازے سے فارغ ہوئے اور پھر قبرستان کے لیے نکل پڑے، اس دوران خیال تھا کہ شیخ یوسف وہاں سے واپس چلے گئے ہوں گے۔ یہاں سے سوا گھنٹے کی مسافت طے کرکے میں ہم لوگ تدفین کے لیے لندن کے مشرق بعید کے علاقے میں موجود قبرستان پہنچ گئے۔ وہاں تدفین میں ہم لوگ مشغول تھے، کہ اچانک شیخ یوسف پر نظر پڑی، وہ ایک طرف کھڑے ہوئے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، وہ اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے، چنانچہ دونوں طرف سے لوگ ان کو سہارا دیے ہوئے تھے!!
ڈاکٹر ابراہیم اور شیخ یوسف کے درمیان نہ تو کوئی تنظیمی رشتہ تھا، نہ کوئی خاندانی رشتہ تھا، اور نہ کوئی مادی رشتہ تھا۔ ان کے درمیان صرف محبت تھی، اللہ کے لیے محبت، جس کو نہ محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
اللہ ڈاکٹر ابراہیم منیر کی مغفرت فرمائے اور شیخ یوسف کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔
ترجمہ: ابوالاعلیٰ سید سبحانی
تبصرہ لکھیے