استنبول پہنچنے پر جہاز سے نکلتے ہی ایک خوبصورت احساس جیسے میرے دل و دماغ میں ابھر گیا، ایسا لگا جیسے گھر پہنچ گیا ہوں۔ترکوں سے ہندوستانی مسلمانوں کا قلبی تعلق کوئی نیا نہیں، جہاز سے نکلتے وقت گو کہ بلا کی بارش تھی جس نے میرے کپڑوں، جوتوں اور بستہ سمیت ہر شے کو نم کردیا تھا، لیکن جذبوں کی آگ جیسے مزید بھڑک اٹھی تھی۔
ایک اجنبی تہذیب، غیر قوم اور غیر ملک میں ہونے کے باوجود مجھے کسی بھی لمحے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں ایک اجنبی ملک میں ہوں۔ ہوائی اڈے سے باہر نکل کر سم خریدی اور معزز میزبان احسن بھائی سے رابطہ کیا۔ ماشاءاللہ، احسن بھائی نے فون پہ ہی خوشخبری سنائی کہ معاذ لیاقت، سعد لیاقت، ان کہ چچا جان اور ان کے کزن جناب عفان بھائی بھی استنبول میں ان کے مہمان ہیں، بس ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ علاوہ سعد بھائی کے، باقی سب لوگ پاکستان واپس جا رہے ہیں چنانچہ احسن بھائی بروقت ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکیں گے۔
ویسے تو یہ اتنے مسئلہ والی بات نہیں تھی کہ میرے پاس فون بھی آچکا تھا اور گاڑی بھی مل چکی تھی، لیکن چونکہ استنبول میں گاڑی مخالف سمت میں چلائی جاتی ہے اور میرا کوئی تجربہ اس حوالے سے نہیں، لہذا بذریعہ گاڑی ایک انجان شہر میں انجان راستوں پر گاڑی چلانا اتنا بھی آسان نہیں۔
خیر ہم نے پہلے پہل تو شرافت دکھاتے ہوئے برطانوی اسٹائل میں گاڑی چلائی لیکن کچھ 5-7 منٹ میں ہی اندازہ ہوگیا کہ" بھاؤ، کراچی اسٹائل میں ہی ڈرایئونگ کرنا پڑے گی ورنہ تو اگلی صبح تک 'اسکودر' نہیں پہنچنے کے" ۔ برسہا برس پہلے ابا جی نے سکھایا تھاکہ بیٹا 'کانفیڈینس، آدھی کامیابی ہے'
بس پھر آپ کا بھائی رکشہ بھگاؤ اسٹائل میں گاڑی چلاتا، دایئں بایئں منڈھتا ہوا صبیحا گوکچن ایئرپورٹ سے اسکودر پہنچا۔ تجربہ کی بات ہے،
ہائی ویز پہ گاڑی چلانا اور بات ہے اور شہر میں گاڑی چلانا بالکل ہی اور بات ہوتی ہے۔ میری صلاح ہوگی کہ جب بھی کبھی آپ استنبول جایئے اور ڈرایئونگ کرنا چاہیں تو ایک منی بس، دوسری ٹیکسی اور تیسرے موٹرسایئکل سواروں سے ہوشیار رہیں۔
اور اگر تو آپ ہوشیار ہیں، چابک دست ہیں، میری طرح ہیں تب تو اول الذکر آپ سے ہوشیار رہیں گے، اور ورنہ انشورنس تو ہے ہی ہے!
خیر، منجانب الٰہی سلامتی سے اسکودر پہنچنے کے بعد اصل امتحان شروع ہوا، پورا علاقہ، جیسے نصرت بھٹو کالونی سے متاثر ہوکر یا بنارس کالونی سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہو، وہ بھی قابل قبول تھا، لیکن بارش اور سیلی اینٹوں سے بنائی ہوئی گلیاں اور راہداریاں، پہلی دفعہ ایسے موسم میں گاڑی چلانا اور اونچائی اور ڈھلان پر گاڑی سنبھالنا اتنا بھی آسان نہیں، خیر قصہ مختصر، بہ عافیت منزل پر پہنچے، احسن بھائی کو کال کی جو فوراً ہی مجھے لینے کے لیے گلی میں آگئے، گاڑی پارک کروائی اور انتہائی خوش دلی سے استقبال کیا۔
سعد بھائی، معاذ بھائی و دیگرم سے تقریباً دس سال کے بعد ملاقات ہوئی ، اس سے پہلے باجی کی شادی پر جب پاکستان گیا تھا تب ان دنوں میں سعد بھائی اور معاذ بھائی سے مختصراً ملاقات ہوئی تھی جبکہ ان کے چچا جان سے ڈانٹ کھانے کا موقعہ بھی ملا تھا، جو کہ خود ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ دوپہر/شام کے کھانے اور چائے سے فارغ ہونے کے بعد معاذ بھائی وغیرہ کی واپسی تھی، چناچہ انہیں الوداع کہا اور احسن بھائی کے ساتھ آگے کا پروگرام بنانے لگے۔ در ایں اثناء مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر میں اور احسن بھائی ابھی، سعد بھائی کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ عشاء کا ٹائم ہو چلا، چنانچہ ہم نماز عشاء کی ادائیگی کے لیے 'والدے جامی/مسجد' کا رخ کیا۔ سبحان اللہ، ترک موذن اور ترک امام، کیا خوبصورت اذان دیتے ہیں اور کیا ہی خوبصورت قرات کرتے ہیں۔
والدے جامی مسجد کا قیام اٹھارہویں صدی میں عمل میں لایا گیا اور سعد بھائی کےبقول مسجد کی پوری عمارت سنگ مرمر کی سلوں سے آراستہ ہے، پتلی پتلی پتریوں سے نہیں۔ خیر عشاء کی نماز سے فارغ ہوتے ہوتے سعد بھائی واپس آچکے تھے اور پھوار بھی آہستہ آہستہ چل رہی تھی، پروگرام بنا کہ بغیر پاسپورٹ یورپ چلنا چاہیے۔ ہم نے گاڑی لی اور فٹافٹ آبنائے باسفور کےساتھ ساتھ گاڑی چلاتے ہوئے باسفور برج تک پہنچے، براعظم ایشیاء اور بر اعظم یورپ کہ درمیان یہی برج ہے جو کہ زمینی رابطہ قائم رکھے ہوئے ہے اور اسی کے ساتھ ایک 'اوراسیا' یا Avrasya نامی زیر سمندر سرنگ ہے جو دو بر اعظموں کو ملاتی ہے۔
آبنائے باسفور پہ جھولتا یہ برج فن معماری کا حقیقی عجوبہ ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح رات کہ اندھیروں میں ٹمٹماتی روشنیوں کہ بیچ 'دولما باھیچے'، آخری عثمانی خلیفہ، سلطان عبدالحمید خان کی رہائش گاہ، آبنائے باسفور کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ خیر ۔
ہماری منزل 'تقسیم سکوائر' تھی، گھومتے گھماتے جب تقسیم پہنچے تو اس بات کا رتی برابر بھی احساس نہیں ہوا کہ شدت ٹھنڈ یا بارش، استنبول کہ رہائشیوں کو زیر کرسکتے ہیں۔ رونقیں اسی طرح، روشنیاں اسی طرح، ایک دنیا تھی جو امڈ آئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ مسلسل آئے چلے جا رہے ہیں۔ چاہے عربی ہوں، ترک ہوں، گورے ہوں یا بھولے بسرے پاکستانی و بھارتی شہری، ہر دکان، ہر اسٹال پر لوگ ہی لوگ، کچھ ہماری طرح بس 'دل پشوری' کرنے کیلئے نکلے ہوئے تھے کچھ کباب و حباب کیلئے، لیکن جہاں نظر گھما کر دیکھئے انسانوں کا سمندر۔
احسن بھائی نے بتایا کہ تقسیم سکوائر پہ ایک مخصوص جماعت اکثر و بیشتر اپنے جلسے اور جلوس منعقد کرتی ہے، شاید جسکی ایک وجہ یہاں اتاترک، مصطفی کمال کا یادگاری مجسمہ ہے اسی کے ساتھ عثمانی طرز پر ترکی کی موجودہ حکومت نے ایک عالیشان مسجد بنانے کا بھی اعلان کیا ہے جو کہ فی الحال زیر تعمیر ہے۔
ہر گذرتی ساعت کے ساتھ تھکان بڑھتی جارہی تھی اور اوپر سے ٹھنڈ اور بارش کی باعث آہستہ آہستہ میری آنکھوں میں نیند اترنی شروع ہوگئی تھی، اور اگلے دن ہمیں سوگت (سووت) کیلئے بھی نکلنا تھا، ان سب معاملات کے پیش نظر ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا، لیکن احسن بھائی کے مشورے سے ہم آورآسیا سرنگ سے واپس آئے۔ ساڑھے پانچ کلو میٹر لمبی یہ سرنگ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں، لمبی اتنی کہ انسان ایک وقت کو تھکنا شروع ہوجاتا ہے کہ کب ختم ہوگی، اونچی اتنی کہ آرام سے سولہ/اٹھارہ ویہلر ٹرک بھی نکل جائے، اور چوڑی اتنی کہ دونوں طرف آمنے سامنے سے آنے والے ٹرک باآسانی نکل جائیں۔
تھکے ماندے گھر پہنچے ، گاڑی لگائی اور اگلے دن کے پروگرام کہ بارے سوچتے سوچتے نیند کی حسین وادیوں میں کھو گئے۔
تبصرہ لکھیے