ہوم << بابا محمد یحییٰ خان، دُعائے اقبالؒ - پروفیسر اخلاق احمد ساغر

بابا محمد یحییٰ خان، دُعائے اقبالؒ - پروفیسر اخلاق احمد ساغر

بہت دُعائیں کیں اقبال تو نے

مگر اک دُعا کا حاصل کمال ہے

بابامحمد یحییٰ خان دُعائے اقبالؒ ہیں۔ آپ قدرت اللہ شہاب کے قلم کے امین اورممتاز مفتی کے لاڈلے ہیں۔ آپ کو بابا اشفاق احمد اور ماں جی بانو قدسیہ کے ساتھ روحانی تقرب حاصل ہے۔ ماں جی بانو قدسیہ کو باباجی اپنی ماں جیسی قدرو منزلت دیتے رہے ہیں۔ بابا اشفاق احمد کے وصال کے بعد باباجی ،ماں جی کے گھر "داستان رائے" تشریف لے جاتے اور ماں جی کی خدمت میں رہتے جبکہ واصف علی واصف کے ساتھ قلبی و روحانی وابستگی ہے۔

مولانا عبدالسلام نیازی دہلوی، ماہر القادری، کرم الٰہی عرف کانواں والی سرکار اور مشہورپامسٹ میر بشیر کے ساتھآپ کا گہرا تعلق رہا ہے۔دنیا کے طول و عرض میں پھیلے ادیب ہوں یا فن کار ، بابا جی کے ساتھ ان کے مراسم مثالی ہیں۔ پاکستان کے سینئیر فن کار بابا جی کے فن کے معترف ہیں۔ بابا جی فرماتے ہیں پاکستان میرا میکہ ہے اور ہندوستان میرا سسرال یعنی پاکستان اور ہندوستان میں بابا جی کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔

کشمیر کے پہاڑوں سے ٹکرا، کر وادی کے گلزاروں سے مہکتی ہوئی ہوائیں بادلوں سے سرسراتی ہوئی جب سیالکوٹ پہنچتی ہیں تو یہاں کا ہر ایک شجر جھوم جھوم کر فضا کو خمار آلود کر دیتا ہے۔ یہ روح پرور ماحول بڑے بڑے عارفوں اور درویشوں کو دھیان سے گیان کی منزل تک لے جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے کو مہاتماؤں کی سرزمین کے نام سے بھی بھی یاد کیا جاتا ہے۔اسی مردم خیز شہر میں جوکہ شہر اقبال بھی کہلاتا ہے ، آپ 7 ستمبر 1936 کو پیدا ہوئے ۔بابا محمد یحییٰ خان دور حاضر کے عظیم صوفی بزرگ ، سیاح ، فن کاراور اردو کے مشہور و معروف اور سب سے مہنگے مصنف ہیں۔

آپ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے روحانی سرپرست ہیں۔ بابا جی نے اپنی زندگی میں بہت سے بین الاقوامی سینما گھروں اور اسٹیج شوز وغیرہ میں کام کیا ہے۔بابا جی نے پی ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈراموں میں بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش اور بہت سے دوسرے مختلف کردار ادا کیے ہیں۔ بابا جی نے اپنے صوفی افکار کو مختلف کتابوں جیسے پیا رنگ کالا، کاجل کوٹھا، شب دیدہ، من مندر ،من مسجد ، موم کی مورت ، لے بابا ابابیل اور بابا بلیک شیپ کے ذریعے پھیلایا ہے، ان کی تخلیقات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔آپ کا طرز تحریر اور طرز زیست منفرد بھی ہے اور دل چسپ بھی۔

قاری آپ کی کتاب پڑھتے سمے مسحور ہوجاتا ہے اور دنیا و مافیھا سے بے نیا زبھی۔ بابا جی کی تصنیفات قارئین کو جہان حیرت میں لے جاتی ہیں، انسان کائنات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے لگتا ہے۔آپ کی کتب قاری کو اپنے حصار میں لے کر جکڑلیتی ہیں اور سحرہ زدہ کردیتی ہیں، اپنی ذات کی نفی اور انسانیت کو فائدہ پہچانا آپ کی ہر کتاب کا درس ہے۔آپ کی کتابیں ادق بھی ہیں اور قاری کے لیے بعض اوقات لغت بھی بے معنی ہوجاتی ہیں، کیو ںکہ الفاظ بھی ،آپ کے سامنے دم سادھے موجود ہوتے ہیں کہ نہ جانے کب باباجی نئے لفظ کا اضافہ کردیں۔

بابا محمد یحییٰ خان رُوحانیت میں ایک اعلیٰ مقام کے حامل بزرگ ہیں۔آپ کو علمِ لدّنی حاصل ہے۔ظاہری تعلیم سے بے بہرہ ہونے کے باوجود اردو، ہندی، پنجابی، انگریزی سمیت سترہ زبانوں پر عبور رکھتے ہیں، آدھی درجن کے قریب اردو اور انگریزی کتب کے مصنف ہیں۔آپ تقریباًساری دنیا گھوم چکے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ کو اپنا پیر و مرشد مانتے ہیں۔ ہمیشہ سیاہ لباس پہنے ہیں۔ آج کل آپ لاہور میں رہتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل برٹش نیشنل بھی ہیں، اس بڑھاپے میں بھی چاک و چوبند اور توانا نظر آتے ہیں۔دنیا کے کسی بھی ایئر پورٹ پر امیگریشن حکام باباجی کو انتظار نہیں کرواتے بلکہ بابا جی ، باباجی کہتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہیں۔

بابا جی محمد یحییٰ خان لنگر خود تیار کرتے ہیںاور تقسیم فرماتے ہیں ، جو خوش نصیب آپ کے ہاتھ سے لنگرتناول کرلیتا ہے تو زندگی میں جب چاہے ، اس کا ذائقہ محسوس کرسکتا ہے۔مہمان نوازی ، باباجی کا امتیازی نشان ہے۔ باباجی اپنے کپڑے خود سلائی کرتے ہیں ، اپنی کتابوں کے سرورق خود ڈیزائن کرتے ہیں۔ آپ باکمال خطاط ہیں، بے مثال مصور ہیں، باذوق شاعر ہیں اور دنیا جہان کے فن آپ کے باطن میں پنہاں ہیں۔ جب چاہتے ہیں ، جہاں چاہتے ہیں ، اپنے فنون سے سامعین ، قارئین اور حاضرین کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔ آپ کی شخصیت کی اتنی جہتیں ہیں کہ مجھ ایسا کم علم اور کج فہم تحریر کرنے سے قاصر ہے۔

جچتا ہے سیاہ رنگ اسے بھی اور مجھے بھی

وہ چاند کسی رات کا، میں راکھ کسی دیئے کی

چوں کہ "بابا"میں 2الف ، اور 2 بائے ہیں ، اس لیے بابا جی"شب دیدہ "میں لفط ـ’بابا‘ کے ضمن میںفرماتے ہیںکہ"الف اور بائے کے طریق عشق سے ان کے جوہر نکھرے ہوتے ہیںیعنی اویس ؓ اور بلال ؓ کا عشقِ فقر، جذب اور صبر ، ان کا صاد و صادق ہوتا ہے۔ الف، مجذوب رسول ا تھا اور بائے، غلامِ رسول ا ۔ بس یہی مجذوب و غلام ۔ ہم فقیروں، دُرویشوں کے امام۔۔ مجھ غلام نے اسی اشفاق کے الف، اور بانو کی بائے سے مجاز سیکھا۔ الف اور بائے کا صدر ، صدق کھوجتے کھوجتے یہ جانا کہ حقیقت ، شریعت، معرفت، طریقت اور تصوف کے سارے راستے یہیں سے ہوگزرتے ہیں۔"

بابا جی نے ڈاکٹر اجمل نیازی (مرحوم )کی میزبانی میں ٹیلی ویژن پروگرام "پنجاب رنگ"میں ایک انٹریو میں اپنے بچپن کے بارے فرمایا کہ'' میرے والدین سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور ان کے ہاں اولاد نرینہ نہیں تھی اور ان کی عمر بھی کافی ہو چکی تھی۔علامہ اقبالؒ کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے اور بڑی بے تکلفی تھی۔ ایک بار انھوں نے علامہؒ اقبال سے اولاد نرینہ کے لیے دعا کی درخواست کی،حضرت علامہؒ اقبال نے میرے والد سے فرمایا کہ اگر آپ اس بڑھاپے میں اولاد نرینہ چاہتے ہو تو حضرت زکریاؑ کی سنت کے مطابق اس کا نام یحییٰ رکھنا، کیوں کہ حضرت زکریاؑ کو بھی اللہ تعالیٰ نے آخری عمر میں بیٹا عطا فرمایا تھا، جس کا نام انھوں نے یحییٰ ؑ رکھا تھا، اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائے گا.

اس کا نام سنت زکریا ؑ پر یحییٰ رکھنا، میری ولادت پر میرے والدین نے میرا نام بھی یحییٰ رکھا، جب میں چند سال کا تھا تو بہت بیمار ہوگیا اور اتنا کمزور ہوگیا کہ جان کے لالے پڑ گئے، میرے والدین میں سے کسی کو بھی میرے زندہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی ،ویسے بھی میں پیدائش کے وقت سے ہی بہت کمزور تھا،میری دادی اور دیگر رشتہ داروں نے میرے والد صاحب سے کہا کہ اسے لاہور لے جائیں اور اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں ،والد صاحب نے کہا کہ ہاں لاہور میں ایک ہی اچھا ڈاکٹر ہے اور مجھے علامہ اقبالؒ کے پاس لے آئے،علامہ اقبالؒ ان دنوں کافی بیمار تھے۔ ان کا گلا بھی ٹھیک نہیں تھا۔جس سے بولنے میں کافی دقت ہوتی تھی اور لوگوں سے ملاقات بھی بند تھی ،چوںکہ والد صاحب کے ان سے دیرینہ تعلقات تھے.

اس لیے ہمیں ملاقات کی اجازت مل گئی، علامہ اقبالؒ نے مجھے گود میں بٹھایا، پیار کیا اور پھر پاس بٹھا لیا۔ میں نے وہاں کپڑوں میں پیشاب کر دیا تو علّامہؒ صاحب نے ملازم سے فرمایا، اسے کوئی سوکھا کپڑا لا کر دو، تو علی بخش نے علامہ اقبالؒ کی استعمال شدہ چادر جس میں سیاہ رنگ کے خانے بنے ہوئے تھے، لا کر مجھے اوڑھا دی،علّامہؒ صاحب نے والد صاحب سے فرمایا، اللہ خیر کرے گا، اس کے لیے کالے رنگ میں شفا ہے،اس کو کالے رنگ کے کپڑے پہنایا کریں، پھر واقعی اللہ تعالیٰ نے کرم کر دیا اور میں تندرست ہوگیا اور اُس روز سے کالا رنگ میرا پسندیدہ رنگ بن گیا۔"

ہمیں کوئی پہچان نہ پایا قریب سے

کچھ اندھے تھے کچھ اندھیروں میں تھے

Comments

Click here to post a comment